امریکا میں 8 نومبر کو وسط مدتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ ان انتخابات میں ہر سطح پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار فاتح رہے ہیں گے
ان امیدواروں میں پنسلوینیا میں سیلیبرٹی ڈاکٹر میحمت اوز، اوہایو میں فلم ’ہل بلی ایلگی‘ کے لکھاری جے ڈی وانس، جارجیا میں فٹبال کھلاڑی ہرشیل واکر اور اری زونا میں وینچر کیپیٹلسٹ بلیک ماسٹرز بھی شامل ہیں۔ سال بھر ان لوگوں کو تقریباً نظر انداز کیا جاتا رہا اور ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا لیکن یہ امیدوار مل کر سینیٹ کا کنٹرول ری پبلکن جماعت کو دلواسکتے ہیں۔ ری پبلکن جماعت اب پہلے سے زیادہ ٹرمپ کے قوم پرست بیانیے کی جماعت بن گئی ہے
ان انتخابات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ امریکی قوم کی سمت کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس میں برسراقتدار شخص اور پارٹی کی قسمت پر بھی بہت زیادہ اثر ڈالیں گے
روسی صدر کی قریبی شخصیت کا ’مداخلت‘ کا اعتراف
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے قریبی تعلق رکھنے والے، واشنگٹن اور یورپی ممالک کی جانب سے پابندیوں کے شکار روس کی بااثر کاروباری شخصیت یوگینی پریگوزن نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا اعتراف کرلیا
یوگینی پریگوزن کی ٹیم نے ان کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے کہا ”حضرات، ہم نے مداخلت کی، ہم مداخلت کر رہے ہیں اور ہم مداخلت کریں گے!“
واضح رہے کہ پابندیوں کے شکار یوگینی پریگوزن پر کئی مغربی ممالک کے الیکشن میں ووٹنگ کے نتائج کو متاثر کرنے کے لیے ٹرول فیکٹری چلانے کا الزام ہے
یوگینی پریگوزن نے اپنے بیان میں کہا ”احتیاط کے ساتھ، ٹھیک ضرورت کے مطابق، صرف ہدف کو نشانہ بنا کر اور جس بھی طریقے سے ہم اسے کر سکتے ہیں، ہم اسے کرتے ہیں“
انہوں نے مبہم اور غیر واضح انداز میں مزید کہا ”اپنے آپریشن کے دوران ہم ایک ساتھ ہی گردے اور جگر دونوں کو نکال دیتے ہیں“
اکسٹھ سالہ یوگینی پریگوزن بلومبرگ کی ایک رپورٹ پر رد عمل دینے کی درخواست کا جواب دے رہے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ روس امریکی وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے
یہ بیان مڈٹرم الیکشن کے لیے جاری انتخابی مہم کے آخری روز شائع کیا گیا، جبکہ یہ مڈٹرم الیکشن امریکی صدر جو بائیڈن کی بقیہ مدت کے تعین کریں گے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں
جولائی میں امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی انتخابی مداخلت میں ملوث ہونے کے سلسلے میں یوگینی پریگوزن سے متعلق معلومات دینے پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام دینے کا اعلان کیا تھا
یہ امریکی انتخابات اہم اور دلچسپ کیوں ہیں؟
اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن خود تو ابھی اسی دوڑ میں نہیں ہیں مگر یہ وسط مدتی انتخابات ان کے مستقبل کا فیصلہ ضرور کریں گے۔ یہی انتخابات فیصلہ کرتے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ ساتھ ریاستی مقننہ اور گورنر کے دفاتر کی اکثریت کس کے حصے میں آتے ہیں
یہ انتخابات ووٹروں کو ان کی صدارت اور ملک کی موجودہ سمت کے بارے میں بالواسطہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کریں گے
امریکی معیشت اس وقت ہچکولے کھا رہی ہے اور ووٹرز جرائم اور غیر دستاویزی امیگریشن کے بارے میں فکرمند ہیں
ایسے میں ان انتخابات کے نتیجہ امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن کے لیے سخت ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ نتیجہ سنہ 2024 کی صدارتی مہم کے لیے انتخابی معرکے کو بھی متاثر کرے گا، اور خاص طور پر ایسے حالات میں جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب لڑنے کے امکانات بھی پائے جاتے ہوں
وہ پانچ وجوہات جن کی وجہ سے یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں:
1- یہ ہاتھی کے پاس گدھے کے احتساب کی باری ہے
وسط مدتی انتخابات کا اثر پالیسیوں کی حد سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ کانگریس میں اکثریت حاصل کرنے کا مطلب یہ کہ اکثریتی جماعت کو کمیٹی کے ذریعے تحقیقات شروع کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے
دو برسوں سے ڈیموکریٹس نے سکروٹنی کے عمل کو وائٹ ہاؤس تک محدود کر دیا ہے اور سنہ 2021 میں امریکی پارلیمنٹ (یو ایس کپیٹل) پر چھ جنوری کو ہونے والے حملے کو بنیادی توجہ کا مرکز بنا دیا
انہوں نے سینکڑوں افراد کے انٹرویوز کیے ہیں اور اس دن جو ہوا اس کے بارے میں پرائم ٹائم سماعتیں کی ہیں، یہ جاننے کی کوشش میں کہ ٹرمپ کے دور میں اس بارے میں وائٹ ہاؤس کو پہلے سے کیا معلوم تھا اور اس پر اس انتظامیہ نے کیا ردعمل دیا
توقع ہے کہ حکمراں جماعت سال کے اختتام سے پہلے اس متعلق ایک رپورٹ شائع کریں گے۔ لیکن یہ سب کچھ بدلنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ ریپبلکن، جو پہلے ہی ایوان نمائندگان کے کنٹرول کی توقع کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ 6 جنوری کو کمیٹی کی کارروائی کو بند کریں دیں گے اور جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کے چین کے ساتھ کاروباری تعلقات پر تحقیقات کا آغاز کر دیں گے
ریپبلکن بائیڈن انتظامیہ کی امیگریشن پالیسیوں، افغانستان سے امریکی انخلا اور چین میں کورونا وائرس کی وبا کی ابتدا کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ریپبلکن امریکی سینیٹ کا کنٹرول بھی سنبھال لیتے ہیں تو ایسے میں یہ توقع بھی رکھیں کہ بائیڈن نے وفاقی عدالتوں اور اہم سرکاری ایجنسیوں میں کام کرنے کے لیے جو افراد منتخب کیے ہیں وہ تعیناتیاں نہیں ہو سکیں گی
2- اسقاط حمل کے حقوق یا مزید پابندیاں
کانگریس کی تشکیل نو ملک بھر میں امریکیوں کی روزمرہ کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کر سکتی ہے۔ اسقاط حمل اس کی ایک بہترین مثال ہو سکتی ہے
جون میں سپریم کورٹ نے آئینی طور پر محفوظ اسقاط حمل کے حقوق کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ان وسط مدتی انتخابات میں اسقاط حمل کا کے حقوق یا پابندی کا تعلق نتائج پر ہے
خیال رہے کہ امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں نے اس معاملے پر متضاد قانون سازی کی تجاویز پیش کر رکھی ہیں۔ ڈیموکریٹس نے خواتین کے اسقاط حمل کے حقوق کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ ریپبلکنز نے حمل کے پندرہ ہفتوں کے بعد اسقاط حمل پر قومی پابندی کی تجویز پیش کی ہے
ریاستی سطح پر پنسلوانیا، وسکونسن اور مشی گن جیسے روایتی سیاسی میدان جنگ میں کلیدی گورنر اور مقامی نسلوں کے نتائج کا مطلب ہو سکتا ہے کہ وہاں اسقاط حمل پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں
کون کانگریس کا کنٹرول حاصل کرتا ہے اور کون ریاستوں میں اقتدار حاصل کرتا ہے، اس امر کا تعلق اس بات پر بھی ہے کہ اسقاط حمل کے علاوہ دیگر پالیسیوں پر کس کا کیا پلان ہے
اگر ریپبلکن غالب رہتے ہیں تو ایسے میں یہ توقعات باندھ لیں کہ امیگریشن، مذہبی حقوق اور پرتشدد جرائم سے نمٹنے کو ترجیح دی جائے گی
ڈیموکریٹس کے لیے ماحولیات، صحت کی دیکھ بھال، ووٹنگ کے حقوق اور بندوقوں پر کنٹرول ایجنڈے میں سرفہرست رہے گا
3- جو بائیڈن کا مستقبل
وسط مدتی انتخابات کو عام طور پر صدارتی مدت کے پہلے دو سالوں پر ہونے والا ریفرنڈم سمجھا جاتا ہے، جس میں اقتدار میں پارٹی اکثر شکست کھاتی ہے
جو بائیڈن کی ساکھ ایک سال سے زیادہ عرصے سے خراب ہے۔ جب کہ موسم گرما کے دوران ڈیموکریٹک کی قسمت ٹھیک ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اونچی مہنگائی اور معیشت کے بارے میں خدشات نے وسط مدتی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں اپنے آپ کو دوبارہ ظاہر کر دیا ہے، جس سے ڈیموکریٹس کو کانگریس کے دونوں ایوانوں کا انتظام سنبھالنے کے لیے ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے
صدر کے طور پر اپنے پہلے دو سالوں میں جو بائیڈن نے کانگریس میں اپنی کم اکثریت کے باوجود موسمیاتی تبدیلی، گن کنٹرول، بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری اور بچوں کی غربت سے متعلق نئے قوانین کو آگے بڑھایا ہے
اگر کانگریس کے ان دو ایوانوں میں سے کوئی ایک ریپبلکن کی طرف جاتا ہے تو ایسے میں پھر ان کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ ڈیموکریٹک جماعت کی طرف سے پیش کردہ جتنے بل ہیں کانگریس کی منظوری نہ حاصل ہونے دیں اور یوں ایک نیا ڈیڈلاک پیدا ہوجائے
ڈیموکریٹس کے لیے کمزور انتخابی نتائج کا مطلب تو فوری طور پر جو بائیڈن کی مسلسل سیاسی کمزوری کو ظاہر کرے گا، اور سنہ 2024 کی صدارتی مہم کے دوران ان کی جماعت کے اندر سے دوسری بار صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ سے دستبردار ہونے کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے
تاہم صدر جو بائیڈن اور ان کے مشیروں کا اصرار ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب لڑیں گے۔ خیال رہے کہ پرائمری الیکشن میں، جب ایک ہی جماعت کے مختلف امیدوار صدارت کی دوڑ میں آپس میں مقابلہ کرتے ہیں، ایک موجودہ صدر کو دوسری بار امیدوار بننے کی دوڑ سے باہر کرنا حالیہ سیاسی دور میں صرف ایک بار ہی ہوا ہے
4- کیا ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ انتخابات لڑیں گے؟
حالیہ شکست خوردہ صدور کے برعکس سابق صدر ٹرمپ نے خاموشی سے سیاست نہیں چھوڑی
ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی سنہ 2024ع میں وائٹ ہاؤس میں واپس آنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وسط مدتی انتخابات ان کے ہاتھ مضبوط کر سکتا ہے یا ان کی امیدوں کو ختم کر سکتا ہے۔ اگرچہ وہ براہ راست تو مقابلے میں نہیں ہیں مگر ان کے درجنوں منتخب امیدوار پورے امریکہ میں ہائی پروفائل حلقوں سے اس دوڑ میں شامل ہیں
زیادہ روایتی ریپبلکن سیاست دانوں پر، بزرگ ریپبلکن رہنماؤں کے اعتراضات کے باوجود سابق صدر سینیٹ کے کچھ امیدواروں کو آگے لانے میں کامیاب رہے، جیسے جارجیا میں فٹ بال کے سابق کھلاڑی ہرشل واکر، پنسلوانیا میں ٹیلی ویژن کے ڈاکٹر مہمت اوز اور اوہائیو میں پاپولسٹ مصنف جے ڈی وینس شامل ہیں
اگر یہ سارے امیدوار جیت جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تیز سیاسی بصیرت کے حامل ہیں اور ان کی قدامت پسند سیاست کا برانڈ اب عوام میں بِک رہا ہے لیکن اگر کانگریس میں ریپبلکن کم تعداد میں رہ جاتے ہیں تو اس کی وجہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غیر روایتی امیدوار چننے کی ناکامی تصور ہو گی۔ اس شکست کا ذمہ سابق صدر خود لے سکتے ہیں
یوں نتیجتاً پارٹی کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حریفوں کی امیدیں بڑھ جائیں گی۔ فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس اور ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ دونوں نومبر میں دوبارہ انتخاب کے لیے تیار ہیں اور سنہ 2024ع میں ریپبلکن نامزدگی جیتنے کے لیے اپنی مہم کے لیے ان نتائج کو تازہ ہوا کے جھونکے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں
5- کیا الیکشن سے انکاری امیدوار بھی انتخابی دوڑ کا حصہ ہوں گے؟
سنہ 2022ع کے وسط مدتی انتخابات 6 جنوری کو امریکی کیپیٹل بلڈنگ پر حملے کے بعد سے پہلے وفاقی انتخابات ہوں گے، جب ٹرمپ کے حامیوں نے جو بائیڈن کی انتخابی فتح کے اعلان کو روکنے کی کوشش کی تھی
ہنگامہ آرائی سے بچائے جانے سے دور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس الیکشن کے نتائج پر سوال اٹھانا جاری رکھا ہے اور ریپبلکن امیدواروں کی فعال حمایت کی ہے جو کہتے ہیں کہ ٹرمپ کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے
ان میں سے بہت سے امیدوار، جیسے ایریزونا میں سیکریٹری آف سٹیٹ کے نامزد امیدوار مارک فنچم اور نیواڈا میں جم مارچنٹ اور پنسلوانیا میں گورنر کے امیدوار ڈوگ مستریانو شامل ہیں، جو ایسے دفاتر کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں جہاں سنہ 2024 کے صدارتی مقابلے میں ان کا ریاست کے انتخابی نظام پر کم از کم کچھ کنٹرول ضرور ہوگا
یہ سیاستدان اگر منتخب ہو جاتے ہیں تو قریبی انتخابات میں اپنی ریاست کے انتخابی نتائج کی تصدیق کرنے سے انکار کر سکتے ہیں
وہ انتخابی بدعنوانی کے الزامات کی بنیاد پر مقامی لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں بھی شامل ہو سکتے ہیں یا ووٹنگ کے کچھ طریقوں کو کم کرنے والے نئے اصول و ضوابط نافذ کر سکتے ہیں، جیسے ڈاک کے ذریعے یا بیلٹ ڈراپ باکس کے ذریعے
سنہ 2020ع میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کچھ نتائج کو تبدیل کرنے کے دباؤ میں متعدد ریاستوں میں ریپبلکن عہدیداروں نے ان کے مطالبات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا
اب سے دو سال بعد اگر اسی طرح کا مقابلہ ہوا تو اس قسم کے چیلنجز کا نتیجہ بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔