ابو طبیلہ: ’کرائے کا اطالوی فوجی‘ جو پشاور کا سخت گیر حاکم بنا اور زندگی کی بازی محبت کے ہاتھوں ہارا

نازش خان

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو خیبر پختونخوا کا صوبائی دارالحکومت پشاور متعدد مرتبہ بیرونی حملہ آوروں کا نشانہ بنا اور بظاہر اس کی بنیادی وجہ یہی لگتی ہے کہ یہ شہر براستہ درہ خیبر ہندوستان پر حملہ آور ہونے والوں کی گزرگاہ تھا۔

سنہ 1818 میں شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) پر سکھوں کے حملے کا آغاز ہوا اور سنہ 1826 میں رنجیت سنگھ پختونوں کی اِس سرزمین کے حاکم بن گئے

اطالوی فوجی پاؤلو آویتابلے (جنھیں پشاور کے مقامی لوگوں میں ابو طبیلہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کا کردار بھی رنجیت سنگھ کے دور میں ہی سامنے آتا ہے، جنھیں رنجیت سنگھ نے پشاور کا گورنر مقرر کیا۔ مگر یہ اطالوی فوجی پشاور تک کیسے پہنچے اور اُن کے گورنر راج کے دوران پشاور اور اِس کے شہریوں پر کیا بیتی، یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔

پاؤلو آویتابلے (ابوطبیلہ) پشاور کیسے پہنچے؟

نپولین دور کے خاتمے کے بعد گرینڈ آرمی کے بہت سے سابق فوجی خوش قسمتی کی تلاش میں ہندوستان آئے۔ ابو طبیلہ بھی انھی فوجیوں میں ایک تھے جنھوں نے بعدازاں فارس اور پنجاب میں فوجی مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔

یہاں انھیں وزیرآباد اور پھر پشاور کا گورنر مقرر کیا گیا۔ پشاور میں انھوں نے مقامی رسم و رواج اور یورپی اصولوں کو یکجا کرتے ہوئے یہاں بسنے والے قبائل پر اپنی گرفت مضبوط کی۔

اس سٹریٹیجک پوزیشن کے کنٹرول کے نتیجے میں وہ پہلی اینگلو، افغان جنگ کے دوران برطانوی فوج کے ساتھ رابطے میں آئے اور ابوطبیلہ نے 400 بہترین فوجیوں کی مدد فراہم کر کے اہم سہولت کار کا کردار ادا کیا اور پولیٹکل افسروں میں بہت زیادہ شہرت حاصل کی۔

ابوطبیلہ کے حالاتِ زندگی پر تحقیق کرنے والے محکمہ آرکیالوجی کے سب ریجنل آفیسر نواز الدین کے مطابق پشاور کے گورنر کے طور پر ابو طبیلہ نے درہ خیبر کے جنوبی دروازے کو کنٹرول کیا، اگرچہ مہاراجہ نے انگریزوں کو سکھ سلطنت سے گزر کر درہ خیبر تک جانے کی اجازت نہیں دی تاہم انھوں نے ابوطبیلہ کو حکم دیا کہ وہ درہ خیبر تک انگریزوں کی مدد کریں۔

نواز الدین کے مطابق سنہ 1839 میں انگریزوں کی پیش قدمی کے دوران پشاور میں اُن (انگریزوں) کا خیرمقدم کیا گیا اور ان کے افسروں کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا گیا۔ انگریز افسر کیپٹن ہیولاک نے پشاور میں ایک مہینہ گزارا، اور اپنی یادداشتوں میں ابوطبیلہ کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ’وہ گورنر کے طور پر ایک سازگار شخصیت ہونے کے علاوہ ایک بے تکلف، خوش مزاج اور ہنر مند افسر ہیں۔‘

دوسری جانب اُن کے دو سوانح نگاروں، جولین جیمز کاٹن اور چارلس گرے، نے ان کی کیریئر مہم جوئیوں اور مقامی ریاستوں کے درمیان تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی شبیہ ایک ظالم، بے رحم اور تقریباً اداس حکمران کے طور پر بڑی حد تک قائم کی ہے۔

ابو طبیلہ کون تھے؟

پاؤلو آویتابلے (ابوطبیلہ) کے سوانح نگاروں نے اُن کے ابتدائی کیریئر اور زندگی پر کچھ روشنی ڈالی ہے جس کے مطابق ابوطبیلہ کی پیدائش 25 اکتوبر 1791 کو اٹلی کے ایک چھوٹے سے گاؤں اجیرولا میں ایک کسان کے گھر ہوئی۔ محض سولہ سال کی عمر میں ہی انھوں نے فرانسیسی جنگجو نپولین کی فوج کی آرٹلری برانچ میں شمولیت اختیار کی۔

سنہ 1810 میں فرانسیسی فوج کے توپ خانے میں شامل ہو کر وہ پانچ سال کی قلیل مدت میں ہی لیفٹیننٹ کے عہدے پر پہنچ گئے۔ ایک سال بعد یعنی سنہ 1816 میں برطانوی جنگجو لارڈ ویلنگٹن کے ہاتھوں نپولین کی فوج کو ملنے والی شکست کے بعد ان کا عہدہ چھین لیا گیا جس کے بعد وہ ریزرو انفنٹری رجمنٹ میں آدھی تنخواہ کے عوض کام کرنے پر مجبور ہوئے۔

نپولین کی فوج میں کیریئر میں بڑھوتری کے مزید امکانات نظر نہ آنے پر وہ مستعفی ہو گئے اور ایشیا میں فوجی ملازمت کی تلاش میں سنہ 1817 میں قسطنطنیہ پہنچے۔ وہاں انھیں فارسی بادشاہ فتح علی نے ایلچی رکھا جہاں انھوں نے 1818 سے 1826 تک فارس میں ایک فوجی انسٹرکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

آٹھ سال تک اس عہدے پر خدمات انجام دینے کے بعد وہ سنہ 1826 میں اپنے ملک اٹلی واپس چلے گئے۔ اٹلی میں ابو طبیلہ کے قیام کی مدت کم رہی اور فقط ایک سال بعد ہی یعنی 1827 میں ایک بار پھر انھوں نے رختِ سفر باندھا اور اس بار ان کی منزل ایشیا تھی۔

وہ فارس میں اپنے دو سابق ساتھیوں، جین فرانکوئس ایلارڈ اور جین بپٹسٹ وینٹورا، کی تجویز پر، جو اُس وقت پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ماتحت فوجی کمانڈر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے، ہندوستان چلے آئے۔

یہ دور پنجاب میں سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا تھا جس کی فوج میں ابو طبیلہ نے بطور ’کرائے کے کمانڈر‘ تعیناتی اختیار کر لی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں بطور توپ خانہ انسٹرکٹر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔

انھوں نے جلد ہی اپنی شاندار انتظامی صلاحیتوں سے توپ خانے کو مکمل منظم کیا اور انفنٹری بریگیڈ کو یورپی ماڈل پر استوار کیا۔

رنجیت سنگھ، ابوطبیلہ کے معترف

رنجیت سنگھ کو ابوطبیلہ کی عسکری اور انتظامی خوبیوں کا ادراک بخوبی ہو چلا تھا لہذا دسمبر 1829 میں ابو طبیلہ کی زندگی نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب رنجیت سنگھ نے ابو طبیلہ کو پنجاب میں وزیر آباد کا گورنر مقرر کر دیا۔

بطور گورنر ان کا اصل کام یورپی فوجی اصولوں پر پیادہ فوج کو منظم کرنا تھا۔ انھوں نے پنجاب میں تجارت کے فروغ اور استحکام کے لیے یورپی نظام لاگو کرنا شروع کیا ایک منفرد طرز حکمرانی تشکیل دی، جس کے تحت ریونیو اور تجارت کے انتظام میں یورپی نظریات کو مقامی روایات کے ساتھ ضم کیا۔

انھوں نے شہر کو نئی چوڑی گلیوں اور بازاروں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا۔

اُن کی گورنری مثالی نظریات نہیں بلکہ عملیت پسندی سے متاثر تھی، جو بہت سے نسلی گروہوں، مذاہب اور رسوم و رواج کے حامل ملک پر مؤثر طریقے سے حکومت کرنے کے لیے ضروری تھی۔

ان کی حکمرانی میں وزیرآباد میں امن اور معاشی ترقی میں زبردست اضافہ ہوا جسے بہت سے برطانوی اور ہندوستانی مبصرین نے بھی سراہا تھا۔

لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے اقتدار کے باوجود انھوں نے مذہبی ثقافتی و روایتی رسم ورواج کو چھیڑنے یا ان میں ترامیم کی کوشیش نہیں کیں۔

پشاور میں گورنر

وزیر آباد میں چھ سال تک گورنر تعینات رہنے کے بعد سنہ 1835 میں انھیں پشاور کے گورنر ہری سنگھ نلوہ کا ریوینیو افسر (افسر مال) تعینات کر دیا گیا۔ اپریل 1837 میں ہری سنگھ نلوہ کے جمرود قلعہ میں قتل کے بعد, مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ابو طبیلہ کو پشتونوں کو زیر کرنے کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہوئے حاکم پشاور (گورنر) کے عہدے پر فائز کر دیا۔

ابوطبیلہ کے حالاتِ زندگی پر تحقیق کرنے والے محکمہ آرکیالوجی کے سب ریجنل آفیسر نواز الدین کے مطابق سکھوں نے خیبر پختونخوا کے بڑے علاقوں پر طویل عرصہ سخت گیر حکمرانی کی۔ اُس دور میں پشاور میں بسنے والوں سمیت قبائلیوں میں بھی سکھوں کے سخت طرز حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ اور نفرت پائی جاتی تھی۔

نواز الدین کے مطابق تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پشتونوں نے بھی اسی نفرت کے تحت سکھ فوجیوں اور شہریوں کو لوٹنے یا قتل کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا، بس موقع ملنے کی دیر ہوتی اور وہ اُن پر حملہ آور ہو جاتے اور چونکہ ابو طبیلہ بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے ہی خدمات انجام دے رہے تھے سو فطری طور پر اُن کی ہمدردیاں اور نرم گوشہ سکھوں کی جانب تھا۔

چنانچہ شہر میں اپنا سکہ جمانے اور سکھوں پر ہونے والے حملوں کے خاتمے کے لیے انھوں نے انتہائی سخت قوانین بنائے حتی کہ اس سلسلے میں بنایا گیا ان کا عدالتی انصاف کا نظام دنیا کے متنازع ترین نظاموں میں گنا جاتا ہے۔

ابو طبیلہ نے بیرونی حملہ آوروں کی پسپائی اور شہر کی حفاظت کے لیے فصیل شہر بنوائی اور اسی فصیل شہر کے باہر پھانسی گھاٹ بھی قائم کیے۔

مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ان پھانسی گھاٹوں پر 50 سے 60 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا اور یہاں لٹکتی لاشیں اس بات کا نقارہ ہوتیں کہ بغاوت یا عداوت کرنے والوں کا انجام عبرتناک موت کے سوا کچھ نہیں۔

سر ہنری لارنس کے مطابق لوگوں کو مسجد مہابت خان (جو سنہ 1630 میں تعمیر کی گئی) کے میناروں سے پھینکنا اور پھانسی دینا اُن (ابوطبیلہ) کا ایسا معمول تھا جو پشاور کے دورے پر آئے یورپین شہریوں کے لیے بھی بربریت کی علامت تھا۔ ابو طبیلہ جھوٹ بولنے والے کو سزا زبان کاٹنے کی صورت دیتے۔

معروف لوک داستانوں میں درج ہے کہ پشاور میں وہ دور بھی گزرا جب ’مائیں بچوں سے کہتیں سو جاؤ ورنہ ابو طبیلہ آ جائے گا۔‘ ابوطبیلہ چونکہ گورنر بننے سے قبل پشاور میں ٹیکس افسر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے اسی لیے وہ ٹیکس وصولی میں بھی بلا کے کٹر تھے۔

چند لوک داستانوں میں یہ دعوے بھی موجود ہیں کہ ابو طبیلہ ٹیکس چوروں کو دیوار میں چنوا دیا کرتے، یعنی ٹیکس ادائیگی نہ کرنے والوں کا انجام بھیانک موت تھا۔

کتاب ’ضلع پشاور کا گزٹ‘ میں درج ہے کہ ٹیکس وصولی کے لیے انھوں نے ’ریکارڈ بُک‘ کا نظام شروع کر رکھا تھا اور ایک مقررہ شرح ٹیکس متعارف کروائی۔ اس کتاب میں تاریخ کے کئی معتبر حوالوں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اُس دور میں پشاور کی آمدنی میں بتدریج اضافہ ہوا، جو کہ درانی دور حکومت کے محصولات سے کئی زیادہ تھا، مالی خوشحالی اپنی جگہ تو دوسری جانب ان کے دور میں مقامی لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا عام سی بات تھی۔

’سٹارم اینڈ سن شائن آف اے سولجر لائف‘ میں کولین مکینزی لکھتے ہیں کہ معمولی باتوں پر سرِعام کوڑوں اور جوتوں سے مارنا معمول تھا اور کہا جاتا ہے کہ 1842 میں آفریدی قبائل کے ہاتھوں شکست کھانے والے سکھ فوجیوں کو ابو طبیلہ نے پشاور کے بازاروں میں جوتوں سے پیٹا۔

ابو طبیلہ کا فارسی میں لکھوایا گئے ایک ’فرمان بنام قمر الدین خان مہمند‘ کے مطابق دو گاؤں، گھڑی چندن اور شمشتوں، کی جاگیر اس شرط پر قمر الدین کو حوالے کی گئی کہ ’وہ ہر سال پچاس آفریدیوں کے سر کاٹ کر دربار میں پیش کریں گے بصورت دیگر انھیں جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔‘

ڈائریکٹرآثار قدیمہ خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طبیلہ پشاور کی تحصیل گور کھٹری میں روزانہ کی بنیاد پر عدلیہ کونسل (دربار) لگاتے جہاں ظلم و جبر کی نئی داستانیں رقم کی جاتیں۔ اس موقع پر مسلمان قاضی، سکھ جج، ہندو جج، غرض تمام مذاہب کے منصفوں اور پیشواؤں کی موجودگی یقینی بنائی جاتی جن کی مدد سے وہ مجرموں کو اُن کے مذہب میں رائج سزائیں تجویز کرتے۔

انھوں نے بتایا کہ چوری اور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ قتل کے لیے سزائے موت اور مسخ کرنے کا رواج بھی عام کیا اور فوجداری انصاف میں اسلامی قوانین کے سخت استعمال اور پولیس کی انتہائی موثر کارروائیاں مجرمانہ شرح میں بنیادی کمی کا باعث بنیں۔

کولن مکینزی اور سر ہنری لارنس دونوں نے ابو طبیلہ پر لکھی اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ سکھوں پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کے لیے ابو طبیلہ نے مغل دور کی تعمیر کردہ مسجد مہابت خان کو دہشت کی علامت بنا دیا جس کے مینار سے جرم سرزد کرنے والوں کو کئی کئی دنوں تک لٹکائے رکھا جاتا، باغیوں کی سزا پاؤں سے الٹا لٹکانے اور گلے میں پھندا لگانے کی صورت ہوتی، پشاور شہر کے اندر بیرونی قبیلوں سے داخل ہونے والوں کو بھی پھانسی کے گھاٹ چڑھا دیا جاتا اور بعض حوالوں کے مطابق دہکتے تندور میں بھی پھینکوا دیا جاتا۔

اور اس سارے عمل کا مقصد قبائلیوں پر اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ غرض یہ کہ اپنے قوانین کی عملداری کے لیے وہ سخت سے سخت سزا کے نفاذ میں رعایت نہ برتتے اور اس ضمن میں وہ سکھوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔

تنخواہوں کی بندش پر سکھوں کے احتجاج کرنے پر ابو طبیلہ نے ان پر بھی حملہ کروانے سے دریغ نہ کیا۔ ابو طبیلہ نے ’ازل سے سرکش‘ پشتونوں پر بھی ہیبت طاری کیے رکھی۔

برٹش لائبریری میں موجود (انڈیا آفس ریکارڈ) آرکائیوز کے مطابق پشتون قبائل پہاڑی اور سخت علاقوں میں نیم خانہ بدوش طرز کی بستی میں رہتے تھے جو ببانگ دہل میدانی علاقوں اور شہروں پر مال و زر کے لیے حملہ آور ہوتے۔ ابو طبیلہ سے قبل کوئی بھی حکومت ان لاقانونیت پسند قبائل اور ان کی وادیوں پر کنٹرول کا دعویٰ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

پشاور کے باسیوں کا ظالم حکمران، شہر کی دیواروں کا نگران

ابو طبیلہ کا سفاکیت اور سخت گیر طرز حکمرانی کس حد تک غلط یا درست تھی، یہ ایک الگ بحث ہے تاہم پشاور میں ان کے دور گورنری میں ہونے والے تعمیراتی کاموں سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

نواز الدین کے مطابق ابو طبیلہ کو جب گورنر پشاور مقرر کیا گیا تو اس دور میں شہر دو الگ الگ دیواروں میں بٹا ہوا تھا اور تعمیر کے حوالے سے حالات دگرگوں تھے۔ ماضی میں اس خطے میں سکھوں اور پختونوں کی یورش کے سبب بھی تعمیری کام نہ ہونے کے برابر تھے اور ایسے میں ابو طبیلہ نے اس شہر کے لیے اپنے وزیر آباد حکومتی انداز کو ماڈل بنایا۔

’سب سے پہلے سول اور ملٹری دونوں عمارتوں کے لیے ایک بہت بڑا تعمیراتی پروگرام شروع کیا اور پشاور شہر میں ٹاون پلاننگ کرتے ہوئے اسے نئے جدید انداز میں دوبارہ تعمیر کروایا۔ یورپی اصولوں کے مطابق: گلیوں کو چوڑا کیا گیا، پلوں اور سڑکوں کا نظام بہترین بنایا اور ایک نیا بازار بھی تعمیر کیا گیا۔‘

’فصیلِ شہر بنائی گئی اور اس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، قلعہ بالا حصار کی ابتدائی تعمیر سے شہر میں نکاسی آب کے بہترین نظام کے لیے شاہی کٹھہ متعارف کروانے کا سہرا بھی ابوطبیلہ کے سر ہے۔‘

’یہاں تک کے پشاور میں درخت لگانے کی شروعات بھی ابوطبیلہ نے ہی کی۔ پشاور کے مشہور آثار قدیمہ کے مقام ‘گور کھتری کمپلیکس’ کو انھوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔‘

کرنل سی ایم ویڈ، جو اکثر پنجاب اور مہاراجہ رنجیت کے دربار میں جاتے تھے۔ اینگلو افغان مہم کی تنظیم کے دوران ایک تحریر میں انھوں نے لکھا کہ پشتون شہر میں ابوطبیلہ کا راج ہے۔ انھوں نے ابوطبیلہ کی طرف سے پیش کی جانے والی فوجی اور لاجسٹک امداد کی تعریف کی اور خیبر قبائل کے ساتھ لین دین میں اُن کی قابلیت اور علم کی بھی تعریف کی۔

اس سب کے باوجود بھی متعدد تاریخی حوالوں میں ابوطبیلہ کے نام کو ہمیشہ ظلم اور بربریت کے ساتھ منسلک کیا گیا۔

سب سے پہلے ان کی جلالی اور سخت گیر حکمرانی کا ذکر کرنے والے برطانوی افسران تھے جو پشاور سے گزرے، جن میں الیگزینڈر برنس، کرنل سی ایم ویڈ، کولن میکنزی اور ہنری منٹگمری لارنس شامل تھے۔

مختلف ادوار میں مختلف مؤرخین نے ابو طبیلہ کے دور حکومت اور شخصیت کا اپنے حالات کے مطابق تجزیہ کیا، جس میں کچھ نے انھیں منفی تو کچھ نے مثبت بھی پیش کیا۔

ابو طبیلہ کا انجام

سیتا رام کوہلی نے اپنی آخری کتاب ’سن سیٹ آف دا سکھ ایمپائر‘ سنہ 1839 میں بلوچوں کے ہاتھوں رنجیت سنگھ کے قتل کے بعد ابو طبیلہ نے لاہور میں بھی قیام کیا، رنجیت سنگھ کی بھیانک موت اور شورش زدہ صورتحال میں انھیں اپنے لیے حالات مزید سازگار دکھائی نہ دیے تو انھوں نے اپنے وطن واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنے گاؤں لوٹ گئے۔

ایک یورپین سیاح گرے سِی نے اپنے سفرنامے میں ابوطبیلہ کی واپسی کی تصویر کشی کچھ یوں کی کہ اپنے وطن لوٹ جانے کے فیصلے کے بعد ابو طبیلہ پشاور آئے اور اپنے معاملات کو آخری شکل دی، عورتوں کا رسیا ہونے کے سبب اُن کے حرم میں درجنوں خواتین موجود تھیں جو سب انھوں نے اپنے دوستوں اور مصاحبوں میں بانٹ دیں۔ اپنی بیوی کو بھی ساتھ نہیں لیا اور سر پھرے اس قدر تھے کہ بیٹی کی شادی اپنے ہی خانساماں سے کروا دی۔

اب جانیے احوال ان کے آبائی شہر پہنچنے کا۔ سنہ 1843 میں ابو طبیلہ کی واپسی پر اس دور کے بادشاہ نے ان کے استقبال میں کوئی خاص گرمجوشی نہ دکھائی اور طویل عرصے تک اقتدار کی لذت اٹھانے والے ابوطبیلہ اپنے ہی شہر میں اجنبیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

تاہم بادشاہ نے انھیں سرکاری مینشن (محل) کی تعمیر کی اجازت دے دی۔

یورپی مصنف جے جے کاٹن نے ابوطبیلہ پر لکھی سوانح ’این ایٹالین ایڈونچر‘ میں لکھا کہ محل بننے کے بعد انھوں نے اپنی انیس سالہ بھتیجی (بعض مؤرخین نے قریبی عزیزہ لکھا ہے) سے شادی رچا لی۔ تاہم اُن کی خانگی زندگی کے معاملات درست نہ رہے کیونکہ نوعمر بیوی کے غیر مردوں سے مبینہ تعلقات کی سُن گُن انھیں اکثر بے قرار رکھتی۔

آخر کار 28 مارچ 1850 کو ابوطبیلہ کی وفات ہوئی۔ ابو طبیلہ کی موت کے حوالے سے بھی متضاد آرا ہیں لیکن جس پر زیادہ اتفاق ہے وہ یہی ہے کہ مال و زر کی ہوس کے لیے وہ اپنی ہی جوان سال بیوی کے ہاتھوں زہر دے کر قتل کیے گئے۔

ان کی موت کے بعد اٹلی کے شہر اجیرولا میں ان کا مقبرہ بنایا گیا اور نیپلز میں ایک چوک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ پشاور میں گور کھٹری میں واقع ان کے مینشن، عدالت اور دربار کو مرمت و بحالی کے بعد آنے والی کئی صدیوں کے لیے آثار قدیمہ کا حصہ بنا کر حکومت کی جانب سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔

تاریخ دان اُن کے انجام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابو طبیلہ نے عسکری اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر شاندار زندگی گزاری، سفر اور مہم جوئی اُن کا شیوہ تھا، انھوں نے جنگیں لڑیں، بااثر راجوں مہاراجاؤں اور پشتون خوانین کو پسپا کیے رکھا، لیکن اپنی زندگی کی بازی اپنی آخری محبت کے ہاتھوں ہار گئے۔

بشکریہ : بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close