عمر کوٹ کے بھرت کمار، جو کتابیں عطیہ کرنے کے رجحان کو فروغ دے رہے ہیں

ویب ڈیسک

اس عہد کا ایک حقیقی بڑا المیہ یہ ہے کہ کتب پیچھے رہ گئی ہیں۔ کتب بینی کا رجحان روز بروز کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کی بے مثال پیشرفت نے عام آدمی کو کتاب سے دور کردیا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کی سرشت کا حصہ تھی مگر یہ کم و بیش پچیس سال پہلے تک کی بات ہے۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے انٹرنیٹ کے عام ہونے تک‘ انسان کتب بینی کا عادی رہا۔ ریڈیو اور ٹی وی کی ایجاد کے بعد فلم کی آمد نے بھی انسان کو کتاب سے دور نہیں کیا تھا

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کم و بیش سات ارب موبائل فون استعمال کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز سمیت ہر ماہ مجموعی طور پر 168 ارب پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پیغامات کی ترسیل ہوگی تو انسان کتب بینی کی طرف کیسے آئے گا؟

سوشل میڈیا نے عام آدمی کے لیے باقی دنیا سے جڑنا آسان کردیا ہے۔ ایک دور تھا کہ انسان کتب اور اخبارات کے ذریعے باقی دنیا سے ڈھنگ کا تعلق استوار رکھنے میں کامیاب ہو پاتا تھا۔ آج کا انسان سمارٹ فون کی معرفت سوشل میڈیا سے مستفیض ہوکر اس خوش فہمی کی نذر ہو رہتا ہے کہ اُس نے بہت کچھ جان لیا ہے

اس خوشفہمی کی وجہ سے کتابوں کی جگہ سمارٹ فون نے لے لی ہے اور لائبریریوں کا وجود بھی بے معنی سا ہو کر رہ گیا ہے

لیکن عمر کوٹ کے چند نوجوانوں نے لائبریریوں کو ایک بار پھر سے فعال کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے

سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھرت کمار 2020ع سے عمر کوٹ کی شہید عبدالرحیم گرھوڑی لائبریری کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلا کر کتابیں جمع کر رہے ہیں

بھرت کمار کہتے ہیں ”میں نے اپنے کچھ ہم خیال نوجوان دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا، جس کے ذریعے ہم نے اب تک پانچ ہزار سے زائد کتابیں جمع کر کے لائبریری میں جمع کروا دی ہیں“

انہوں نے مزید بتایا کہ جب شہید عبدالرحیم گرھوڑی لائبریری کا قیام ہوا تو یہاں پر کتابیں نہ ہونے کے برابر تھیں، پھر ان کو یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے اس ادارے کی مدد کی جائے اور اس لائبریری کے لیے کتابیں جمع کی جائیں

اسی سوچ کے تحت بھرت کمار نے کتابیں جمع کرنے کی ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا

بھرت کمار بتاتے ہیں کہ سندھ کے دیگر شہروں میں لائبریریاں تھیں لیکن عمر کوٹ میں ایسی کوئی لائبریری نہیں تھی۔ یہ لائبریری عمرکوٹ کے نوجوانوں کی اپیل پر حکومت نے بنائی ہے

بھرت کمار نے اس مہم کے حوالے سے بتایا کہ اس کا آغاز انہوں نے عمرکوٹ سے کیا لیکن سندھ کے دیگر شہروں کراچی، سکھر، سانگھڑ، کھپرو، کنری، سامارو، پتھورو اور تھرپارکر کے ضلع کے شہروں سمیت کئی شہروں سے لوگوں نے کتابیں بھیجیں۔ جو لوگ کتابیں بھیجتے تھے، تو سوشل میڈیا پر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ ادا کیا جاتا تھا

’سوشل میڈیا پوسٹ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس مہم کا حصہ بنتے اور کتابیں عطیہ کرتے تھے۔‘

ان جمع کردہ کتابوں میں ادبی کتب سمیت دیگر نصابی کتابیں شامل ہیں، جس سے کئی طالب علم جو دیگر شہروں سے عمر کوٹ میں تعلیم کے حصول کے لیے کالجوں میں پڑھتے ہیں، وہ اپنی کلاسز کے بعد لائبریری میں آکر ان کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں

بھرت کمار کا کہنا ہے کہ اس مہم کو شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایسی کتابیں یا کورسز جیسے کے سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) اور پبلک سروس کمیشن (پی سی ایس) جیسے امتحانات کی تیاری کی کتابیں، جو غریب طلبہ خرید نہیں سکتے ہیں تو وہ اس لائبریری سے مفت میں لے کر پڑھ سکتے ہیں

”اس مہم سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ جہاں ہمارے معاشرے میں دیگر چیزیں عطیہ کی جاتی ہیں، وہیں کتابیں عطیہ کرنے کا رجحان بھی پیدا کریں“

بھرت نے مزید بتایا کہ شروع شروع میں پانچ سو کتابیں جمع کرنے میں کافی مشکلات پیش آئیں، لیکن پھر لوگوں نے کتابیں دینا شروع کیں تو پتا بھی نہ چلا کہ پانچ سو سے پانچ ہزار کتابیں جمع ہوگئیں

بھرت کمار نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ”طالب علم اور نوجوان اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اسکولوں میں لائبریریاں قائم کریں اور اس کے لیے کتابیں جمع کریں، جس سے آنے والی نسل مستفید ہو سکے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close