’رواں ہفتہ بہت سی دھماکے دار خبروں کا ہفتہ ہوسکتا ہے‘

عبدالرزاق کھٹی

حکومت گنوانے کے بعد عمران خان کا دوسرا لانگ مارچ لاہور سے روانہ ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے وہ رواں سال 25 مئی کو پشاور سے روانہ ہوئے تھے۔ مگر اُن دنوں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، جبکہ اس بار ان کی اپنی حکومت ہے، اسی لیے اس بار انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز پشاور کے بجائے لاہور سے کیا۔ اس بار بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ مطالبات وہی ہیں، جو 25 مئی والے احتجاج کے وقت تھے۔ ان میں سرفہرست مطالبہ جلد از جلد عام انتخابات کرانے کا ہے

موجودہ صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو دو چیزیں سامنے آتی ہیں، ایک تو یہ کہ اسلام آباد کے چاروں اطراف ان کی حکومتیں ہیں، اور دوسرا ان کی عوامی اجتماعات کے انعقاد میں بھی بڑے پیمانے پر عوام کی پذیرائی ملی ہے۔ ایسے میں توقع کی جا رہی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد پہنچے گی

پی ٹی آئی کے سربراہ لانگ مارچ میں اپنی تقاریر کے دوران اب حکومت کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ کُھل کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کی تقاریر میں زیادہ جارحانہ انداز ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد آیا ہے

ڈی جی آئی ایس آئی کا باضابطہ طور پر کسی پریس کانفرنس میں اچانک موجود ہونا اور کُھل کر بولنا پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں کے لیے بھی حیران کن تھا، کیونکہ یہ پریس کانفرنس نہ صرف اچانک بلائی گئی تھی بلکہ یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ اس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود ہوں گے۔ یہی سبب تھا کہ پریس کانفرنس کے بعد بہت سارے صحافی اپنے سینیئرز سے پوچھتے نظر آئے کہ کیا ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی ہے؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بات خود غیرمعمولی حالات کی جانب اشارہ کر رہی ہے

2014ع میں ہونے والے لانگ مارچ کے وقت پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی، لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں بلکہ صورتحال یکسر اس کے برعکس نظر آتی ہے

تو اب ہوگا کیا؟ یہی وہ سوال ہے، جس کا جواب عام آدمی کے پاس تو کیا اقتدار کے ایوانوں میں موجود لوگوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ ایک بے یقینی ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح یقین دہانی کروانے کے باوجود بھی حکمرانوں کو کھائے جارہی ہے۔ انہیں اب عمران خان کی وہ تقاریر یاد آرہی ہیں، جو وہ تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد کیا کرتے تھے۔ وہ سمجھتے ہیں رواں سال مارچ اور اپریل میں جو کچھ عمران خان نے کیا، اس سے تو لگتا ہے کہ انہوں نے خود اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروائی۔ کیونکہ موجودہ حکمرانوں کے چھ ماہ کے دوران جو کچھ ہوا ہے، اس سے عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے

عمران خان کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا یا نہیں؟ اگر پہنچے گا تو کیا ریڈ زون کی طرف رخ کرے گا؟ اگر ریڈ زون کی طرف آئے گا تو کیا انتظامیہ اسے روک پائے گی؟ اس دوران اگر مزاحمت ہوئی تو کتنا جانی و مالی نقصان ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جو حکومتی عہدے دار آپس میں ایک دوسرے سے کر رہے ہیں

لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ خوف دونوں جانب ہے۔ لانگ مارچ کی رفتار پی ٹی آئی کے خوف کی عکاسی کرتی ہے اور حکومتی جماعتوں کے بیانات اور بھونڈے اقدامات ان کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کر رہے ہیں

کیا یہ لانگ مارچ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود نتائج دے سکتا ہے؟ اگر لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ بھی جائے تو کتنے دن رکنا ہے؟ کیا سرد راتوں میں لوگوں کو ٹھہرانا اتنا آسان ہوگا؟

لگ بھگ ایک ماہ سے خصوصاً اسلام آباد کے ریڈ زون کے داخلی راستوں پر اور عموماً شہر کے دیگر داخلی راستوں پر کنٹینرز موجود ہیں۔ شہر ایک ڈرائی پورٹ کا سماں پیش کررہا ہے۔ لاہور سے لانگ مارچ کی روانگی کے بعد اب ریڈ زون کو زیرو پوائنٹ تک توسیع دے دی گئی ہے۔ پہلے ریڈ زون کی حدود سیرینا ہوٹل چوک سے شاہراہِ دستور سے ہوتی ہوئی، میریٹ ہوٹل تک ہوتی تھی، مگر اب تقریباً آدھا شہر ریڈ زون قرار دیا جاچکا ہے

بڑی تعداد میں آنسو گیس کے شیل خریدے جا چکے ہیں، جبکہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں اور دیگر آلات کا بھی انتظام ہوچکا ہے۔ حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ کسی صورت لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد میں نہیں آنے دے گی

25 مئی کو بھی جب لانگ مارچ روات چوک پر پہنچا تھا تو اس رات لانگ مارچ کے قافلوں میں شامل لوگ ریڈ زون کی طرف پہنچ رہے تھے، آنسو گیس کے بے تحاشہ استعمال کے نتیجے میں ایک بڑے علاقے میں سانس لینا دشوار ہو چکا تھا۔ اس دن بھی مزاحمت ہوئی لیکن فورسز نے قابو پالیا تھا، پھر دوسرے دن عمران خان نے اپنا احتجاج ختم کر دیا تو صورتحال معمول پر آنا شروع ہو گئی

اس بار عمران خان اپنے ارادوں سے جس طرح آگاہ کر رہے ہیں، اس سے انتظامیہ کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں تحریکِ انصاف بہت زیادہ اثر رکھتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے قافلے بھی پہنچ چکے ہوں گے، اس لیے انتظامیہ کو بھی اندازہ ہے کہ اسے کس صورتحال کا سامنا ہوگا

بہرحال انتظامیہ کو ایک موہوم سی امید یہ بھی ہے کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے قبل اس کا کوئی حل نکل آئے گا اور اسے کسی بڑے امتحان سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ مگر سیاسی طور پر اس مارچ کے کیا نتائج ہوں گے، اس بارے میں چند ہی لوگ فیصلے کر رہے ہیں

لیکن یہ فیصلے کیا ہونگے، اس جا فیصلہ اعصاب کی اس جنگ کے اختتام پر ہی ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close