پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی امریکی ہم منصب بلنکن کے ساتھ مختلف اہم موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ بلنکن نے پاکستانی وزیر کو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے اور قرضوں میں نرمی کے لیے چین سے بات چیت کا مشورہ دیا
امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی پچھترویں سالگرہ کی مناسبت سے واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر میں پیر چھبیس ستمبر کے روز ایک خصوصی تقریب کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان تفصیلی بات چیت ہوئی
بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کا مشورہ
انٹونی بلنکن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ”ہماری آج کی گفتگو میں ہم نے بھارت کے ساتھ ذمہ دارانہ تعلقات کو منظم کرنے کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ اور میں نے اپنے ساتھی پر زور دیا کہ وہ چین سے قرضوں میں نرمی اور قرضوں کی تنظیم نو کے بعض اہم امور پر بات کریں تاکہ پاکستان سیلاب سے پیدا شدہ حالات کے اثرات سے جلد از جلد نکل سکے‘‘
کشمیر کے تنازعے کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ متنازعہ خطے جموں کشمیر کے مقبوضہ بھارت کے حصے کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کے بھارتی حکومت کی جانب سے سن 2019 میں ختم کیے جانے کے بعد سے دوطرفہ تعلقات مزید خراب ہو چکے ہیں
بھارت کے اس اقدام کے بعد پاکستان نے نئی دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کم کرتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات بھارتی سفیر کو واپس بھیج دیا تھا اور تب سے دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین تجارتی تعلقات بڑی حد تک منجمد ہو کر رہ گئے ہیں
انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے جمہوری ہونے کی حیثیت سے مذہبی آزادی، عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی جیسی بنیادی قدروں کا احترام کرنے کے وعدے پورا کیے جانے کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہ صرف لچکدار ہیں، بلکہ وہ وقت کی کسوٹی پر بھی پورے اترے ہیں
انہوں نے کہا ”ہم نے پوری تاریخ میں ثابت کیا ہے کہ جب ہم مل کر کام کرتے ہیں، تو ہم عظیم مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔ اور میرے خیال میں جب ہم مل کر کام نہیں کرتے، تب ہم بھٹک جاتے ہیں۔ پھر ہم لڑکھڑا جاتے ہیں اور پھر معاملات غلط ہو جاتے ہیں‘‘
بلاول بھٹو زرداری نے خطے میں امن، سلامتی اور اقتصادی خوشحالی کے فروغ کے لیے پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخی اور بڑھتی ہوئی اہمیت پر بھی زور دیا اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا اور وسیع کرنے کے اسلام آباد کے عزم کا اعادہ بھی کیا
’پاکستان چین سے قرضوں میں نرمی پر بات کرے‘
انٹونی بلنکن اور بلاول بھٹو زرداری کی واشنگٹن میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی جب پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ سیلابوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا ، 33 ملین شہری متاثر ہوئے اور اب تک 1600سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے 30 بلین ڈالر سے زائد کے مالی وسائل درکار ہوں گے
امریکی وزیر خارجہ نے قیمتی انسانی جانوں اور معاشی نقصانات پر پاکستان کے ساتھ تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بحالی اور تعمیر نو کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا
بلنکن کا کہنا تھا ”ہم ایک سادہ سا پیغام دے رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ آج بھی ویسے ہی کھڑے ہیں، جیسے ماضی میں آنے والی قدرتی آفات کے دوران کھڑے تھے اور تعمیر نو کے عمل میں بھی ساتھ ہیں‘‘
تاہم بلنکن نے پاکستان پر زور دیا کہ سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال کے پیش نظر وہ اپنے قریبی اتحادی ملک چین سے قرضوں کی ادائیگی میں نرمی پر بات کرے
انہوں نے کہا ”میں نے اپنے پاکستانی ہم منصب پر زور ڈالا کہ وہ چین سے قرضوں میں نرمی اور ان کی تشکیل نو کے اہم معاملات میں بات کریں تاکہ پاکستان میں حالات جلد از جلد بہتر ہو سکیں‘‘
پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کسی کے مفاد میں نہیں، بھارت
دریں اثنا دوسری جانب واشنگٹن نے ایک بار پھر سے بھارت کے ان اعتراضات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر امریکہ نے پاکستان کے ایف سولہ جنگی طیاروں کی مرمت اور ان کی دیکھ بھال کے لیے مالی امداد کیوں فراہم کی
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے پیر کے روز کہا بھارت اور پاکستان دونوں مختلف نکتہ نظر سے امریکہ کے شراکت دار ہیں اور یہ تعلقات ایک دوسرے کے درمیان تعلقات سے مربوط نہیں ہیں
واضح رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران اسلام آباد کے لیے تازہ ترین سیکورٹی امداد کے پیچھے واشنگٹن کی دلیل پر سوالات اٹھائے تھے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایف 16 جنگی طیارے کس کے لیے ہیں؟ اس بارے میں کسی کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا
امریکہ نے کیا وضاحت کی؟
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنی روزانہ کی نیوز کانفرنس میں بھارتی اعتراضات سے متعلق وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے دونوں ملکوں کے ساتھ رشتوں کی نوعیت مختلف ہے
ان کا کہنا تھا ”ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور دوسری طرف بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک دوسرے کے تعلقات کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں ہی ملک ہمارے شراکت دار ہیں، جن میں سے ہر ایک میں مختلف نکات پر زور دیا گیا ہے“
ان کا مزید کہنا تھا ”ہم دونوں کو پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ بہت سے معاملات میں ہماری قدریں مشترک ہیں۔ ہمارے بہت سے معاملات میں مشترکہ مفادات بھی ہیں۔ اور بھارت کے ساتھ جو ہمارے تعلقات ہیں، وہ اپنے طور بالکل الگ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات اپنے طور پر بالکل الگ ہیں“
بھارت کا اعتراض
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے واشنگٹن میں بات چیت کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان کے تعلقات کی ”بہتری” پر یہ کہہ کر سوالات اٹھائے تھے کہ اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے رشتے ”امریکی مفاد” کو پورا نہیں کرتے ہیں
جے شنکر نے اتوار کے روز واشنگٹن میں بھارتی امریکی کمیونٹی کی ایک تقریب کے دوران کہا تھا، ”یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس نے نہ تو پاکستان کی کوئی اچھی خدمت کی ہے اور نہ ہی امریکی مفادات کو پوراکرتا ہے۔”
انہوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں، جب ان سے پاکستان کے ایف سولہ جنگی طیاروں کی مرمت کے لیے حالیہ امریکی امداد کے بارے میں سوال کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس ماہ کے اوائل میں بائیڈن کی انتظامیہ نے پاکستان کے لیے 450 ملین امریکی ڈالر کی امداد کی منظوری دی تھی تاکہ پاکستان کے پاس پرانے ایف 16 جنگی طیاروں کی دیکھ بھال کی جا سکے
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا، ”حقیقت میں آج یہ امریکہ پر ہے کہ وہ اس رشتے کی خوبیوں پر غور کرے اور بتائے کہ اس سے انہیں کیا حاصل ہوتا ہے۔”
انہوں نے کہا، ”جب آپ ایف 16 جنگی طیارے کی صلاحیت کی بات کرتے ہیں، تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ کہاں تعینات ہیں اور ان کا استعمال کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں کہہ کر کسی کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔” انہوں نے زور دے کر کہا، ”اگر میں کسی امریکی پالیسی ساز سے بات کروں، تو میں حقیقت میں اسے بتاؤں گا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔”
افغانستان پر امریکہ پاکستان سے کیا توقع رکھتا ہے؟
ایک اور سوال کے جواب میں نیڈ پرائس نے کہا کہ ”افغانستان میں عدم استحکام اور تشدد کا چلن پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا، ”جہاں تک افغانستان کے لوگوں کی حمایت کا سوال ہے، تو ہم اس پر اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ باقاعدگی سے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ ہماری کوشش افغان عوام کی زندگی، معاشی حالت اور انسانی صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔ اس بات کو بھی دیکھنا ہے کہ طالبان اپنے وعدوں پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔”
امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان کے بہت سے وعدوں کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ اس میں انسداد دہشت گردی سے متعلق اور محفوظ راستہ فراہم کرنے سے متعلق وعدے یا پھر افغان شہریوں سے کیے گئے وعدے شامل ہیں۔ ”طالبان کی جانب سے ان وعدوں پر عمل کرنے کی خواہش یا ان کی نااہلی پر پاکستان کے لیے بھی اہم مضمرات ہوں گے۔”
پرائس نے کہا، ”لہٰذا، اسی وجہ سے، ہم پاکستان کے ساتھ اس کے پڑوسی کے حوالے سے بہت سے مفادات کا اشتراک کرتے ہیں۔”