ایران: ’ایون جیل‘ میں آگ لگنے کے بعد فائرنگ اور دھماکوں کی اطلاعات

ویب ڈیسک

سیاسی قیدیوں، صحافیوں اور غیر ملکی شہریوں کو قید کرنے سے متعلق شہرت پانے والی ایران کی بدنام زمانہ ایون جیل میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔ آن لائن شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں تہران کی جیل میں آگ کے شعلے اور دھواں دکھائی دے رہا ہے اور فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں

 

سرکاری میڈیا کے حوالے سے ایک اہلکار نے بتایا کہ صورتحال قابو میں ہے لیکن ویڈیو میں اس کے بعد بھی آگ لگتی دکھائی دے رہی ہے۔

حکومت مخالف مانیٹرنگ گروپ ’1500 تسویر‘ (1500tasvir) کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، ’ڈکٹیٹر مردہ باد‘ کے نعرے، جو حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے اہم نعروں میں سے ایک ہے، کو جیل کے باہر سے سنا جا سکتا ہے۔

اس جیل میں سیاسی قیدی بھی ہیں۔

خیال رہے کہ ایران کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہروں کی لپیٹ میں ہے

یہ مظاہرے گذشتہ ماہ 22 سالہ کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑے تھے۔ حکام نے بتایا تھا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، لیکن ان کے اہل خانہ نے اس مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اخلاقی پولیس نے مارا ہے۔

بی بی سی فارسی کے رانا رحیم پور نے کہا ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ جیل کی صورت حال کا تعلق حالیہ مظاہروں سے ہے۔ ان کے مطابق یہ تعلق آسانی سے ہو سکتا ہے کیونکہ سینکڑوں مظاہرین کو ایون جیل بھیج دیا گیا ہے۔

سرکاری میڈیا نے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں واقعات کا آپس میں تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے ’مجرمانہ عناصر‘ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

بی بی سی فارسی کے مطابق، ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیل میں اس کے احاطے کے باہر سے اشیا کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پھر ایک دھماکے کی آواز سنی گئی

ایرانی میڈیا کے مطابق فسادات مالی فراڈ کے الزمامات میں قید اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کے درمیان ہوئے اور کوئی سیاسی قیدی اس میں ملوث نہیں تھا۔

میڈیا کے مطابق اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے البتہ اس میں آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں اور اب یہ صورتحال کنٹرول میں ہے۔

تاہم بی بی سی فارسی کی نامہ نگار قصرہ ناجی نے کہا کہ جیل کی صورتحال اب بھی واضح نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ ہو رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ اب بھی ہے اور جیل کے ارد گرد گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

قصرہ ناجی کا کہنا تھا کہ دیگر تصاویر میں قیدیوں کو جیل کے ایک حصے کی چھت پر دکھایا گیا ہے جہاں سیاسی قیدیوں اور گذشتہ چار ہفتوں میں گرفتار کیے گئے بہت سے مظاہرین کو رکھا گیا ہے۔

کچھ قیدیوں کے اہل خانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے فون پر رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیل کے اردگرد انٹرنیٹ کنکشن بھی منقطع ہے۔

جیل کی طرف جانے والی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل ویڈیوز میں چھاپے مار پولیس کو ایون میں داخل ہوتے دکھایا گیا تھا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ علاقے میں خصوصی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔

ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ایمبولنسیں بھی وہاں موجود تھیں۔

برطانوی-ایرانی دہری شہریت کی حامل نازنین زغاری-ریٹکلف اور انوشہ اشوری دونوں کو ایون جیل میں جاسوسی کے الزام میں کئی سال تک قید رکھا گیا تھا، جس کی انھوں نے اس سال کے شروع میں رہائی سے قبل تردید کی تھی

انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے مغربی ممالک کے گروپوں کی جانب سے جیل پر طویل عرصے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے جیل میں حکام پر تشدد اور غیر معینہ مدت تک قید کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ طویل پوچھ گچھ اور قیدیوں کے لیے طبی دیکھ بھال سے انکار کا الزام عائد کیا ہے۔

ہیکرز کے ایک گروپ نے جو خود کو عدالت علی (علی کا انصاف) کہلاتا ہے، نے گذشتہ سال اگست میں ایون جیل سے لیک ہونے والی نگرانی کی فوٹیج کی ویڈیوز پوسٹ کیں، جن میں گارڈز قیدیوں کو مارتے یا بدسلوکی کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔

بعض غیر ملکی حکومتوں نے جن کے شہریوں کو جیل میں رکھا ہوا ہے، نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ ’جلد بازی‘ کے ساتھ واقعات کی پیروی کر رہے ہیں جبکہ برطانیہ کی حکومت کے قومی سلامتی کے وزیر نے اسے ’انتہائی تشویشناک پیش رفت‘ قرار دیا۔

پانچ ہفتے قبل مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ سنہ 1979 کے بعد ایران میں ایسے مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close