ملک میں اس وقت توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف نااہلی کے تحریری فیصلے کے اجرا میں تاخیر پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے تمام شکوک و شبہات کو مسترد کرتے ہوئے تمام افواہوں کو من گھڑت قرار دیا ہے
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو ’جھوٹے ڈکلیئریشن‘ پر نااہل قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ باقاعدہ طور پر تاحال جاری نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے
پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن کی عدم موجودگی میں یہ فیصلہ سناتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اسے ’متفقہ فیصلہ‘ قرار دیا تھا
الیکشن کمیشن کی طرف سے اپنے ایک میمبر کے متعلق کہا گیا کہ فیصلے کے وقت وہ ٹھیک تھے لیکن پھر انہیں ڈینگی ہو گیا
الیکشن کمیشن نے جمعہ کو صرف دو صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا لیکن اس فیصلےکا 36 صفحات پر مشتمل مکمل متن گزشتہ شب تک باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا گیا، جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا یہ واقعی ایک متفقہ فیصلہ تھا، اختلافی نوٹ کے امکان کے پیش نظر افواہیں بھی زور پکڑنے لگی ہیں
پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ ”اگر 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود تفصیلی فیصلہ نہیں آیا تو چیف الیکشن کمشنر نے جمعہ کو کیا پڑھا تھا“
انہوں نے نشاندہی کی کہ 24 گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اس کے باوجود توشہ خانہ کیس کا تفصیلی حکم نامہ جاری نہیں کیا جا رہا ہے حالانکہ پی ٹی آئی کے وکلا نے جمعہ کی شام ہی فیصلے کی کاپی کے لیے درخواست دی تھی
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بھی ایک ٹوئٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ ’الیکشن کمیشن تحریری فیصلہ کیوں روک رہا ہے؟ اب کیا کھچڑی پک رہی ہے‘
ان کے ساتھی سینئر رکن عمران اسمٰعیل نے الیکشن کمیشن پر مخالفین پی ڈی ایم کی ’ذیلی‘ تنظیم ہونے کا الزام لگایا اور تحریری حکم جاری کرنے میں تاخیر کو ’شرمناک‘ قرار دیا
انہوں نے کہا کہ تاحال حتمی فیصلہ جاری نہ کرنا بددیانتی ہے۔ کچھ تو گڑبڑ ہے جو اتنی دیر کی جارہی ہے
تاہم سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حامد خان سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کچھ ارکان کے اس فیصلے پر رضامند نہ ہونے کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا
ایک سوال کے جواب میں عمر حامد خان نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے حکم نامےکی تصدیق نہیں کر سکتے
الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ اس فیصلے پر الیکشن کمیشن کے رکن پنجاب مکمل طور پر ’آن بورڈ‘ تھے اور جمعرات تک اس عمل کا حصہ رہے، بعد ازاں وہ ڈینگی بخار میں مبتلا ہوگئے
تاہم ذرائع نے اس بات سے اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن کے رکن پنجاب دستخط ان کی رہائش گاہ پر کسی کو بھیج کر حاصل کیے جا سکتے تھے
ذرائع نے کہا کہ یہ تاخیری حربہ ہو سکتا ہے کیونکہ فیصلے کی کاپی دستیاب ہونے کے بعد ہی اس فیصلے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے
ایک متعلقہ پیش رفت میں ترجمان الیکشن کمیشن ہارون شنواری نے اس حوالے سے کچھ ٹی وی چینلز پر نشر اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے تفصیلی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ تاحال جاری نہیں کیا ہے، تاہم یہ تفصیلی فیصلہ جلد ہی جاری کردیا جائے گا
ان کی جانب سے اس وضاحت نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ اس فیصلے کو قبل از وقت کس نے لیک کیا اور اس کا متن کہاں لکھا گیا
احتجاج پر دہشتگردی کے مقدمات اور اسمبلی میمبر کے گلے میں لٹکی تختی
الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں سمیت ایک ہزار 900 سے زائد مشتبہ افراد کے خلاف کم از کم 7 مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں دہشت گردی کا مقدمہ بھی شامل ہے
پارٹی قیادت کے خلاف سیکریٹریٹ، انڈسٹریل ایریا، شہزاد ٹاؤن، سہالہ، سنگجانی، کھنہ اور بہارہ کہو تھانوں میں درج مقدمات میں ان پر سڑکیں بلاک کرنے، پولیس اہلکاروں پر حملے اور سرکاری و نجی املاک کو تباہ کرنے کا الزام ہے
مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن نواز رانجھا کی شکایت پر سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں پر سیکریٹریٹ پولیس نے تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ 109، 148، 149، 324 اور 427 کے تحت فرد جرم عائد کی ہے
اسی طرح سنگجانی پولیس نے عمران خان، اسد عمر، علی نواز اعوان اور دیگر کے کہنے پر سری نگر ہائی وے کو بلاک کرنے اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے پر پی پی سی کی دیگر دفعات کے ساتھ ساتھ اے ٹی اے 7 کے تحت 6 افراد سمیت 100 افراد کو نامزد کیا ہے
دریں اثنا شہزاد ٹاؤن تھانے میں درج مقدمے میں 150 دیگر افراد کے ساتھ 6 افراد کو نامزد کیا گیا تھا
سہالہ تھانے کے مقدمے میں جی ٹی روڈ کو بلاک کرنے پر 100 افراد کے ساتھ 11 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ کھنہ پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں 250 دیگر کارکنوں کے ساتھ اقبال ٹاؤن میں مسلح اجتماع کے لیے 15 افراد کو نامزد کیا ہے، جہاں انہوں نے اسلام آباد ایکسپریس وے کو بلاک کیا اور وہاں پولیس پارٹی پر حملہ کیا تھا
بہارہ کہو پولیس اسٹیشن کے مقدمے میں 29 افراد کے ساتھ 235 دیگر افراد کو مسلح ہجوم کے ساتھ اتھل چوک بلاک کرنے اور پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ سیکریٹریٹ تھانے میں خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی صالح محمد خان سواتی اور ان کے دو ذاتی محافظوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بعد ازاں ایم این اے کی پولیس پینا فلیکس کے سامنے کھڑے ہونے کی تصویر شیئر کی، جس پر ان کے گلے میں ایک شناختی بورڈ لٹکا ہوا تھا، جس پر ان کے خلاف مقدمے کی تفصیلات درج تھیں
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں مانسہرہ خیبر پختونخوا سے منتخب ہونے والے صالح محمد قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے چکے ہیں تاہم سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ابھی تک ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا
سینئر افسران نے کو بتایا کہ یہ تصویر سب سے پہلے سینئر پولیس افسران کے ایک گروپ میں شیئر کی گئی تھی، جہاں سے یہ پھیل گئی
ذرائع نے وضاحت کی عام طور پر عادی مجرم ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈکیتی اور دہشت گردی جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں اور پولیس کرمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) پروفائلنگ کے عمل کے ایک حصے کے طور پر تصویر کھینچتی ہے
ذرائع نے بتایا کہ کئی سینئر افسران نے اس تصویر کو عوام کے لیے جاری کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا
ہفتے کو پولیس حراست میں موجود صالح محمد کی تصویر سوشل ٹائم لائنز پر وائرل ہوئی تو اس پر تبصرہ کرنے والوں کی بڑی تعداد نے جہاں ناپسندیدگی کا اظہار کیا وہیں کئی ایسے بھی تھے جو اسے بدسلوکی مان کر یہ کہتے رہے کہ عام آدمی بھی پولیس حراست میں ہر روز ایسے ہی سلوک کا نشانہ بنتا ہے
ڈاکٹر بینا خان نے موقف اپنایا کہ ’کتنے بے گناہ لوگ جیلوں میں ہوں گے لیکن ان کے لیے آواز تک نہیں اٹھائی جاتی۔‘
معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ ’اسلام آباد پولیس نے ایک ایم این اے کی تضحیک کی ہے۔‘
متعدد ٹویپس نے نشاندہی کی کہ ایم این اے ہی نہیں بلکہ کوئی عام شہری بھی ہو تو قانون اس کی یوں تضحیک کی اجازت نہیں دیتا
ابو ملاحم نے اپنے تبصرے میں لکھا ’صرف رکن اسمبلی ہی کیوں کسی بھی شخص یہاں تک کہ کسی مجرم کے ساتھ بھی ایسا سلوک جائز نہیں۔۔۔رائٹ ٹو ڈگنیٹی بنیادی حق ہے۔۔یہ تذلیل ہے جس کی کسی قانون اور أئین میں اجازت نہیں۔‘
پی ٹی آئی رہنما کی تصویر کی وجہ سے اسلام آباد پولیس پر تنقید کا سلسلہ بڑھا تو ہفتے کی شام آفیشل اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں معاملے کی وضاحت کی گئی
اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ ’آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ سی آر او انچارج اور ملوث اہلکار کو تاحکمِ ثانی معطل کر دیا ہے۔ اس سارے معاملے پر ایس ایس پی آپریشنز کو انکوائری کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔‘
قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی ہفتے کو کی گئی نیوز کانفرنس میں اپنی پارٹی کے ایم این اے کی تصویر کا ذکر کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس پر تنقید کی
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’صالح محمد کے گلے میں ایسے تختی لٹکا رکھی گئی ہے گویا وہ کوئی بہت بڑا مجرم ہے۔‘
صالح محمد کی گرفتاری کے بعد جمعے کو اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر اعلان کیا تھا کہ ’صالح محمد کے خلاف مقدمہ دہشت گردی ایکٹ، اقدام قتل، بلوہ، کار سرکار میں مزاحمت اور دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔‘
بعد ازاں رکن قومی اسمبلی اور ان کے دو محافظوں کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔