زرد آدمی کی سیاہ کہانی (افسانہ)

شاکر انور

ہر کوئی اسے مردہ سمجھتا تھا،حالانکہ وہ مردہ نہیں تھا ۔مردہ ہونے کے لیے مرنا ضروری ہوتا ہے جیسے رات کہنے کے لئے رات کا ہونا، مسکرانے کے لئے خوشی اور رونے کے لئے آنسو کا ہونا۔۔۔ وہ تو زندہ تھا مگر زندوں میں مردے جیسا زندہ۔۔۔خواہشات جذبات سے یکسر عاری۔۔ بس صرف دھڑکنوں کو گنتا ہوا ایک انسان، زرد چہرے والا، آنکھیں غار کے اندر بجھتی ٹمٹماتی ہوئی سی، لمبا قد اور بڑے سر والا آدمی۔۔

وہ اب چالیس سال کا ہو گیا تھا۔ اسے خود حیرت ہوتی کہ وہ چالیس کا کیسے ہو گیا۔۔ اسے تو بچپن میں ہی مر جانا تھا۔ کسی نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ مشکل سے دس سال تک زندہ رہے گا، اس کے کان بہت چھوٹے ہیں۔ دس سال بعد وہ ہر روز مرجاتا، یا خود کو مرتا محسوس کرتا مگر وہ زندہ رہا۔۔ دس سال بعد وہ دس سال اور بھی زندہ رہا۔اب وہ بیس سال کا ہو گیا اور زندہ رہا، پھر بیس سال مزید اور اب وہ چالیس سال کا ہوگیا، اور زندہ رہا۔۔ ہر رات سونے سے پہلے وہ اپنے کان چھو کر دیکھتا مگر وہ بڑے نہیں ہوئے۔ اسے نہ جانے کیوں یقین تھا جس دن اس کے کان بڑے ہوں گے، وہ اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔

وہ اپنی زندگی کو بس بلاوجہ کھینچ رہا تھا۔۔ اسے بہت ساری باتیں ناگوار لگتی تھیں، اسے اسکول جانا پسند نہیں تھا، وہاں ماسٹر بدرو تھے، جو اس کو ‘کن بچا‘ کہہ کر چھیڑتے، بلاوجہ اس کے کان کھینچتے۔ ایک دن غصے میں آکر اس نے بورڈ پر ’ماسٹر بدروح‘ لکھ دیا.. پھر اسے اسکول چھوڑنا پڑا کیونکہ اس نے ان کے گھر اور اسکول کی دیواروں پر ’ماسٹر بدروح‘ لکھ دیا تھا، جو اس کی بھرپور پٹائی کی وجہ بنی تھی

اس نے ایک پرنٹنگ پریس میں کام شروع کر دیا۔ وہ ایک معمولی آدمی تھا۔ معمولی سے بھی زیادہ معمولی آدمی، جس کی خود اپنی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ اس کی شخصیت میں کبھی کوئی بات نہیں رہی۔ وہ گرمی بلکل پسند نہیں کرتا جیسے بہت سارے لوگ پسند نہیں کرتے۔ وہ اندھیرے اور سمندر سے ڈرتا جیسے بہت سارے لوگ ڈرتے ہیں اور کچھ نہیں بھی ڈرتے۔ اسے نیپال کو نیپال کہنا اچھا لگتا لیکن کلکتہ کو کولکتہ کہنا برا لگتا۔ اسے اس بات کی حیرت ہوتی کہ کوے اور فلپائنی ایک دوسرے کو کیسے پہچان لیتے ہیں۔۔ وہ ہمیشہ اکیلا رہتا۔ وہ صبح سیر کرنے جانا چاہتا مگر کبھی جا نہیں سکا، جیسے بہت سارے لوگ نہیں جاتے مگر کچھ لوگ چلے بھی جاتے ہیں۔ اس نے کبھی نہیں سوچا کہ تتلی اتنی خوبصورت کیوں ہوتی ہے ، اور پھولوں میں رنگ اور خوشبو کہاں سے آتی ہے، سمندر میں موجیں کیوں پیدا ہوتی ہیں اور چاندنی میں گاؤں کیوں خوبصورت لگتا ہے۔

اس نے پہلی بار دل میں اپنی خالہ زاد بہن طاہرہ کے لئے محبت جیسی چیز محسوس کی۔ وہ اس سے شادی کا بھی خواہش مند ہوا مگر اس کے خالو نے اس کے چھوٹے کان کی وجہ سے انکار کر دیا ۔ اسے اس انکار پر زیادہ افسوس نہیں ہوا۔ اسے افسوس ہوا اور بس۔ پھر طاہرہ کی شادی ہوگئی کچھ دنوں بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا حالانکہ اس کے کان بڑے تھے۔ وہ اکثر طاہرہ کو یاد کرتا طاہرہ سے زیادہ اس کے آنسوؤں کو، جو اس نے اس دن بہائے تھے، جب ماسٹر بدرو نے اس کی بھرپور پٹائی کی تھی

اسے ہیجڑوں سے ہمیشہ خوف آتا۔ اسے بہت ساری چیزوں سے خوف آتا جیسے بہت سارے لوگوں کو بہت ساری چیزوں سے آتا ہے، کچھ لوگوں کو نہیں بھی آتا۔ وہ رات کے اندھیرے کے آخری پہر میں چمگادڑ کے پھڑپھڑانے سے نہیں ڈرتا اور کتوں کے بھونکنے سے بھی نہیں، لیکن وہ سردیوں میں نہانے سے ڈرتا اور کالی بلی سے بھی ڈرتا۔ اسے کوئٹہ عنابی ہوٹل کی کڑک چائے پسند تھی

اسے غصہ بہت کم آتا اور جب آتا تو جاتا نہیں اور جب جاتا تو پھر چلا جاتا۔ وہ اپنی بےبسی اور کمزوری کو اندر ہی اندر چھپا کر غصے کو پالتا رہتا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اس کے جسم میں کوئی انگارہ دہک رہا ہو کبھی تیز کبھی مدھم۔۔ وہ بہت ساری باتیں نہیں جانتا جیسے بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ اسے نہیں معلوم کہ اکسپریسو کافی کا موجد کون ہے اور مزہ کیسا ہوتا ہے۔ اس نے کافی کا نام سنا تھا اور بس۔۔

وہ اپنے کام میں ماہر تھا، پرنٹنگ کی دونوں مشینوں پر مہارت سے وہ کام کرتا۔ اس کا سیٹھ اکثر خوش ہو کر اسے گالی دیتا اور برگر کھلاتا اور وہ ساری گالیاں مسجد کے نکڑ پر بیٹھے دایاں ہاتھ کٹے فقیر پر الٹ دیتا
’بھنچ۔۔۔۔ کام کیوں نہیں کرتا.. سالا ہٹا کٹا ہڈ حرام۔۔‘ اسے ایک روپیہ اور ایک گالی دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔

وہ کام کے بعد کوئٹہ عنابی ہوٹل سے دودھ پتی چائے پی کر گھر جاتا۔ رات کو سونے سے پہلے چمگادڑ کے پھڑپھڑانے اور کتوں کے بھونکنے کا انتظار کرتا پھر پھڑپھڑانے اور بھونکنے کی آواز کے بعد وہ سو جاتا۔

آج اسے تنخواہ کے ساتھ سیٹھ نے بونس بھی دیا۔ وہ بہت خوش تھا۔اسے اچانک ہی ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوا۔ کیوں اور کیسے ، اسے نہیں معلوم۔۔۔ اس نے لٹن پان والے کی دکان سے ایک میٹھا پان منہ میں دباکر ایک سگریٹ سلگائی اور بس اسٹینڈ کی طرف بڑھا۔ اچانک رینجر کے آفس سے قبل ایک جہاز اس کے اوپر سے گزرا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ ڈر گیا۔۔ وہ ہمیشہ جہاز سے ڈرتا۔اسے نہیں معلوم کہ جہاز کا موجد رائٹ برادرز تھے یا کوئی اور۔۔اسے تو بس جہاز سے ڈر لگتا جیسے بہت سارے لوگوں کو لگتا ہے اور کچھ لوگوں کو نہیں بھی۔

اسٹاپ سے پہلے دو موٹر سائیکل سواروں نے اسے روکا۔
”موبائل اور پیسے نکال“ اس کی کنپٹی پر پستول تھا

”موبائل نہیں ہے“

دو میں سے دوسرا وہی دایاں ہاتھ کٹا فقیر تھا، جسے وہ ایک روپیہ اور ایک گالی دیتا تھا

”جھوٹ بولتا ہے بھڑوے“ ایک زوردار مکا اس کے منہ پر لگا۔ اسے بھی غصہ آگیا لیکن وہ کمزور زرد انسان بےبسی میں کچھ نہیں کر سکا۔۔ بس اس کے منہ پر پان کی پیک پھینک دی ۔ وہ اتنا ہی کرسکتا تھا، جو اس کے بس میں تھا۔۔دوسرے ہی لمحے گولی چلی اور وہ زمین پر گر پڑا۔ وہ اپنی جیب کو پوری طاقت سے پکڑے تڑپتا رہا کچھ دیر بعد ہی وہ مر گیا۔ اس کے مرنے پر کوئی نہیں رویا۔کون روتا، کوئی رونے والا نہیں تھا۔۔

کچھ لوگوں کے مرنے پر کوئ نہیں روتا۔۔ کچھ روتے بھی ہیں کچھ نہیں بھی۔۔ جو روتے ہیں، وہ بھی کچھ دنوں بعد مر جاتے ہیں اور جو نہیں، وہ بھی۔۔

اس نے اپنی جیب کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔۔ بڑی مشکلوں سے اسے الگ کیا گیا۔۔ جیب سے پیسے کی بجائے صرف ایک خط نکلا۔
’پیاری طاہرہ, آج میں بہت خوش ہوں لیکن اس خوشی نے مجھ کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ میرے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ خوشی راس نہیں آتی۔ مجھے سیٹھ نے تنخواہ کے ساتھ بونس بھی دیا ہے۔میرے پاس اب اتنے پیسے ہوگئے کہ بہ آسانی تم کو رخصت کرا سکتا ہوں۔ پیسے سیٹھ کے پاس جمع کر دیے ہیں۔اگلے ماہ میں رخصتی کرانے آ رہا ہوں، میرا انتظار کرنا۔۔ تمہارے ساتھ محبت اور چاہت کے لمحات گزار کر مجھے نئی زندگی مل جائے گی۔۔ مجھے یقین ہے ۔میں زندہ رہنا چاہتا ہوں تمہارے لیے تمہارے نام کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ تم میرا ساتھ دوگی نا؟“

آگے خون کے داغ سے الفاظ مٹ گئے تھے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close