سندھ: سیلابی پانی میں ڈوبے متاثرین پینے کے پانی کو ترس گئے

ویب ڈیسک

سندھ میں سیلاب متاثرین میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں جبکہ کئی جگہوں پر صاف پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شہری ٹھہرے ہوئے سیلابی پانی میں نہا رہے ہیں اور وہی پانی پینے پر بھی مجبور ہیں

سندھ کے شہر سیہون کے رہائشی عبدالعزیز نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ”گرمی بہت زیادہ ہے اور ہم سیلاب کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تو ہم اس پانی میں صرف نہاتے نہیں بلکے ہم یہی پانی پیتے بھی ہیں۔‘

روئٹرز نے سندھ حکومت کی جانب سے رواں ہفتے جاری ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا، ڈینگی بخار، اسہال اور جلد کے مسائل سمیت مختلف بیماریاں عام ہو چکی ہیں اور ہزاروں مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے

رپورٹ کے مطابق سیلابی پانی کی سطح کم ہونا شروع ہو گئی ہے، تاہم پانی کو مکمل طور پر ختم ہونے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں جس دوران آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں پھیلے رہنے کا خدشہ ہے

سیلاب سے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد چلچلاتی دھوپ میں کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں، جہاں بعض علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر جاتا ہے اور کئی لوگوں کو اب تک صاف پانی تک رسائی نہیں

روئٹرز سے بات کرتے ہوئے عبدالعزیز کا کہنا تھا ”ہمارے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے، یہی سیلاب کا کھڑا پانی استعمال کرنا پڑے گا کیوں کہ حکومت کی طرف سے ہمیں صاف پانی نہیں ملتا ہے“

عبدالعزیز کے آس پاس بھی لوگ ٹھہرے ہوئے سیلابی پانی میں موجود خطروں سے لاعلم پانی میں چلتے نظر آئے

یاد رہے کہ وزیر صحت سندھ کی ترجمان مہر خورشید اس سے قبل بتا چکی ہیں کہ ’سیلاب کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے لگائے گئے کیمپوں میں 15 ستمبر تک 13599 سانس کی تکلیف کے مریض رپورٹ ہوئے، 14263 ڈائریا، جبکہ 20 ہزار سے زائد کیس جلد کے مختلف امراض میں رپورٹ ہوئے۔‘

ازبکستان کے شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ کھڑا ہو جانے والا پانی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مون سون بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے تباہ کن سیلاب میں کم از کم پندرہ سو سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں کم از کم 528 بچے شامل ہیں

پاکستان میں اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے روئٹرز کو بتایا ’سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خاندانوں کی صورت حال ابتر ہے۔ میں نے جو کہانیاں سنیں وہ مایوس کن تصویرکشی کر رہی ہیں۔‘

فاضل کے بقول: ’ہم سب غذائی قلت کے شکار بچوں کو اسہال، ملیریا، ڈینگی بخار، اور بہت سے لوگوں کو جلد کی تکلیف دہ حالتوں سے لڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔‘

دیہی علاقوں میں خواتین اور بچے جو زیادہ خوراک کی کمی اور خراب صحت کا شکار ہیں، انہیں خاص طور پر خطرات لاحق ہیں

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق سیلاب سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں اور کم از کم تین لاکھ چالیس ہزار لڑکے لڑکیوں کو فوری طور پر زندگی بچانے والی مدد کی ضرورت ہے

حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں میں لاکھوں مریض صحت کے عارضی مراکز گئے، جہاں انہوں نے سانس کی تکلیف، جلد کی بیماریوں جیسے کہ خارش، آنکھوں میں انفیکشن اور ٹائیفائیڈ جیسے امراض کا علاج کروایا

بدقسمتی سے ایک عظیم انسانی المیے کی طرف بڑھتے ہوئے ان حالات میں بھی حکومت کا کردار نمائشی دوروں، فوٹو سیشن اور اعداد و شمار پیش کرنے کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close