کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے ملک میں دوبارہ حملے شروع کرنے کے اعلان کے بعد سے بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں ٹی ٹی پی سمیت دیگر مسلح تنظیمیں بھی متحرک ہیں
اس بات کا اعتراف صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے بھی کیا اور ایک بیان میں کہا کہ ’عسکریت پسند افغانستان سے دوبارہ منظم ہو کر واپس آگئے ہیں۔‘
رواں ہفتے صوبے کے مختلف علاقوں میں ایک ہی روز میں فائرنگ اور بم دھماکوں کے نو مختلف واقعات ہوئے۔ ان تمام واقعات کی ذمہ داری بلوچستان میں متحرک مسلح تنظیم بی ایل اے نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے ایک بیان میں کہا ’تربت، کاہان، گوادر، حب، خضدار، قلات اور کوئٹہ میں حملے کیے گئے۔‘
پاکستان خصوصاً بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافے کے حوالے سے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں ”افغانستان میں خراب حالات کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے، خاص طور پر دو صوبے بلوچستان اور خیبرپختونخوا متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم حالات کا زیادہ اثر بلوچستان پر پڑتا ہے کیونکہ یہاں پر قوم پرست قوتیں جیسے بی آر اے اور بی ایل اے بھی ہیں، جو افغانستان سے کام کرتی ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’بلوچ قوم پرست تنظیموں کی اپنی سوچ اور پروگرام ہے اور افغان طالبان کا اس سوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن بہرصورت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔‘
محمود شاہ کہتے ہیں ’پاکستان پہلے بھی ایک ڈھیل دے چکا ہے۔ اب وہ کچھ مستعدی دکھائے اور جو پالیسی انہوں نے سوچی ہے، جسے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن اور مشتبہ جگہوں پر کارروائیاں، تو اسے مسلسل جاری رکھنا چاہیے، جس سے ان واقعات میں کمی آسکتی ہے۔‘
بلوچستان یونیورسٹی کے استاد اور سکیورٹی معاملات پر نظر رکھنے والے دوست محمد بڑیچ سمجھتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان نظریاتی تعلقات موجود ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
دوست محمد بڑیچ کہتے ہیں ’تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان نظریاتی طور پر تعلقات موجود ہیں۔ پاکستان خوشی نہ منائے کہ افغان طالبان ان (ٹی ٹی پی) کو ختم کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’افغانستان میں امریکہ نے جو اسلحہ چھوڑا ہے اسے طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں استعال کر رہے ہیں اور پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کر رہے ہیں۔‘
دوست محمد بڑیچ کا کہنا ہے ’پاکستان اگر یہ سوچ رہا ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی کا خاتمہ کریں گے تو یہ نظر نہیں آتا کیوں کہ طالبان تو لڑنے والے ہیں ان کے لیے ریسرچ، ترقی اور انسانی حقوق کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ایسے حالات پیدا کرنا ان کے لیے مشکل کام نہیں ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے ’پراکسی وار‘ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ صدی پراکسی وار کی ہے، جس میں کوئی ریاست خود نہیں لڑتی بلکہ وہ بلاواسطہ جنگ میں شریک ہوتی ہے۔‘
دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بلوچستان میں ایک ہی روز میں شدت پسندی کے کئی واقعات کے بعد اتوار کی رات جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ’ہمارے انٹیلیجنس ادارے دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ گئے ہیں۔ ہم اپنے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ مطمئن رہیں۔ عسکریت پسندوں نے پہلے بھی پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اب دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان کی کمر توڑ دیں گے اور بہت جلد اپنے ملک میں دوبارہ امن وامان قائم کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں میں کسی بھی قسم کی غفلت نہ برتیں اور تمام تر توجہ امان وامان پر مرکوز رکھیں جبکہ آئندہ کسی بھی صورت اس طرح کی بدامنی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘