گوا میں منعقدہ بھارت کے بین الاقوامی فلم میلے کی تقریب کے آخری روز فلم جیوری کے سربراہ اور اسرائیلی فلم ساز نداو لپیڈ نے بھارتی فلم ’کشمیر فائلز‘ کو واہیات اور پروپیگینڈا فلم قرار دیا، جس پر بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت کی حمایت یافتہ فلم نے ایک بار پھر تنازع کھڑا کر دیا ہے، جبکہ اسرائیل کے سفیر نے فلم ساز کے تبصرے کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے بھارت سے معافی مانگی ہے
فلم میلے کی تقریب کے اختتام سے قبل ایوارڈ جیتنے والی فلموں کے اعلان سے قبل فلم ساز نداو لیپیڈ کو اسٹیج پر بلایا گیا، انہوں نے فلم کو اس کے مواد کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا ”جیوری نے انٹرنیشنل کمپیٹیشن میں پندرہ فلمیں دیکھیں۔ ان میں چودہ فلمیں سنیمیٹک میعار کی تھیں اور ان کے بارے میں بہت اچھی بحث ہوئی، لیکن پندرہویں فلم ‘کشمیر فائلز ‘ کو دیکھ کر ہم سبھی حیران اور سکتے میں تھے۔ یہ ایک واہیات اور پرپیگینڈا فلم لگی۔ یہ فلم اس طرح کے باوقار فلم میلے میں آرٹسٹک کمپٹیشن کے لائق نہیں تھی۔“
لاپید نے فلمی میلے کی اختتامی تقریب میں سامعین میں حکومتی وزرا کی موجودگی میں مزید کہا ”میں پورے اعتماد کے ساتھ اس اسٹیج پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں۔ فیسٹیول کی روح کے اعتبار سے تنقیدی بحث یقینی طور پر قبول کی جا سکتی ہے جو فن اور زندگی کے لیے ضروری ہے“
جبکہ جیوری کے صرف ایک رکن سدیپٹو سین نے مبینہ طور پر اسرائیلی فلمساز کے تبصرے کو "ذاتی” قرار دیتے ہوئے خود کو ان سے الگ کیا
نداو لیپیڈ اسرائیلی فلم ساز ہیں۔ انہیں بھارتی فلم میلے میں ایوارڈ کے جیوری کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ وہ تل ابیب میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں فلسفے میں ڈگری حاصل کی۔ وہ بعد میں کچھ عرصے کے لیے پیرس چلے گئے تھے۔ اسرائیل لوٹنے کے بعد انہوں نے فلم اینڈ ٹیلی ویژن اسکول سے ڈگری حاصل کی۔ گولڈن بیر اور کان جیوری ایورڈو جیتنے والے لیپیڈ کی قابل ذکر فلموں میں ’پولیس مین‘ اور ‘’کنڈرگارٹن ٹیچر‘ شامل ہیں
انٹر نیشل فلم فیسٹیول آف انڈیا یعنی ایفی کا اہتمام بھارتی حکومت کرتی ہے اور اس میں ملک کے فلم سازوں، ہدیت کاروں، اور اداکاروں کے ساتھ ساتھ غیر ممالک کے فلم ساز اور ہدایات کار وغیرہ شرکت کرتے ہیں۔ اسے یہاں بہت باوقار پرگرام سمجھا جاتا ہے۔ جس وقت اسرائیلی فلم ساز نے کشمیر فائلز کے بارے میں اپنا بیان دیا، اس وقت بھارت کے مرکزی وزیر اطلاعات اور نشریات انوراگ ٹھاکر بھی تقریب میں موجود تھے
بھارت میں اسرائیل کے سفیر نیور گیلون نے نداو لیپیڈ کے بیان پر ایک کھلے خط میں لکھا ہے ”آپ خود کو بہت بہادر سمجھتے ہوئے اسرائیل واپس چلے جاؤ گے اور سوچو گے کہ آپ نے بہت جرات مندانہ بیان دیا ہے۔ لیکن ہم جیسے اسرائیل کے نمائندوں کو یہیں قیام کرنا ہے۔ آپ ہمارے میسیج باکسز میں دیکھيے کہ آپ کی بہادری کے بعد ہمیں کس طرح کے پیغامات مل رہے ہیں۔ آپ کو پتہ بھی ہے کہ ہماری ٹیم جو کوششیں یہاں کر رہی ہے، اس پر آپ کے بیان کا کیا اثر ہوگا؟“
انہوں نے مزید لکھا ہے ”اسرائیل اور بھارت کے لوگوں اور حکومت کے درمیان دوستی بہت مضبوط ہے اور جو نقصان آپ نے پہنچایا ہے وہ اسے سہنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ہم نے بھارت کی دوستی اور محبت کا جس ’غلط طریقے‘ سے جواب دیا ہے، اس کے بارے میں ایک انسان طور پر میں شرمسار ہوں اور اپنے میزبان ملک سے معافی مانگتا ہوں“
انگریزی روزنامہ ‘دی ہندوستان ٹائمز’ کے پولیٹیکل ایڈیٹر اور تجزیہ کار ونود شرما نے اسرائیلی سفیر کے ردِ عمل اور اپنے ہم وطن نادو لیپڈ پر کی گئی اس شدید نکتہ چینی کو غیرمعمولی اور سفارتی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ قرار دیا
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ونود شرما نے کہا ”یہ فن بمقابلہ سیاست کا معاملہ لگتا ہے۔ جب کسی فلم کے معیار اور قدر و قیمت کو جانچنے کی بات آتی ہے تو اُن سرکردہ اور منجھے ہوئے فلمسازوں اور ناقدین کی صلاحیت پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے، جن پر جیوری مشتمل ہے“
اُنہوں نے کہا ”اسرائیلی سفیر کے جواب کا محور و مرکز اُن کے ملک کے بھارت کےساتھ تعلقات ہیں۔ وہ صورتِحال پر سفارتی انداز سے قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک سفیر کی حیثیت سے اُن سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے“
ونود شرما نے مزید کہا ”نادو لیپڈ نے ‘دی کشمیر فائلز’ کی ضرور نکتہ چینی کی ہے اور جب کسی فلم کے معیار کو جانچنا ہو تو فلم بنانے والوں کی رائے زیادہ مقدم ہے، کسی سفارت کار کی نہیں۔ نادو لیپڈ نے جو کچھ کہا ہے کسی کو اسے بھارتی سنیما یا بھارت کی توہین نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک فلم اور اس کے بنانے والے پر تنقید ہے“
فلم ڈائرکٹر اور اداکاروں کا رد عمل
کشمیر فائلز کے ڈائرکٹر وویک اگنی اگنیہوتری نے اپنے ردعمل میں کہا ”میرے لیے اسرائیلی فلمساز کا بیان کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں ساری دہشگرد تنظیمیں، اربن نکسل (لفٹ – لبرل) اور بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے گینگز ہمیشہ سے کہتے آ رہے ہیں، لیکن جو بات حیرت کی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کی حکومت کے زیر اہتمام، بھارتی حکوت کے اسٹیج پر کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے والے بیانیے کی حمایت کی گئی۔ اور اس بیان کو کئی بھارتیوں نے بھارت کے خلاف استعمال کیا“
فلم اسٹار انوپم کھیر نے ’کشمیر فائلس‘ میں اہم کردار کیا تھا۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ”اگر ہولو کاسٹ صحیح ہے تو کشمیری پنڈتوں کے انخلا کا واقعہ بھی صحیح ہے“
انہوں نے کہا کہ فلم پر پہلے سے منصوبہ بندی کر کے تنقید کی گئی اور یہ شرمناک بات ہے۔ انہوں نے جیوری کے سربراہ پر الزام لگایا کہ انہیں کشمیری پنڈتوں کی تکالیف کا احساس نہیں
سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے مشیر اور صحافی پنکج پچوری نے لکھا ”اگر ہم بھارت آنے والے ایک اسرائیلی کو ایک فلم کے بارے میں باور نہیں کرا سکے تو یقینآ کشمیر فائلز میں بہت زیادہ گڑبڑ ہے۔ انہوں نے پچھتر برس سے فلسطینیوں کے بارے بہترین پراپیگنڈا دیکھا ہے“
فلم اور اس کا پسِ منظر
کشمیر کا ہمالیائی خطہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے تنازع کا محور چلا آ رہا ہے۔ دونوں ملک خطے کی ملکیت کے دعویدار ہیں لیکن خطے کا صرف ایک ایک حصہ ان کے زیرِ انتظام ہے
دا کشمیر فائلز جو 90 کی دہائی میں مسلم اکثریتی علاقے کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے انخلا کی فرضی داستان بیان کرتی ہے، اس سال مارچ میں ریلیز ہونے کے بعد سے متنازع ہو چکی ہے
دا کشمیر فائلز میں دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر 1990ع کی دہائی کے اوائل میں کشمیر سے ان ہزاروں لوگوں کا انخلا دکھایا گیا ہے، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ متعدد پنڈت، جو کشمیری برہمن ہیں، اکثر کہتے ہیں کہ ان کی تاریخ پر اچھے طریقے سے روشنی نہیں ڈالی گئی
ہندوتوا نظریات کے حامل بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے متعدد قانون سازوں کے ساتھ مل کر اس فلم کو حد سے زیادہ پروموٹ کیا، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی
بھارت کی اُن نو ریاستوں میں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ’دی کشمیر فائلز‘ پر تفریحی ٹیکس معاف کیا گیا تھا۔ اس رعایت کے ساتھ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے عوام کو یہ فلم دیکھنے کی ترغیب بھی دی تھی۔اس فلم نے نہ صرف بھارت میںی ریکارڈ توڑ بزنس کیا ہے
ناقدین نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے بھارت میں ہندوؤں پر جبر کے تاثر پر مبنی دائیں بازو کے پروپیگنڈا بیانیوں کو فروغ دینے لیے اس فلم کو استعمال کیا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد ملک میں مسلمانوں پر تشدد میں اس وقت اضافہ ہوا، جب اقلیتی برادریاں پہلے سے ہی جبر کا شکار ہیں
دا کشمیر فائلز پر کھڑے ہونے والے تنازع کی وجہ سے مئی میں سنگاپور نے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی کیوں کہ اس میں ’مسلمانوں کو اشتعال انگیز اور یکطرفہ انداز میں پیش کیا گیا۔‘
سنگاپور نے اعلان کیا کہ مذکورہ فلم اس کے درجہ بندی کے رہنما اصولوں سے ’ماورا‘ ہے۔ سنگاپور حکومت کا کہنا تھا کہ فلم میں کی گئی نمائندگی ’مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے اور ہمارے کثیر نسلی اور کثیر مذہبی معاشرے میں معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘
فلم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھا دی
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فلم میں تاریخی واقعات کو اسکرین پر دکھاتے ہوئے مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈے سے کام لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق فلم میں ایک تاریخی المیے کو غیر ذمے داری اور ‘اسلامو فوبیا’ کے تناظر میں دکھا کر مسلمانوں اور بالخصوص وادیٔ کشمیر کے اکثریتی مسلم طبقے کو ولن کے طور پر پیش کیا گیا ہے
ناقدین نے بالی وڈ اداکار انوپم کھیر جو خود ایک کشمیری پنڈت ہیں اور فلم کے ہدایت کار وویک اگنی ہوتری پر جنہیں بی جے پی کے قریب اور اس کے ہندوتو ایجنڈے کا حمایتی سمجھا جاتا ہے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے یہ فلم ایک مخصوص سیاسی پیغام دینے کے لیے بنائی ہے
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے نریندر مودی حکومت اور بی جے پی پر اس فلم کو اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا
ناقدین اور اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ‘دی کشمیر فائلز’ نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پہلے سے موجود دوریوں کو بڑھانے کا موجب بن گئی ہے بلکہ اس کی نمائش کے بعد ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملوں میں شدت آ گئی
لیکن وزیرِ اعظم مودی نے اس فلم سے متعلق سخت رائے رکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اور کہا تھا کہ ‘دی کشمیر فائلز’ کو بدنام کرنے کے لیے ایک سازش کی گئی ہے۔