ایران آوارگی (قسط-7)

گل حسن کلمتی

صبح ہم لاشار کے گاؤں کوپچ سے اپنے میزبانوں کی تین گاڑیوں میں ایران شہر کے لیے روانہ ہوئے۔ میزبانوں نے رات کو فون کر کے لاری اڈہ سے ہمارے لیے مشہد کی ٹکٹیں بک کروائیں تھیں۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ سیستان و بلوچستان صوبے کے صوبائی ہیڈ کوارٹر زاھدان میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد مشہد جایا جائے، لیکن اکثریت کی رائے تھی کہ مشہد جایا جائے۔ سو ہم نے ڈائریکٹ مشہد جانے کا پروگرام بنایا

کوپچ میں ہر طرف گلیوں، محلوں سڑکوں اور ندیوں کے کنارے کھجور کے باغات تھے۔کوپچ سے ہم صبح نو بجے روانہ ہوئے۔ مین روڈ پر آئے، جہاں سے ایرانشہر (پرانا نام پہرہ) 110 کلو میٹر ہے۔ ھوران کا علاقہ آیا، جہاں ایک خشک ندی کی طرف خلیل لاشاری نے اشارہ کرکے کہا یہ ندی بھی لاشار ندی کا حصہ ہے۔

بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ہمارے میزبانوں نے گاڑیوں کو سڑک کی دائیں جانب ایک بستی کے طرف موڑا۔ یہ حریدگ کا تاریخی علاقہ تھا، جو کسی وقت لاشار کا ہیڈ کوارٹر تھا۔

یہاں پر حریدگ کا تاریخی قلعہ ہے۔ قلعے کے قریب پہنچے تو بارش تیز ہو چکی تھی۔ باہر سے تصاویر بنا کر ہم گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔

سڑک کے ساتھ قلعے کے کچھ حصوں پر گھر بنائے گئے تھے، قلعہ زبوں حال تھا۔

ہمارے میزبان خلیل لاشاری اور دوسرے، جو سردار فیملی سے تھے، انہوں نے کہا کہ ”ہمارے خاندان سے آخری ریاست لاشار کے حکمران سردار گل محمد خان تھے۔ سردار سرفراز میر لاشار نے انہیں شکست دے کر قلعے پر قبضہ کیا اور ریاست کے حکمران ہوئے، جن کے گھر ابھی بھی قلعے کے قریب موجود ہیں“

سرفراز کے بعد ہوتی خان، اس کے بعد مھیم خان سردار ہوئے، جو داد شاہ کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے۔ مھیم خان کے بعد ان کے بھائی محمد خان سردار ہوئے ، جو محمد رضا پہلوی کی حکومت کے خاتمے کے بعد لندن جلا وطن ہو گئے اور اب بھی وہیں ہیں۔

اب ان کی پرانی دشمنی ختم ہو چکی ہے۔ خلیل نے بتایا کہ ”سردار محمد خان کی پوتی کا رشتہ ہمارے خاندان میں ہو گیا ہے، پرانی دشمنیاں اب ختم ہو گئی ہیں“

راستے میں بہت سی بستیاں آئیں: بز پیران، نور آباد (جہاں سے ایک راستہ کرمان اور تہران کو نکلتا ہے) پہاڑی اور تنگ گھاٹیوں کا علاقہ ختم ہو چکا تھا۔ اب پہاڑوں کے بیچ وادیاں تھیں، ہرے بھرے کھیت تھے۔

پھرحیرآباد آیا۔ کہا گیا کہ یہ نئی بستی ہے، جہاں کوھی لوگ آکر بسے ہیں۔ یہاں پہاڑوں میں رہنے والوں کو کوھی بلوچ کہا جاتا ہے۔ اونٹ چرانے اور کھیت میں کام کرنے والوں کو دھقان کہتے ہیں۔ انہیں جت بھی کہتے ہیں۔ یہ لقب ان کو پیشے کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔

ہم دس دوست تین مختلف کاروں میں تھے۔ ہر ایک اپنی اپنی کچہریوں میں مصروف تھے۔ موضوع کیا تھا، ہمیں نہیں معلوم۔۔میں، ڈاکٹر گل پالاری اور ڈاکٹر مبارک ایک ہی گاڑی میں تھے اور علاقے کی تاریخ، کلچر اور قبائل پر خلیل لاشاری سے معلومات حاصل کر رہے تھے

ان علاقوں میں مختلف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ شہروں میں مختلف بلوچ قبائل کی مکس ابادی ہے۔ دیہی علاقوں میں اب بھی قبائلی تقسیم موجود ہے۔

ھوراب کے خوبصورت نخلستان میں لاشار ریاست کا علاقہ ختم ہوا اور بمپور کا علاقہ شروع ہوا۔ لینڈ اسکیپ تبدیل ہوا۔ کھجور کے بڑے کھیت ان کے نیچے
گندم، خربوزے، تربوزے کی فصل، کہیں کہیں گندم کی کٹائی ہو رہی تھی، کہیں گندم کٹ چکی تھی۔ بمپور زراعت کے لیے مشہور ہے۔ یہاں گز کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ہر طرف لہلہاتے کھیت اور ان میں کام کرنے والے مزدور نظر آتے تھے

ھوراپ، جہاں سے ایک راستہ کرمان کو نکتا ہے ۔کلکلیاں کور (ندی) میں پانی بہہ رہا تھا۔ یہاں سے گاڑیوں میں پیٹرول بھروا کر ہم آگے کے لیے روانہ ہوئے۔

بمپور، جو ٹاؤن ہے، ایران شہر ضلع (بخش) میں ہے۔ بمپور میں بہت بڑا قلعہ ’قلعہِ ناصری‘۔(بمپور کلات) واقع ہے، جس کی مرمت کام ہو رہا تھا۔ بمپور کسی زمانے میں ایرانی بلوچستان کا ھیڈ کوارٹر رہا ہے۔ بہت ہی قدیم شہر ہے۔ بہت ہی خوبصورت شہر اب بڑھ کر ایرانشہر (پہرہ) سے جا ملا ہے۔

زاھد بارکزئی کا اس قلعے کے بارے خیال ہے کہ ”قلعہِ ناصری جدید نام ہے۔ یہ مختلف فاتحین کے زیر اثر رہا ہے ۔ ایرانشہر (پہرہ) اور بمپور کا کلات (قلعہ) میر دوست محمد خان بارانزئی کا مرکز رہا ہے۔ اس سے پہلے میر بہرام خان، جو میر دوست محمد خان کے چچا تھے۔ بارانزئی اس علاقے کے ایک معتبر اور طاقتور قبیلہ ہیں، جو افغانستان تک ان کا اثر رسوخ ہے“

بمپور، بمپور ٹاؤن/کاؤنٹی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔بمپور کے بعد ہم ایران شہر کے بس اڈہ پہنچے۔ دوست پہلے پہنچ چکے تھے۔ سہولیات سے آراستہ سینٹرل اے سی ٹرمینل۔۔ دوستوں نے پاسپورٹ لیے، ٹکٹ کٹوا کر بیگز پر ٹیگ لگا کر ہم نے لاشار کے دوستوں الوداع کیا اور آرام دہ بس میں بیٹھ گئے۔

ہمارے اس سفر میں آج سے ہمارے مسافر ساتھی دوستوں نے سفر کی ذمہ داریاں خود سنبھال لیں، کیونکہ چابہار سے لے کر ایران شہر تک ہم اپنے میزبانوں کے حوالے تھے۔ انہوں نے ہماری خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی

ایران میں داخل ہونے سے پہلے ہم سب نے مشترکہ طور پر پیسے میر نواب بلوچ کے حوالے کیے تھے۔ اس نے یہ ذمیداریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں۔
ایران کی کرنسی کی ویلیو کم ہونے کے وجہ اتنے پیسے ساتھ لے کر چلنا بہت دشوار ہے، اس لیے وہاں کارڈ سسٹم ہے۔
ہم جب ایران میں داخل ہوئے تو گل محمد کے کزن رسول بخش نے اپنا کارڈ ہمارے حوالے کیا۔ ہم نے مشترکہ خزانہ اس میں ڈالا اور میر نواب کو یہ ذمیداری دی۔ باقی دوستوں نے اپنے ذاتی خرچے اور شاپنگ کے لیے کچھ کرنسی اپنی پاس رکھی تھی۔

سفر میں تمام دوست، میرا، ڈاکٹر مبارک اور مولیڈنو راجڑ کا بہت خیال رکھتے تھے ، ہمیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ یاسین اقبال، علی بخش راجڑ، میر نواب بلوچ، سر گل پالاری اور لال بخش بلوچ ہر طرح خیال کرتے تھے۔

جہاں فارسی کی ضرورت پڑتی تو ڈاکٹر مبارک اور گل محمد آگے آتے تھے۔ گل محمد نہ جانتے ہوئے بھی بول لیتا تھا، آدھی بلوچی، آدھی فارسی اور کبھی کبھی جدگالی کا تڑکہ۔۔ خود فارسی بولنے والے حیران ہوجاتے تھے۔۔ ان گجروں کو کبھی کبھی اپنی فارسی پر بھی شک ہونے لگتا تھا کہ کہیں ہم غلط تو نہیں بول رہے ہیں۔۔ یوں فارسی سے نابلد گل محمد کو تو فارسی بولتے ہوئے کبھی پریشانی نہیں ہوئی، البتہ فارسی بولنے والے ایرانی ضرور پریشان ہوئے۔

بیگز کا، دوستوں کا، جہاں رہتے وہاں کمروں کا خیال رکھنا ، بیگز کا اٹھانا اور وصول کرنا سب ذمیداریاں ان دوستوں نے نبھائی تھیں۔

فارسی کا مسئلہ کسی حد تک، ڈاکٹر مبارک اور سردار میر رستم کی جانب سے ہمارے ساتھ الٰہی بخش کو رکھا گیا تھا، انہوں حل کیا تھا الٰہی بخش مشہد تک ہمارا ساتھی تھا۔

(جاری ہے)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close