چین نے جب دسمبر کے اوائل میں اپنی صفر کووڈ پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا تو اسی وقت بین الاقوامی مبصرین نے متنبہ کیا تھا کہ چین کی ایک بڑی آبادی میں وسیع پیمانے پر وبا پھیل سکتی ہے، جنہیں خاطر خواہ مدافعتی صلاحیت یا ویکیسن تحفظ حاصل نہیں ہو سکی ہے
ایک طبی تنظیم ہیلتھ ڈیٹا ڈاٹ آرگ (healthdata.org) کی طرف سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اپریل 2023ع تک تین لاکھ افراد کووڈ انفیکشن سے ہلاک ہوسکتے ہیں، جبکہ سال کے اواخر تک مرنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ ہو سکتی ہے
برطانیہ کی ہیلتھ ڈیٹا فرم ایئرفینٹی نے اسی ہفتے کہا کہ چین میں انفیکشنز کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ جبکہ اموات پانچ ہزار سے زیادہ ہونے کا امکان ہے جو کہ سرکاری اعداد و شمار کے ’بالکل برعکس‘ ہے
شنگھائی کے ایک ہسپتال کا اندازہ ہے کہ شہر کے اڑھائی کروڑ افراد میں سے نصف اگلے ہفتے کے آخر تک وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو آئندہ برس دس لاکھ سے زیادہ کووڈ اموات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
جرمنی کی یونیورسٹی آف ورزبرگ میں چینی تاریخ، تہذیب و ثقافت کے ماہر بیون الپرمین کہتے ہیں ”انفیکشن تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔ یہ کافی حد تک درست ہے کہ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، کم از کم بیجنگ اور دیگر بڑے شہروں میں۔“
وبائی امراض کے ایک ماہر ایرک فیگل ڈنگ نے 19 دسمبر کو ایک ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ حالات ’تھرمو نیوکلیئر بیڈ‘ یعنی حد سے زیادہ خراب حالت تک پہنچ چکے ہیں
فیگل ڈنگ نے پیش گوئی کی ہے کہ "اگلے نوے دنوں کے اندر چین کی آبادی کا ساٹھ فی صد اور دنیا کی آبادی کا دس فی صد متاثر ہو سکتے ہیں اور لاکھوں افراد کی موت ہو سکتی ہے“
فیگل نے سن 2020 میں وبا کے ابتدائی مہینوں کو یاد دلانے والی ایک تصویر بھی پوسٹ کی، جس میں مریضوں سے بھرے ایک ہسپتال میں مریض زمین پر ایک دوسرے کے قریب پڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں
دیگر رپورٹوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ مردہ گھروں اور آخری رسومات انجام دیے جانے والے مراکز پر لاشوں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ ہزاروں لاشیں آخری رسومات کی منتظر ہیں۔ الپرمین کے مطابق "اطلاعات ہیں کہ آخری رسومات انجام دیے جانے والے مراکز چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اور انتہائی پریشان کن حالات ہیں۔”
یہ اعداد و شمار کتنے درست ہیں؟
ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ چین میں اس وقت کتنے افراد کووڈ-19 سے متاثر ہیں یا ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو حال ہی میں اس بیماری سے فوت ہوئے
اولیور ریڈیکے جرمنی کی ایک آزاد سیاسی تنظیم ہینرک بول فاونڈیشن کے نمائندہ خصوصی ہیں۔ ریڈیکے کا کہنا ہے کہ سرکاری اعدادو شمار کی بنیاد پر یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ کووڈ کی موجودہ لہر کتنی شدید ہے
ریڈیکے نے کہا ”ذاتی شواہد کا محتاط تجزیہ کرنے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم وی چیٹ پڑھنے اور رفقاء کاراور دوستوں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ شہر کے ایک تہائی باشندے بیمار ہیں، ایک تہائی بیماروں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اورایک تہائی باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں“
الپرمین نے کہا کہ چینی حکومت نے کم و بیش اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ اس کے اعداد و شمار مصنوعی طور پر کم ہیں کیونکہ اس نے کہا ہے کہ وہ صرف پھیپھڑوں کی ناکامی کی وجہ سے ہونے والی کووڈ اموات کو ہی شمار کرے گی
حالانکہ یہ الپرمین کا ذاتی تجزیہ ہے لیکن اس یہ ظاہر ہے کہ سرکاری اعداد و شمارجزوی طور پر ہی درست ہیں
چین میں اموات اور متاثرین کے حوالے سے درست اعداد و شمار کی کمی کے سبب کووڈ کی موجودہ صورت حال کی حقیقی تصویر پیش کرنا ممکن نہیں ہے
اس وقت کیا صورتحال ہے؟
چین میں رواں ہفتے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر صحت کے نظام پر زیادہ دباؤ کی توقع کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جمعے کو چین کے محکمہ صحت کے حکام کے حوالے سے بتایا کہ وہاں کورونا کے کیسز میں تیزی دیکھی جا سکتی ہے
واضح رہے کہ چین کی ’زیرو کووِڈ پالیسی‘ کے خلاف حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد حکومت نے لاک ڈاؤن اور لازمی ٹیسٹوں میں نرمی کا عندیہ دیا تھا۔
کووڈ سے بچاؤ کے لیے اٹھائے گئے سخت اقدامات کی وجہ سے چین کی عالمی منڈیوں میں سامان کی رسائی اور تجارت کافی متاثر ہوئی تھی۔ اب اگر چینی کارکن زیادہ تعداد میں بیمار ہو گئے تو اگلے برس بھی چین کی معیشت کی حالت دگرگوں رہے گی
خیال رہے کہ جمعرات کو چین میں کووِڈ کی علامات ظاہر ہونے کے چار ہزار سے کم کیس رپورٹ ہوئے، جبکہ مسلسل تیسرے روز اس وبائی مرض سے کوئی موت رپورٹ نہیں ہوئی
چین کے حکام نے امراض کے ماہرین کی تنقید کے بعد کووِڈ سے ہونے والی اموات کے اصول میں تبدیلی لائی تھی۔
اخبار ’دی پیپر‘ کے مطابق چین کے وبائی امراض کے قومی سینٹر کے ڈائریکٹر ژانگ وینہونگ نے کہا ہے ”ایک ہفتے میں کووِڈ انفیکشن کے کیسز اپنی انتہائی سطح پر پہنچ سکتے ہیں۔ انفیکشن میں اضافے کے بعد اس بیماری کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا, جس کا ہمارے صحت کے پورے نظام پر بھی اثر پڑے گا۔ وائرس کی یہ لہر آئندہ ایک یا دو ماہ تک برقرار رہے گی۔ ہمیں اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ انفیکشن تو ہوں گے“
چین میں تازہ ترین کووڈ پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں موجودہ انفیکشن اور اموات کی شرح کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اس ملک میں دیگر ممالک کے مقابلے میں لوگوں کی قوت مدافعت کم ہے
الپرمین کہتے ہیں ”چینی حکومت نے فخریہ طور پر کہا تھا کہ اس نے اپنی صفر کووڈ حکمت عملی کی وجہ سے کووڈ پر فتح حاصل کی۔ سن 2021 میں کچھ عرصے کے لیے ایسا دکھائی بھی دیا لیکن اومیکرون کے ساتھ ہی تصویر یکسر بدل گئی۔“
چین نے وبائی مرض کے شروع ہونے کے بعد سے ہی صفرکووڈ پالیسی پر عمل کیا تھا۔ صفر کووڈ کے تحت حکومت نے بڑے پیمانے پر جانچ کے ضابطوں اور سخت لاک ڈاون کو نافذ کیا اور کووڈ انیس سے متاثرہ افراد کو خصوصی ہسپتالوں میں قرنطینہ میں رکھا
لیکن اب اس نے لاک ڈاون کے اپنے قوانین نرم کر دیے ہیں، بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ دوسری طرف چین میں بوسٹر ویکسین لینے والوں، بالخصوص بڑی عمر کے لوگوں، کی تعداد کم ہے، جن میں اس مرض سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اَسّی برس سے زیادہ عمر کے صرف ایک تہائی اور ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے دو تہائی افراد نے ہی بوسٹرشاٹ لگوائے ہیں
اولیور ریڈیکے کہتے ہیں،”میں اس بات سے پریشان ہوں کہ ایک بار جب موجودہ لہر ملک کے کم ترقی یافتہ حصوں بالخصوص مغربی اندرونی علاقوں تک پہنچ جائے گی تو کیا ہوگا۔”
درست اعدادو شمار خواہ کچھ بھی ہوں چینی محکمہ صحت کے حکام بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ملک سے باہر بھی یہ تشویش کا سبب بنا ہوا ہے
بھارت: کورونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر ڈاکٹروں کا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور
ادھر بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ڈاکٹروں کی تنظیم ’انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن‘ نے شہریوں کو کورونا وائرس سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات پر عمل کرنے کی درخواست کی ہے
حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایڈوائزری میں عوام پر زور دیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوامی مقامات پر ماسک پہننے، سماجی فاصلہ قائم رکھنے، روزانہ کی بنیاد پر سینیٹائزر اور صابن سے ہاتھ دہونے کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے
اس سے قبل وزیر صحت منوش مندویا نے پارلیمان میں کہا کہ حکومت ملک میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز پر نظر رکھے ہوئی ہے۔ تمام ریاستوں کو لیبارٹریز میں ٹیسٹ کے لیے کہا گیا ہے اور آج سے بین الاقوامی پروازوں کے مسافروں کی نمونے لینے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے عوام کو عوامی تقریبات بشمول شادیاں، سیاسی اور سماجی تقریبات سمیت بیرون ملک سفر کرنے سے گریز کرنے کی تجویز دی ہے
انہوں نے عوام سے درخواست کی ہے کہ بخار، کھانسی، گلے کی سوجن کی صورت مین ڈاکٹروں سے مشورہ کرکے کورونا ویکسین لگوائی جائیں
رپورٹ کے مطابق متعدد ممالک میں اچانک سے کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے انتباہ جاری کرتے ہوئے عوام سے درخواست کی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے فوری طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں امریکا، جاپان، شمالی کوریا، فرانس اور برازیل میں 5 لاکھ 37 ہزار کورونا کے کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں سے چار کیسز چین سے ظاہر ہونے والے کورونا کے نئے قسم بی ایف 7 کے ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین میں سات دن رہنے کے بعد واپس آنے والے بھارتی شہریوں کے لیے ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ چین سے تمام بین الاقوامی پروازوں کو فوری طور پر روکنے کے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر مرکزی حکومت کی طرف سے چین سے آنے والی پروازوں کو روکنے کے لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا
حکومتی ذرائع نے بھارتی خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ ’ہمارے اور چین کے درمیان براہ راست کوئی پرواز نہیں ہے مگر موجودہ صورتحال میں چین سے بھارت آنے والی کنیکٹنگ فلائٹس کو روکنے کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا
ذرائع کے مطابق قرنطینہ کے لیے درکار انفرااسٹرکچر کو واپس لانے کی تیاری اگلے سات دنوں میں کی جائے گی۔