شہباز شریف، یوسف گیلانی سمیت اہم شخصیات کے خلاف نیب کیسز واپس

ویب ڈیسک

موجودہ حکومت کی جانب سے کیے گئے ’نیب ترمیمی قانون‘ کے تحت احتساب عدالتوں نے موجودہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف درجنوں ریفرنسز عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر نیب کو واپس کر دیے ہیں

نیب ذرائع کے مطابق گذشتہ ماہ کے دوران احتساب عدالتوں نے سابق وزرائے اعظم، سیاسی شخصیات اور کاروبای شخصیات کے کیسز واپس بھیجے ہیں

قانون میں ترمیم کے تحت ملزمان کو ریلیف ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ملزمان نے نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت احتساب عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں، جنہیں منظور کرتے ہوئے نیب ریفرنسز احتساب عدالتوں نے واپس کر دیے

اس طرح کے تقریباً تمام ریفرنسز ان لوگوں کے خلاف تھے، جن کا تعلق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت موجودہ مخلوط حکومت سے تھا

ذرائع کے مطابق ان کیسز میں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس، سابق وزیر اعظم اور موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنسز اور سابق وزیراعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ ریفرنس شامل ہیں

عدالتوں نے سینیٹر سلیم مانڈووی والا اور اعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس، سابق وزیراعلٰی کے پی سردار مہتاب عباسی کے خلاف نیب ریفرنس، پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں خرد برد کا ریفرنس سمیت دیگر شخصیات کے خلاف درجنوں کیسز واپس کر دیے ہیں

احتساب عدالتوں نے مضاربہ اسکینڈل اور کمپنیز فراڈ کے وہ ریفرنسز بھی نیب کو واپس کر دیے ہیں، جن میں متاثرین اور شکایت کنندگان کی تعداد سو سے کم تھی

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

نئی حکومت کی جانب سے کی گئی نیب ترامیم کے بعد نیب پنجاب کے سابق ڈائریکٹر فاروق حمید کا کہنا ہے ”حکومت کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ بیورو کو غیر فعال کرنے کے لیے ایسی قانون سازی کرنے کے بجائے اسے بند ہی کر دیتی“

ان کا کہنا تھا ”کرپٹ اشرافیہ کا احتساب اب ناممکنات میں سے ہے، حکومت نیب کے لیے بجٹ میں اربوں روپے کیوں مختص کرے جب کہ اس نے یہ یقینی بنانے کے لیے تبدیلیاں کی ہیں کہ بدعنوانوں کے ذریعے لوٹے گئے اربوں روپے کی واپسی نہ ہو سکے“

ایک سابق پراسیکیوٹر جنرل کا خیال ہے کہ مقدمات کو قومی احتساب بیورو کو واپس بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ ’جرم کا ارتکاب نہیں ہوا‘ اور اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے درجنوں کیسز تھے

وفاقی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نیب کے نئے سربراہ جنہیں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے منتخب کردہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے تعینات کیا تھا، ان کرپشن کیسز کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ جیسے دیگر فورمز کو بھیجیں گے

انہوں نے کہا ”بظاہر یہ بدعنوانی کے ریفرنسز بند ہوگئے ہیں کیونکہ نیب انہیں کارروائی کے لیے متعلقہ قانونی فورمز کو بھیجنے میں کوئی جلدی نہیں دکھا رہا اور تقریباً تمام ایسے ریفرنسز ان لوگوں کے خلاف تھے جن کا تعلق موجودہ مخلوط حکومت سے ہے“

جب نیب کے ترجمان ندیم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسے تمام کیسز کا فیصلہ ’قانون کے مطابق‘ کیا جائے گا

نیب کے ایک سابق پراسیکیوٹر کے مطابق نیب قوانین میں جو سب سے واضح تبدیلی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ثبوت کا بوجھ بیورو کو مبینہ بدعنوانی کی رپورٹ دینے والے پر ڈال دیا گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مشتبہ شخص کسی بھی ذریعے سے آسانی سے اپنی جمع کی ہوئی دولت لے کر فرار ہو سکتا ہے

نیب قوانین میں ترامیم کیا ہیں؟

خیال رہے رواں سال اگست میں پاکستان کی ‏قومی اسمبلی نے نیب دوسرا ترمیمی بل 2022 کثرت رائے سے منظور کر لیا تھا، جس کے مطابق نیب پچاس کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا

بِل کے تحت احتساب عدالت کے ججز کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ نیب ترمیم کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد بھی نہیں لی جا سکے گی

بل کے تحت ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہوگا، جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ نیب تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ریفرنس دائر کرے گا۔ پلی بارگین کے تحت رقم واپسی میں ناکامی کی صورت میں پلی بارگین کا معاہدہ ختم ہو جائے گا

نیب ترمیمی بل کے مطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کاروائی منسوخ کر دے گا جو ’بلاجواز‘ ہو۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اگر چیئرمین نیب کو لگے کہ ریفرنس ’بلاجواز‘ ہے، تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتے ہیں

بل کے تحت نیب آرڈیننس کا اطلاق حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت لین دین، ریاستی ملکیت کے اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر نہیں ہوگا۔ پچاس کروڑ روپے سے کم کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ صدر وفاقی حکومت کی سفارش پر پراسیکیوٹر جنرل مقرر کرے گا

بل میں وفاقی حکومت کو نیب عدالتوں کے قیام کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ نیب جرائم کے ٹرائل کے حوالے سے وفاقی حکومت جتنی چاہے عدالتیں قائم کر سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close