کیچ میں اسکول کو آگ لگانے کا واقعہ: ’اسکول بند نہیں ہونے دیں گے‘ علاقہ مکین پرعزم

ویب ڈیسک

17 اکتوبر کی شب پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایران سے متصل ضلع کیچ کے علاقے الندور میں واقع ایک نجی کلکشاں مڈل اسکول کی عمارت کو نامعلوم افراد نے نذر آتش کر دیا، جس سے دو کمروں میں موجود فرنیچر اور سامان جل گیا

اس حوالے سے کلکشان اسکول کے ڈائریکٹر محمد عارف بلوچ کا کہنا ہے ”ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے اسکول کو کیوں نذر آتش کیا گیا اور جلانے والوں کے مقاصد کیا ہیں۔ ہمارا مقصد تو صرف بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے میں بچوں کو معیاری تعلیم دینا ہے“

اس واقعے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کیچ بشیر احمد بڑیچ کے مطابق اس واقعے کے محرکات تاحال سامنے نہیں آئے اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’تاحال کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔‘

اسکول کے ڈائریکٹر محمد عارف بلوچ نے بتایا کہ علاقے کے لوگوں نے اس واقعے کے خلاف ایک جرگہ منعقد کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسکول کو بند نہیں ہونے دیں گے

واضح رہے کہ اس علاقے میں اس نوعیت کا یہ تیسرا واقعہ ہے، جسے کیچ سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی میر ظہور بلیدی مکران ڈویژن کو تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلنے کی ایک سازش قرار دیتے ہیں

واقعہ پیش آنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد عارف کا کہنا تھا ”اسکول ہمارے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اسکول میں آگ لگنے کی اطلاع جس وقت ہم تک پہنچی رات کے تین بج رہے تھے۔ ہم جلدی سے جب وہاں پہنچے تو آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے“

انہوں نے کہا ”الندور میں آگ بجھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کو بجھانے کی کوشش کی۔ اسکول میں موجود موٹر چلا کر آگ پر پانی پھینکا گیا اور اس طرح آگ تو بجھ گئی لیکن اسکول کو کافی نقصان پہنچا“

اسکول کے دو کمروں میں موجود فرنیچر اور دیگر سامان اس وقت تک تباہ ہو چکا تھا۔ اس آگ سے ایک اور کمرہ بھی متاثر ہوا

محمد عارف بلوچ نے بتایا ”مقامی انتظامیہ کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے طور پر ان لوگوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی، جنھوں نے اسکول کو نذر آتش کیا۔ علاقے کے کھوجیوں کو بلایا گیا جنہوں نے پاﺅں کے نشانات تو تلاش کر لیے لیکن ان سے اسکول کو جلانے والوں کا پتہ لگانے میں کامیابی نہیں ملی“

اس واقعے کے بارے میں مقامی حکام کو آگاہ کیا گیا، جس کے بعد لیویز فورس بلیدہ کے تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا

الندور کے علاقے میں کلکشاں اسکول کی بنیاد 2016ع میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت اسے مڈل اسکول کا درجہ حاصل ہے

عارف بلوچ نے بتایا کہ اسکول میں پڑھنے والے طلباء کی مجموعی تعداد تین سو سولہ ہے، جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ چونکہ اسکول کو حال ہی میں مڈل کا درجہ ملا ہے، اس لیے اس میں ابھی تک ساتویں کلاس تک کے بچے ہیں

انھوں نے بتایا ”اس اسکول میں ایک لینگویج سینٹر بھی فعال ہے، جس سے طلبا بڑی تعداد میں مستفید ہو رہے ہیں۔ محدود وسائل میں ہم کم فیس پر دوردراز کے ایک علاقے میں بچوں کو معیاری تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں“

اسکول کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا ”ضلع کیچ اور مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں میں پہلے بھی اسکولوں کو جلانے کے واقعات پیش آئے لیکن ہمیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی۔۔ہم کسی پر شک کا بھی اظہار نہیں کر سکتے“

انہوں نے کہا ”اس واقعے کے بعد ہم پریشان ہوئے اور اسکول کو بند کرنے کا سوچا، کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ اس واقعے کے بعد اسکول کھولنے کی صورت میں کوئی بچوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ تاہم علاقے کے لوگوں نے کہا کہ وہ اسکول کو بند نہیں ہونے دیں گے“

محمد عارف کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد منگل سے اسکول میں دوبارہ تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کیا جا چکا ہے اور پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق بچوں کے ششماہی امتحان کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے

دوسری جانب الندور میں اسکول کو جلانے کے واقعے کی بازگشت بلوچستان اسمبلی کے پیر کے روز کے اجلاس میں بھی سنائی دی

پوائنٹ آف آرڈر پر ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی میر ظہور بلیدی نے واقعے کی مذمت کی اور کہا ”اس علاقے میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی دو اسکولوں کو جلایا گیا لیکن ذمہ دار افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی“

تفصیلات بتاتے ہوئے رکن اسمبلی کہنا تھا ”اس سے پہلے ضلع کیچ سے متصل پنجگور میں پرائیویٹ اسکولوں پر حملے ہوئے اور ان کے منتظمین کو بھی دھمکیاں دی گئیں“

ظہور بلیدی نے کہا کہ مکران ڈویژن میں مڈل کلاس کے لوگ رہتے ہیں جہاں لوگ معاشی اور سماجی طور پر خود مختار ہیں

ان کا کہنا تھا ’مکران میں تعلیم کا اچھا ماحول بنا ہوا ہے، جس کے باعث مکران ڈویژن میں تعلیم کی شرح بلوچستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جبکہ پاکستان بھر میں یہ آٹھویں پوزیشن پر ہے‘

انہوں نے کہا ”یہ ایک عام واقعہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش لگ رہا ہے“

ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی بابر موسیٰ خیل نے اس واقعے پر متعلقہ حکام کو طلب کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close