کراچی: بیالیس کروڑ روپے کی آن لائن کمیٹیوں کا فراڈ

ویب ڈیسک

ہمارے محلے، پڑوس، ارد گرد کمیٹی ڈالنے والے ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں، جن کے پاس مرد و خواتین بچت کے نام پر کمیٹی ڈال کر رکھتے ہیں۔ آن لائن کاروبار اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اب کمیٹیاں بھی آن لائن ہو گئی ہیں

گزشتہ دنوں کراچی میں ایسی ہی ایک سو سترہ سے زائد آن لائن کمیٹیوں کے ذریعے بیالیس کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا فراڈ سامنے آیا ہے۔ اس آن لائن فراڈ کا نشانہ بننے والی سیکڑوں خواتین اب اپنی رقوم کی واپسی کے لیے شدید پریشان ہیں

تفصیلات کے مطابق فیسبک پر ڈیلی بائیٹس اور کروسے کے نام سے آن لائن کاروبار کرنے والی کراچی کی رہائشی سوشل میڈیا کی بزنس وومن سدرہ حُمید نے آن لائن کمیٹیوں (بی سی) کے ذریعے مبینہ طور پر سیکڑوں افراد سے، جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے، تقریباً بیالیس کروڑ روپے کی رقم خردبرد کرلی ہے

27 نومبر کو سدرہ حُمید نے اپنے فیسبک اکاؤنٹ سے معافی نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ”مجھ سے کمیٹیوں کی انتظام کاری میں غلطی ہوگئی ہے اور میں عملی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہوں۔ جبکہ میرے پاس کمیٹیوں کو ادا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔“

ان کا مزید کہنا تھا ”میں کہیں بھاگ نہیں رہی، تاہم مجھے ادائیگی کے لیے وقت درکار ہے، جس کے لیے وہ کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتی، لیکن آنے والے برسوں میں سب کی ادائیگی کردوں گی۔“

انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی کہا ”میں اس غلطی کی پوری ذمے داری لیتی ہوں۔ میں نہ کہیں بھاگ رہی ہوں اور نہ ہی کہیں چھپ رہی ہیں بلکہ میں تمام لوگوں کو ان کی رقوم کا آخری روپیہ تک واپس کروں گی۔“

اس کے بعد انہوں نے اپنے فیسبک اکاؤنٹ سے ایک اور پوسٹ کرتے ہوئے بتایا ”میں اور میرا خاندان ادائیگیوں کے لیے کام کررہے ہیں، جبکہ آنے والے مہینوں میں سب کی رقوم واپس کردی جائیں گی۔“

3 دسمبر کو انہوں نے چند لوگوں کے نام بھی پوسٹ کیے، جن کو انہوں نے رقوم کی ادائیگی کی ہے

لیکن سدرہ حُمید کی دی گئی وضاحتوں سے آن لائن کمیٹیاں ڈالنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مطمئن نظر نہیں آتی اور ان کا کہنا یہی ہے کہ انہیں نہیں معلوم ان کی رقم کس طرح واپس ملے گی؟

جبکہ کچھ ایسی خواتین نے سدرہ حُمید کے کمیٹی اسیکنڈلز کے بارے میں معلومات فراہم کیں، جن کی کمیٹیاں مکمل ہو چکی ہیں اور ان کو سدرہ کی جانب سے مکمل ادائیگی کی گئی۔ ان کا یہ بھی بتانا ہے کہ سدرہ مختلف کمیٹی کے گروپس میں جواب دے رہی ہیں لیکن اس کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لیتی ہیں

سدرہ حُمید کے متاثرین سوشل میڈیا پر مختلف گروپس میں اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ پر بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ تاہم میڈیا سے بات کرنے میں شدید ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، کسی کو گھر والوں کا خوف تو کسی کو اس بات پر تحفظات ہیں کہ ان کے سامنے آنے کے بعد شاید جو رقم واپسی کی امید ہے، وہ بھی دم توڑ جائے گی

اپنی بتیس لاکھ روپے کی رقم کی واپسی کے لیے پریشان ایسی ہی ایک خاتون نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ان کا تعارف سدرہ سے ایک فیسبک گروپ میں ہوا اور وہ ان کی باتوں اور ان کے کام سے متاثر ہوئیں اور اس طرح سے رابطے مضبوط ہوتے گئے، جبکہ ان کے گھر بھی آنا جانا شروع ہوگیا۔ کیونکہ بہت عرصے سے وہ سدرہ کو جانتی تھیں اس لیے ان کے ساتھ مختلف کمیٹیاں ڈال لیں

انہوں نے بتایا کہ دو چھوٹی کمیٹیوں کی سدرہ حمید نے انہیں مکمل ادائیگی کی تھی، جس کی وجہ سے ان کو یہ پریشانی نہیں تھی کہ وہ پیسے نہیں دیں گی۔ تاہم جب بڑی کمیٹی کی ادائیگی کے وقت سدرہ نے ان سے ٹال مٹول شروع کیا تو ان کو اندازہ ہوا کہ شاید کچھ گڑبڑ ہے۔ اسی اثنا میں فیسبک پر اس کمیٹی اسکینڈل کا معاملہ بھی سامنے آگیا

خاتون کے مطابق انہوں نے سدرہ کے گھر جاکر ان سے بات کرنے کی کوشش کی، تاہم سدرہ کی ساس نے سختی سے منع کر دیا اور ان کو بتایا کہ اب ہمارا وکیل بات کرے گا

اس کمیٹی کے زیادہ تر متاثرین ایک دوسرے کے ساتھ واٹس ایپ گروپوں میں رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنی رقوم کی واپسی کےلیے کیا کر سکتے ہیں۔ تاہم ابھی تک تو سدرہ حُمید کے خلاف کسی قسم کی بھی قانونی چارہ جوئی کسی کی جانب سے بھی سامنے نہیں آئی اور لگتا یہی ہے کہ متاثرین جو زیادہ تر سدرہ کے جاننے والے ہیں، اسی امید میں ہیں کہ یہ معاملہ جلد یا بدیر طے ہوجائے گا

دوسری جانب سدرہ نے عدالت سے تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔ اس درخواست میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ معاشی معاملات کی وجہ سے میں کمیٹیوں کی بروقت ادائیگی نہیں کر سکی ہوں اور ممبران کی جانب سے مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ تحفظ کے لیے تھانے سے رجوع کیا لیکن تحفط فراہم نہیں کیا گیا، لہٰذا کمیٹی ممبران کو ہراساں کرنے سے روکا جائے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے

اس حوالے سے جب سدرہ حُمید، ان کے شوہر، والد اور ساس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کے والد کا موبائل نمبر بند ملا، جبکہ سدرہ سمیت ان کے کسی بھی گھر والے نے نہ کال ریسیو کی نہ ہی میسیجز کا جواب دیا

اس ضمن میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد میں سے جو بھی قانونی مدد حاصل کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے ایف آئی اے سے رابطہ کرے کیونکہ یہ قانونی کارروائی ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ رقم جس طرح سے منتقل کی گئی ہے یعنی بینک اکاؤنٹ یا موبائل کیش کے ذریعے تو ان ٹرانزیکشنز کے اسکرین شاٹ کے ساتھ شکایت درج کروائی جاسکتی ہے تاکہ کم از کم وہ ملک چھوڑ کر نہ جا سکیں

قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شناخت ظاہر کیے بغیر بھی شکایت ایف آئی اے کو درج کی جا سکتی ہے

تاہم قانونی ماہرین کے خیال میں قانونی طور پر یہ کیس کافی کمزور ہوگا کیونکہ یہاں پیسوں کا لین دین قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر روایتی اعتبار کے لین دین کے طریقہ کار پر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے قانونی کارروائی کے لیے جانا آسان نہیں ہے

ایک اور خاتون نے بھی نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ سدرہ نے ان کے دس لاکھ روپے دینے ہیں اور یہ بات ان کے شوہر کے علم میں نہیں ہے۔ اگر ان کے شوہر کو علم ہوگیا تو وہ ان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے

سدرہ کے حوالے سے خواتین کے سوشل میڈیا گروپ کی ایڈمن نے اپنی گروپ میں پوسٹ لکھا کہ 2019ع میں سدرہ نے ان کو میسیج کر کے درخواست کی تھی کہ انہیں کچھ پیسوں کی ضرورت ہے، جو آپ اپنے گروپ کے ذریعے کروا دیں اور وہ یہ پیسے اپنے آن لائن بزنس کے ذریعے واپس کر دیں گی تاہم انہوں نے سختی سے انکار کر دیا تھا

اسی حوالے سے ایک اور انکشاف بھی سامنے آیا کہ سدرہ اپنی بیوہ بہن، جو قرآن کلاسز لیتی ہیں، کے لیے بھی مختلف گروپس میں مدد کی درخواست کرتی رہی ہیں اور کافی خواتین ان کی مدد کرتی رہیں، یہ جانے بغیر کہ ان کی بہن نے دوبارہ نکاح کرلیا ہے۔ اس وقت ان کی بہن نے بھی اپنا فیسبک اکاؤنٹ لاک کر دیا ہے

دوسری طرف یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ سدرہ اکثر اپنے کلائنٹس سے ایڈوانس پیمنٹ لینے کے باوجود ان کو آرڈر ڈیلیور نہیں کرتی تھیں اور اپنی مجبوریوں اور مشکلات کی کہانی سنا کر مطمئن کر دیتی تھیں

ایک اور خاتون بتایا کہ ان کا سدرہ کے گھر قرآن کلاسز کےلیے آنا جانا تھا۔ سدرہ کا بہت اچھا لائف اسٹائل ہے اور کہیں سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی قسم کی بھی مالی پریشانی کا شکار ہیں

دھوکا دہی اور بدعنوانی کی تحقیقات کے شعبے کی ایک ماہر خاتون نے متاثرین کی آگاہی کے لیے اپنی فیسبک پوسٹ میں لکھا کہ یہ کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ سوچے سمجھے طریقہ کار کے تحت عمل میں لایا گیا منصوبہ ہے۔ ان کمیٹیوں کے لیے جو خطیر رقم جمع کی گئی عین ممکن ہے کہ اسے ذاتی طور پر استعمال کیا جا چکا ہے یا آئندہ آنے والے دنوں میں کیا جا سکتا ہے

انہوں نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ ایسے معاملات کی کڑی چھان بین ضروری ہے۔ ایسے بیانات جیسے کہ ’’میں یہیں ہوں اور بھاگ نہیں رہی‘‘ یا پھر ’’مجھے وقت دیجیے اور بھروسہ رکھیے، تمام لوگوں کے پیسے واپس کر دیے جائیں گے‘‘ بنیادی طور پر دھوکا دہی کے واقعات سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس کمیٹی اسکینڈل مییں چند مخصوص لوگوں کو منتخب کر کے پیسے واپس کیے گئے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ رقم کی ادائیگی بھی جان پہچان کے لوگوں کو کی گئی ہو تاکہ اس کے بدلے ان سے فائدہ حاصل ہو۔ جبکہ وہ اپنی نیک نامی اور حیثیت برقرار رکھنے کے لیے آپ کو ہلکی پھلکی معلومات فراہم کرتی رہے گی تاکہ معاملہ ایک حد سے آگے نہ بڑھ پائے

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سدرہ کا اپنا مکان، شہر یا ملک چھوڑ کر جانے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close