برطانیہ کی سیاسی قیادت ایک بار پھر تبدیل ہونے کو ہے

ویب ڈیسک

سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے اس دوڑ سے باہر ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم بننے کے لیے رشی سونک انتہائی پسندیدہ امیدوار تسلیم کیے جا رہے ہیں۔

سابق چانسلر کے پاس اس وقت کنزرویٹو ایم پیز میں سب سے زیادہ اعلان کردہ حمایتی ہیں۔

اب ساری توجہ اس جانب ہے کہ ان کی واحد حریف پینی مورداں کو برطانیہ کے وقت کے مطابق دوپہر دو بجے تک مطلوبہ 100 رکن پارلیمان کی حمایت حاصل ہوتی ہے کہ نہیں

ستمبر 2022 میں برطانیہ کے وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شکست سے دو چار ہونے والے رشی سونک اکتوبر میں ملک کے وزیر اعظم بننے کے دہانے پر کھڑے نظر آ رہے ہیں

بورس جانسن کے قیادت کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد کئی ایم پیز نے اپنی نامزدگیوں کو باقی دو امیدواروں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔

357 ٹوری ایم پیز میں سے تقریباً 180 نے عوامی طور پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ کس کی حمایت کر رہے ہیں۔ رشی سونک کو 155 کی حمایت حاصل ہے جبکہ پینی مورداں کو اعلانیہ طور پر ابھی تک صرف 25 حمایتی حاصل ہیں۔

پینی مورداں کی ٹیم نے کہا ہے کہ وہ ابھی بھی دوڑ میں ہیں اور مطلوبہ حمایتی حاصل کرنے کے ہدف کو ‘چھونے کے قریب’ ہیں جبکہ رشی سونک کی ٹیم نے کہا کہ وہ کسی بھی چیز کو کم نہیں گن رہے ہیں

دوسری جانب سابق وزیر اعظم ٹریزا مے کی حکومت میں سابق وزیر اور مورداں کی حمایت کرنے والے ڈیمین گرین نے کہا کہ ان کی تعداد شائع شدہ اعداد و شمار سے ‘کہیں زیادہ’ ہے۔

انھوں نے بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ ‘ہمیں دو بجے کی ڈیڈ لائن سے پہلے 100 تک پہنچنے اور ساتھیوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کرنے کا یقین ہے کہ پینی پارٹی کو متحد کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہیں۔’

اگر وہ 100 حمایتیوں کے ہندسے تک پہنچ جاتی ہیں تو دوڑ پھر کنزرویٹو پارٹی کے اراکین کے آن لائن بیلٹ تک جا سکتی ہے، جس کے فاتح کا اعلان جمعہ تک کیا جائے گا۔

بہرحال جو بھی ہو ہفتے کے آخر تک برطانیہ میں ایک نیا وزیر اعظم ہو گا اور ہاں، سات ہفتوں میں یہ تیسرا وزیراعظم ہو گا۔

اس صورتحال میں زیادہ تر کنزرویٹوز نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کی پارٹی کی ساکھ کو گہرا نقصان پہنچانے والی مضحکہ خیز سرکس کے مترادف ہے۔

یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اب ‘بورس جانسن کیا کریں گے؟’

کیریبین یعنی غرب الہند کے جزائر سے واپس آنے کے بعد انھوں نے سنیچر اور اتوار کو ٹیلی فون پر کچھ خوش گپیاں کیں اور اسی دوران یہ معلوم کرنے کی کوشش کی پارلیمانی پارٹی میں ان کے لیے کتنی حمایت ہے۔

خیال رہے کہ چند ہفتے قبل ہی ان لوگوں نے بورس جانسن سے چھٹکارا حاصل کیا تھا

سنیچر کی دوپہر سے مسلسل ہی ان کی ٹیم یہ بریفنگ دے رہی تھی کہ ان کے پاس ضروری نمبر ہیں اور کابینہ کے ایک وزیر جیکب ریز موگ نے عوامی طور پر یہ بات کہی۔

ایک دوسرے وزیر کرس ہیٹن-ہیرس تو اپنے میں ان سے بھی آگے نکلتے ہوئے کہا کہ ضروری کاغذی کارروائی پارٹی کو جمع کرا دی گئی ہے جن میں ان کے تصدیق شدہ حمایتی بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بورس جانسن مقابلے میں شامل ہو سکتے ہیں

لیکن ان دعوؤں کا ردعمل ان بہت سے مسائل میں سے ایک کی یاد دہانی تھی جن کا سامنا بورس جانسن کو کرنا پڑا تھا۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو ان میں سے ایک ان کے خود کے کہے الفاظ تھے کہ ان کے کہے ہوئے ایک لفظ پر یقین نہ کریں۔

ان ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک نے مجھ سے نجی طور پر کہا کہ اگر جانسن کو اس بات کی انکوائری کا سامنا نہ ہوتا کہ آیا انھوں نے لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی پارٹیوں کے متعلق ہاؤس آف کامنز کو گمراہ کیا تو معاملات بہت مختلف ہوتے۔

رکن پارلیمان کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس تفتیش کا سامنا نہیں کر رہے ہوتے تو وہ شاید ہوتا تو شاید وہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ واپس جا سکتے تھے یعنی وزیراعظم بن سکتے تھے۔

لیکن وہ نہیں واپس آ رہے ہیں

اور وہ اس لیے بھی نہیں آ رہے ہیں کہ ان کے لیے یہاں نمبر صرف کام نہیں کریں گے۔ بظاہر بہت زیادہ جو وہ کر سکتے تھے یہ تھا کہ وہ پارلیمانی پارٹی کے ایک تہائی سے کم کو اپنی حمایت کے لیے آمادہ کر لیتے اور اس کا مطلب یہ ہوتا کہ جیت جاتے جو کہ فتح عظیم ہوتی لیکن پھر بھی ممکنہ طور پر وہ تباہ کن ہوتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی کی حمایت کے بغیر حکومت کرنے کی کوشش کرنا کیسا ہے۔ اس کا انجام اچھا تو نہیں ہوتا ہے۔

اور اس طرح سیاسی ناظم ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے۔

اگر رشی سونک کی آج دوپہر کو فاتح کے طور پر تصدیق ہو جاتی ہے تو شاید انھیں منگل تک وزیر اعظم بننے کا انتظار کرنا پڑے گا تاکہ وہ دن کی روشنی میں ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچ سکیں۔

لیکن دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ شاید، اور محض شاید، اب بھی مقابلہ ہو سکتا ہے۔

فاتح جو بھی ہو جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ کیا انھیں بھی انھی مسائل کے ٹوکرے کا سامنا ہوگا جو لز ٹرس کے لیے اتنے بھاری تھے کہ اٹھائے نہیں جا سکے۔ یعنی ان کے سامنے شدید طور پر منقسم پارٹی، بڑھتی ہوئی قیمتیں، سنگین عوامی مالی صورت حال اور اپوزیشن جماعتوں کا یہ کہنا کہ ان کے پاس حکومت کا کوئی جواز نہیں رہا ہے جیسے مسائل سامنے ہوں گے۔

لیکن وہ بھی یہ امید کریں گے کہ کنزرویٹو پارٹی کی بغاوت کی بظاہر ناقابل تسخیر بھوک آخرکار پوری ہو جائے گی۔

اگر ایسا نہیں ہوا تو ایک بہت بڑا مشکل کام تیزی سے ناممکن کام میں تبدیل ہو جائے گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close