خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ضلعی انتظامیہ نے پیر کو کارخانو مارکیٹ میں مشہور برانڈز کے جعلی شیمپو بنانے والی ایک فیکٹری پر چھاپہ مارا، جس کے بعد فیکٹری کو سیل کرتے ہوئے مالک کو گرفتار کر لیا گیا ہے
اگر ملک کے دیگر شہروں کی بات کی جائے تو صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ لگ بھگ تمام ہی چھوٹے بڑے شہر روز مرہ استعمال کی نقلی اشیا سے بھرے پڑے ہیں۔ جس سے نہ صرف صارفین کے پیسے ضائع ہوتے ہیں بلکہ انہیں مطلوبہ معیاری چیز بھی نہیں ملتی
پشاور کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر انیس الرحمان کے مطابق جعلی شیمپو کے لیے استعمال ہونے والا تمام سامان قبضے میں لے لیا گیا ہے، جبکہ گرفتار مالک کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ضلعی انتظامیہ پشاور کا کہنا ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ میں انہوں نے پشاور میں کارخانو مارکیٹ حیات آباد میں چھ ایسی فیکٹریاں سیل کی ہیں، جو مشہور برانڈ کی پیکنگ میں جعلی شیمپو بیچتی تھیں
پشاور کے ایک اسسٹنٹ کمشنر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”تمام سیل شدہ فیکٹری مالکان کو نہ صرف جرمانہ کیا گیا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے“
انہوں نے کہا ”ہر چھاپے کے دوران تقریباً سات آٹھ سو یا اس سے زائد بوتلیں ضائع کی جاتی رہی ہیں اور ساتھ ہی تمام اسٹیکرز، مشینیں وغیرہ بھی ضبط کر لی جاتی ہیں“
تاہم اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا ہے کہ نقلی شیمپو یا دوسرا ساز و سامان بنانے والوں کا راستہ مکمل طور پر روکنا ناممکن ہے
وہ کہتے ہیں ”اطلاع ملنے پر ہم فیکٹری سیل کر کے ملوث افراد کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار یا لاکھ روپے جرمانہ لگا لیتے ہیں لیکن یہ لوگ ضمانت پر رہا ہو کر مقام تبدیل کر کے دوبارہ یہ کاروبار شروع کر دیتے ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ یا حکومت کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار نہیں کہ ان کو ٹریس کیا جا سکے“
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر جعلی شیمپو غیر معروف اور دیہاتی علاقوں کے اسٹورز میں دستیاب ہوتے ہیں
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق جعلی شیمپو سے بچنے کا بہترین حل عوام میں آگہی اور شعور پھیلانا ہے کہ وہ اصلی اور نقلی کی پہچان خود کر سکیں
نقلی شیمپو کی پہچان کا طریقہ کیا ہے؟
پچیس سالہ نوجوان شہری عذیر بتاتے ہیں ”میں اپنے گرتے بالوں سے سخت پریشان تھا، لہٰذا کچھ عرصہ قبل میں ایک بڑے سائز کا مشہور شیمپو خرید کر گھر لایا۔ اس کے چند ماہ بعد میں نے سوشل میڈیا پر ایک خبر پڑھی، جس میں اسی مارکیٹ پر چھاپے کے دوران بہت سارا نقلی شیمپو پکڑے جانے کے بارے میں بتایا گیا تھا“
انہوں نے کہا ”تصاویر میں وہ شیمپو بھی شامل تھا، جو میں نے خریدا تھا۔ اور تب مجھے اندازہ ہوا کہ میرے بال بجائے ٹھیک ہونے کے مزید کیوں گرنے لگے تھے“
پشاور کے ایک مشہور اسٹور مینیجر نہایت شاہ کا کہنا ہے ”میں اپنی ساکھ اور نام برقرار رکھنے کے لیے مشہور کمپنیوں سے براہ راست سامان خریدتا ہوں، جس صورت میں دھوکہ دہی کا کوئی امکان نہیں ہوتا“
پشاور میں یونی لیور کے سیلز سپروائزر سبحان احمد بتاتے ہیں ”پشاور بھر میں ان کے چار ڈسٹری بیوشن سنٹر ہیں جبکہ صرف پشاور میں ان سے براہ راست خریدنے والے دکانوں کی تعداد چار ہزار سے زائد ہے“
انہوں نے کہا کہ آج کل مارکیٹ میں نقلی شیمپو بنانے والے انہیں سو فیصد کاپی کر رہے ہیں، جس میں ذرا برابر فرق نہیں ہوتا
تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اصلی شیمپو خریدنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی بڑے اسٹور کا انتخاب کیا جائے کیونکہ وہ اپنی ساکھ کبھی خراب نہیں کرتے۔ وہ یونی لیور کا جو بھی سامان بیچتے ہیں، اس کی اسی وقت بذریعہ کمپیوٹر ہمیں بھی اطلاع موصول ہو جاتی ہے“
اس کے علاوہ اصلی شیمپو کی پہچان کرنے کے لیے ’کیو آر کوڈ‘ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ سبحان احمد کے مطابق بوتل کے پیچھے ایک ’کیو آر کوڈ‘ سمیت چند لکیروں پر مشتمل ایک ’بار‘ ہوتی ہے
سبحان کے مطابق ’یوں سمجھیں کہ اصلی اور نقلی کی پہچان کا اصل نکتہ یہی ہے۔ جس شیمپو کے بوتل پر یہ لکیریں نہیں ہوتیں وہ کاؤنٹر پر ’اسکین‘ نہیں ہو سکتی۔ عام اسٹور والے اس پر ہاتھوں سے قیمت لکھ کر بغیر اسکین کیے پیسے وصول کرتے ہیں۔‘
جبکہ کلک فار ایکسپلور ویب سائٹ کے مطابٹ: بارکوڈ کو آسانی سے کاپی کیا جا سکتا ہے لہٰذا اس سے شناخت کرنا ممکن نہیں
سیلز سپروائزر نے بتایا کہ کیو آر کوڈ کی خوبی یہ ہے کہ اس کو موبائل کیمرے سے اسکین کیا جائے تو فوراً ایک لنک نمودار ہو جاتا ہے، جو خریدار کو متعلقہ کمپنی کی ویب سائٹ پر لے جاتا ہے
انہوں نے مزید بتایا ”اصلی شیمپو کی ایک پہچان اس کے گاڑھے پن اور خوشبو سے بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ مسلسل ایک شیمپو استعمال کرتے آئے ہوں، ان کے لیے یہ فرق جاننا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ ایسا شیمپو انتہائی پتلا اور صحیح جھاگ نہیں بناتا۔ جبکہ اس کی اپنی مخصوص خوشبو بھی اس کی ایک پہچان ہوتی ہے“
علاوہ ازیں جعلی پروڈکٹ پر بڑی رعایت ہو سکتی ہے، لیکن اصلی پر کبھی بھی رعایت نہیں مل سکتی۔
جعلی پروڈکٹ پر بوتل پر متن واضح اور صاف نہیں ہوتا۔