”اَن دیکھا خواب!“

محمد خان داؤد

نوجوان لکھاری اورنگزیب بلوچ کی کتاب ”اَن دیکھا خواب“ بلوچی افسانوں کا مجموعہ ہے،
اس میں نئے پرانے بلوچی افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کتاب میں وہی افسانے شامل ہوں جو بلوچی کلاسک کے شاندار افسانے ہیں جن کا اس کتاب میں بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے کہ ”گنوک،گرند!“ ایسا نہیں ہے، پر اس کتاب میں وہی افسانے شامل کیے گئے ہیں جو اورنگزیب کی نظر سے گزرے اور جو موصوف کے دل کو بھا گئے۔ ان ہی افسانوں کو انہوں نے اردو کا روپ دیا گیا ہے

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاندار بلوچی افسانے، جن کو اردو یا کسی اور زباں کے قالب میں ڈھالنا تھا، وہ ابھی تک اپنے مترجم کا انتظار کر رہے ہوں! پر یہ ایک اچھی کوشش ہے کہ نوجوان اورنگزیب نے بلوچی ادب کے کچھ افسانے اردو روپ میں ہم اردو پڑھنے والوں تک پہنچائے، جس سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچی ادب بھی کتنا شاندار ہے!

یہ حقیقت اور سچ ہے کہ جو ابلاغ ماں کی بولی میں کیا جا سکتا ہے، وہ کسی اور بولی میں نہیں کیا جاسکتا اور معراج کو بھی وہی الفاظ پہنچتے ہیں جو ماں کی بولی میں اظہار کیے جائیں، پر وہ دانشور جو سمجھتے ہیں کہ ان کی ماں کی بولی ایسی نہیں کہ اس میں کچھ اظہار کیا جائے اور وہ کسی اور بولی کا سہارا لے کر بہت کچھ رٹ لیتے ہیں ان لکھاریوں کی ایسی حالت پہ ماتم ہی کیا جاسکتا ہے..
پھر وہ اپنی ماں، محبوبہ اور دھرتی سے کس بنیاد پر محبت کر سکتے ہیں؟
ایسی ہی بات کو لے کر استاد بخاری نے لکھا تھا کہ
”جے جیون تو میں سندھ نہ آ
پوءِ تو کھان منھنجی دوری آ!“
(اگر جیون میں سندھ نہیں تو ایسے جیون کا کیا کروں؟“)
یا
”ھُوںءَ تہ مٹی جی چپٹی آھیاں
جیئے دیس تہ پوءِ دھرتی آھیاں!“
(ویسے میں مٹی کا ذرہ ہوں، پر اگر سندھ میں شامل ہو جاؤں تو دھرتی بن جاؤں)

اورنگزیب نے ہمیں بلوچی افسانوں سے متعارف کرایا ہے۔ یہ اداروں کا کام ہے پر بدنصیبی یہ ہے کہ اس کام کو فرد کر رہے ہیں اور وہ بھی فردِ واحد!

کتاب بہت خوبصورت ہے اور اس میں شامل افسانے بھی اس لائق ہیں کہ ان کی تعریف کیے بنا نہیں رہا جا سکتا، پر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسے شائع کرانے سے پہلے ایک بار کسی اردو استاد کی نظر سے بھی گزارا جاتا تو ان افسانوں میں شامل اردو زباں مزید نکھر جاتی.

بلوچی افسانے اردو زباں میں پڑھتے اور بہت سی غلطیوں کے درمیان ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی راہ چلتا مسافر اپنی لنگوٹی بھول آیا ہو اور وہ سمجھ رہا ہو کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا..
جناب! سب دیکھ رہے ہیں
یہ اورنگزیب ہی نہیں، پر یہ خامی شاہ محمد مری کی ان کتابوں میں بھی جا بجا نظر آتی ہے جن کو وہ اردو لبادہ اُڑھاتے ہیں
پر اس سب کے باوجود یہ ایک اچھی کوشش ہے اس سے اورنگزیب جیسے نوجوانوں کی ہمت بندھے گی اور وہ خود سے ادب تخلیق کرنا شروع کر یں گے..
اب آئیں ”اَن دیکھا خواب“میں شامل افسانوں کی ان سطروں کی بات کرتے ہیں، جو لکھی تو بلوچی زباں میں گئی ہیں پر وہ بلا شبہ عالمی معیار کی ہیں جن کو پڑھ کر ماں اور محبوبہ کی بولی سے عشق ہو جائے

—انتظار محبت کو محکم کرتا ہے

—انتظار محبت ہے!

—اس کی آنکھوں میں چرچ تھا
مندر تھا
مسیت تھی
پر میں جانتا ہوں
اس کی آنکھوں میں بھوک تھی

—فلسطینیوں کو لڑنے کے لیے تو پتھروں کی معاونت حاصل ہے
پر میرے دیس کے لوگوں کو تو وہ بھی حاصل نہیں

—وہ بیمار سی ادھیڑ عمر کی عورت سے پوری رات سیکس کرتا رہا
جب تھک ہار کر اس سواری سے اترا تو پوچھا
سنو! تمہیں کیا چاہیے
بیمار ادھیڑ عمر کی عورت نے جواب دیا
عید پر بچوں کے لیے کپڑے!

—حوری! چھوڑ دو ان بلیوں کو، یہ ان کے جینے کا موسم ہے..
حوری سوچتی رہی، کہ میں بھی جوان ہوں، میرا جینے کا موسم کب آئے گا!؟

—اس کی شادی نہیں ہو پا رہی تھی
جو بھی رشتہ اس کے لیے آتا تھا
چھوٹی بہنوں کا طے ہو جاتا تھا
وہ اس بات کو کبھی نہ سمجھ پائی
اک دن آئینہ دیکھا تو سامنے کے سبھی بال سفید تھے
اسے سارے سوالوں کے جواب مل گئے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close