ہم اپنے شہر میں کسی نہ کسی دیوار پر یہ جملہ لکھا دیکھتے ہیں کہ ’یہ ممنوعہ علاقہ ہے داخل ہونے کی کوشش کرنے والے کو گولی مار دی جائے گی۔‘
یہ وہ جملہ ہے، جو پاکستان کے ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ کے تحت ممنوعہ علاقہ جات میں لکھا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اس علاقے کی کسی بھی قسم کی معلومات، تصویر یا خاکہ کسی ایسے فرد کی پہنچ سے دور رکھنا ہے، جو اس سے متعلقہ نہ ہو
یہاں سے سیکریسی یعنی سرکاری معلومات کو خفیہ رکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے جو پاکستان کے ہر شہری، سرکاری اور فوجی افسران، وزرا، وزیر اعظم اور صدر تک ہر ایک پر لاگو ہوتا ہے
واضح رہے کہ جب بھی وزیر اعظم یا وفاقی وزرا کی حلف برداری کی تقریب ہوتی ہے، ان کے حلف میں باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ چیز بھی شامل کی جاتی ہے کہ بحثیت وزیراعظم یا وفاقی وزیر جو بات بھی ان کے علم میں لائی جائے گی وہ ملکی مفاد میں کسی دوسرے کے علم میں نہیں لائیں گے
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کا قانون ہے، جو بنیادی طور پر جاسوسی روکنے کے لیے بنایا گیا۔ اس کے تحت کسی بھی ایسے راز کو، جو کسی ایسے فرد، جس کے پاس قانونی اختیار نہیں ہے، کے علم میں لانے والے کو 14 سال تک قید یا اس سے زائد کی سزا دی جا سکتی ہے اور بعض صورتوں میں اس کے تحت سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے
پاکستان کے میڈیا میں اس آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی گونج اس وقت شروع ہوئی جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ایک خط لہراتے ہوئے کہا تھا ’ہمیں ایک ملک کی طرف سے لکھ کر دھمکی دی گئی ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم رہتے ہیں تو اس پاکستان اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔‘
اس پر ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی کہ عمران خان کو خفیہ دستاویز کو پبلک کرنے سے روکا جائے۔ جسے عدالت نے اس ڈائریکشن کے ساتھ نمٹا دیا کہ امید ہے کہ وزیراعظم اپنے حلف اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق پانچ کی خلاف ورزی نہیں کریں گے
بعد ازاں عمران خان نے بھی اپنے ایک خطاب میں شہباز شریف کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق ایک بیان کو بنیاد بنا کر کہا کہ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے
اس کے بعد گزشتہ ماہ یعنی ستمبر کے آخری ہفتے میں مبینہ آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا تو سائفر سے متعلق وزیر اعظم عمران خان ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور پھر شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو اور منصوبہ بندی کو بنیاد بنا کر موجودہ حکومت نے ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کیا
اس سلسلے میں سامنے آنے والی دستاویزات میں سائفر نمبر اور اس کو اٹیچ کیے جانے کا ذکر ہوا تو شیریں مزاری نے اسے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دے دیا
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا ہے؟
1923 میں جاری کیے جانے والے اس ایکٹ کے تحت قومی رازوں، خفیہ مقامات، دستاویزات، معلومات کو کسی بھی ایسے فرد کے پاس جانے سے روکا جاتا ہے جس سے ملک کے مفادات کو خطرہ ہو یا اس کے پاس ان معلومات کو جاننے کا قانونی اختیار نہ ہو
پاکستان میں لاگو کرتے وقت بھی اسے ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923‘ کا نام ہی دیا گیا تھا
یہ ایکٹ سرکاری ذمہ داروں کو قومی معلومات غیر قانونی طریقے سے افشا کرنے جبکہ شق غیر قانونی طریقے سے مسلح افواج کی وردیوں کے استعمال، سرکاری دستاویزات میں رد و بدل، قومی شناختی دستاویزات میں جعل سازی، خود کو سرکاری یا فوجی افسر ظاہر کرنے اور غیرقانونی طریقے سے کسی سر بمہر لفافے کو کھولنے سے روکتا ہے
اس ایکٹ کے تحت بیرونی ایجنٹوں سے روابط رکھنے کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اس کی سزاؤں کو بیان کیا گیا ہے
اس ایکٹ کے تحت شہریوں کو پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے اور کارِ سرکار میں مداخلت سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے دو سال قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں تجویز کی گئی ہیں
اس ایکٹ کے مطابق: ”اگر کوئی شخص غلطی سے بھی کسی ایسے احاطے میں داخل ہوتا ہے، جہاں لفظ Prohibited یا ممنوعہ لکھا ہوا ہو، تو اسے چودہ سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے“
ایکٹ کے سیکشن تین کے مطابق ”اگر کوئی فرد ایسے علاقے میں پہنچ جاتا ہے یا اسے دیکھتا یا معائنہ کرتا ہے یا اس کا خاکہ یا (تصویر) بھی بناتا ہے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے“
مزید یہ کہ اگر کوئی بھی کسی دوسرے فرد سے، کسی خفیہ آفیشل کوڈ یا پاس ورڈ، یا کسی خاکے منصوبے، آرٹیکل یا نوٹ کو حاصل، جمع، ریکارڈ یا شائع یا کسی سے شئیر بھی کرتا ہے، جو کسی دوسرے ملک (دشمن) کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ مفید ہو سکتا ہے، تو اس شخص کو اسی جرم میں سزا دی جا سکتی۔ بعض صورتوں میں اس کی سزا موت ہے۔
کسی فرد پر صرف شبہ ہونے پر بھی یہی چارج لگایا جا سکتا ہے اور یہی الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی پر یہ الزام ثابت نہ بھی ہو تب بھی اسے اس قانون کی خلاف ورزی پر سزا یافتہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ چاہے ماضی میں اس پر اس قسم کا کوئی الزام موجود ہی نہ ہو
سیکشن 4 غیر ملکی ایجنٹوں کے ساتھ رابطے سے متعلق ہے، جو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ اندیشہ بہرحال موجود رہے گا کہ کوئی فرد کسی غیرملکی (ایجنٹ) کے رابطے میں آ سکتا ہے، اگر وہ پاکستان کے اندر یا پاکستان سے باہر اس سے ملنے جاتا ہے یا اس کے رابطے میں آتا ہے۔ اگر ایسے شخص کے قبضے سے کسی غیر ملکی سے متعلق مواد، اس کا نام یا پتہ یا کوئی اور معلومات قبضے سے ملیں تو ایسا شخص اس ایکٹ کی زد میں آ سکتا ہے
غیر ملکی ایجنٹ کسی بھی ایسے شخص کو کہا جاسکتا ہے، جس پر شبہ ظاہر کرنے کی مناسب بنیاد موجود ہو یا وہ براہ راست یا بالواسطہ کسی غیر ملکی طاقت، ادارے یا کسی ایسے شخص کے لیے کام کر رہا ہو
اگر یہ جرم کسی کمپنی یا ادارے کی جانب سے سرزد ہو تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس کمپنی کا ہر وہ افسر اور ڈائریکٹر مجرم تصور ہوگا، جس کے علم میں اس جرم کا سرزد ہونا ثابت ہوگا
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سماعت کے دوران عدالت جب چاہے اس کیس سے غیر متلعقہ افراد کو کمرہ عدالت سے نکال سکتی ہے تاکہ اس دوران بھی سرکاری راز اور معلومات کسی دوسرے کے علم میں نہ آ سکیں۔