مصنوعی جِلد : شدید جلے ہوئے افراد کے علاج کے لیے امید کی کرن

ویب ڈیسک

زخموں کے علاج کے لیے چپکنے والے پلاسٹرز کی بجائے اب طبی ادارے اور محققین حتمی ڈریسنگ یعنی مصنوعی جلد تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے انہیں امید ہے کہ شدید طور پر جلنے والے مریضوں کے علاج میں ایک انقلاب آجائے گا

تفصیلات کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال سے فرانس کی ایک کمپنی ارگو زخموں کے ایک ایسے علاج پر کام کر رہی ہے، جس سے شدید طور پر جلے ہوئے افراد کو جلد کی اس دردناک اور بار بار کی پیوند کاری سے بچانے میں مدد ملے گی، جو وہ اس وقت برداشت کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ایک سو ملین یورو کا یہ پروجیکٹ، جینیسس (Genesis) 2030ع تک کسی پروڈکٹ کو تیار کر لے گا

ارگو کمپنی کے طبی شعبے کے صدر گویرک لی لوس نے اے ایف پی کو بتایا کہ ابھی تک دنیا میں کوئی بھی مصنوعی جلد کو لیبارٹری میں تیار نہیں کر سکا ہے

تاہم فرانس کے مشرقی شہر ڈیجون کے قریب چنوو میں ارگو کی لیبارٹری میں مصنوعی جلد تیار کرنے کے لیے زندہ خلیوں کو نشوو نما دینے سے قبل ٹھنڈا کیا جا رہا ہے

مصنوعی طور پر تیار کی گئی یہ جلد ان تمام خصوصیات کی حامل ہوگی، جو اصل جلد میں ہوتی ہیں، جس میں بیرونی خطرات سے تحفظ اور درجہِ حرارت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت شامل ہوگی

لی لوس نے اس مخصوص ٹیکنالوجی یا ان خلیوں کی قسم کا انکشاف کیے بغیر (جسے ارگو استعمال کر رہی ہے) کہا ”اسے بنانا نسبتاً آسان بھی ہوگا، کیونکہ مصنوعی جلد سب کے لیے اور صحیح قیمت پر دستیاب ہونی چاہیے“

واضح رہے کہ ارگو جو 1880ع سے ایک خاندانی ملکیت کا کاروبار ہے، طویل عرصے سے دائمی زخموں جیسے ذیابیطس کے پاؤں کے السر اور ٹانگوں کی رگوں کے السر کے لیے ڈریسنگ یعنی پٹیاں بناتا ہے

ارگو کے ریسرچ ڈائریکٹر لارینٹ ایپرٹ اس تبدیلی کو ایک انقلاب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”2000 کی دہائی سے ہم نے ایسے مواد پر کام کیا ہے، جو شفایابی کے مسائل کو حل کریں گے۔ نئی پٹیاں اب زخموں کی مطابقت سے شفایابی کا عمل سر انجام دیتی ہیں، جس سے وہ بہتر طور پر ٹھیک ہو سکتے ہیں۔“

زخموں کو بیرونی آلائشوں یا انفیکشن سے محفوظ رکھنے اور ان کے علاج کے لیے پٹیوں کا دائرہ کار بڑھانے کا کام کرنے والی ارگو واحد کمپنی نہیں ہے ۔ یونیورسٹی آف ساوتھ آسٹریلیا کے محققین نے چاندی کے انتہائی باریک ذرات پر مشتمل ایک نئی قسم کی سمارٹ ڈریسنگ تیار کی ہے، جو یہ جانتی ہے کہ چاندی کے ان نینو پارٹیکلز کو کب خارج کیا جائے، جو اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کو توڑ سکتے ہیں

اس ریسرچ کے سر براہ زلاٹکو کوپیکی نے ایک بیان میں کہا ”ہمارا علاج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ بیکٹیریا کو ختم کرنے سے متعلق چاندی کی خصوصیات یعنی چاندی کی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کا فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن اس کی حد کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور اس پٹی میں موجود چاندی کے ذرات صرف اس وقت فعال یا خارج ہوتے ہیں جب زخموں میں انفیکشن موجود ہو“

یاد رہے کہ ارگو اس سے قبل شدید ، پرانے زخموں کے لیے پٹیاں تیار کر چکی ہے۔ جو بچوں کے لیے ایک زیادہ محفوظ اور موثر علاج ثابت ہوتی ہیں

عالمی ادارہ صحت کی گلوبل برن رجسٹری میں استعمال ہونے والی ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں جلنے سے ہونے والے زخموں میں سے تقریباً نصف کا شکار بچے ہوتے ہیں، جن میں سے بیشتر کی عمر ایک سے پانچ سال ہوتی ہے

زخموں کے علاج کے لیے ایک اور نیا طریقہ زخموں کی پٹیوں کے خیال کو یکسر خارج کر دیتا ہے

اس مقصد کے لیے فرانس کی ایک اسٹارٹ اپ کمپنی ، ’وسٹاکئیر میڈیکل‘ نے ایک ایسی مشین تیار کی ہے، جس کے اندر مریض اپنی متاثرہ ٹانگ کو رکھتا ہے، جو اس کے زخم کو بالکل نہیں چھوتی۔ اور مشین کا چیمبر نمی، درجہِ حرارت اور شفایابی کے لیے اہم دوسرے پہلووں کو کنٹرول کرتا ہے

وسٹا کئیر میڈیکل کئیر کے صدر فرانکوئس ڈوفے کا کہنا ہے ”اب پٹیوں کا زمانہ گزر گیا۔ اب تو آپ ایک مشین میں اپنا زخم رکھیں، جس کا سسٹم جراثیم کش ہوا اور زخم کو ٹھیک کرنے کے لیے درکارتمام چیزیں درست وقت پر فراہم کرے گا اور آپ کے زخم کو کسی بھی قسم کی کوئی پٹی باندھے بغیر مندمل کر دے گا“

وسٹا کئیر میڈیکل مشین اس وقت فرانس کے لگ بھگ بیس اسپتالوں میں استعمال ہو رہی ہے، لیکن کمپنی کا ارادہ ہے کہ وہ اگلے سال امریکہ میں گھر میں استعمال کے لیے تیار کی گئی ایک مشین کی منظوری کے لیے درخواست دے گی

زخموں کے علاج کے سلسلے میں ہونے والی ان تبدیلیوں نے دنیا بھر میں زخموں کی شفایابی کے شعبے میں ہلچل مچا دی ہے، جو ایک عرصے سے میڈیکل ریسرچ کا ایک نظر انداز کیا ہوا شعبہ تھا

پیرس کے کیوری انسٹیٹیوٹ میں زخموں اور شفایابی پر ریسرچ کے شعبے کی سربراہ ازا بیل فرومنٹین کا کہنا ہے کہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں زخموں کی دیکھ بھال کے اعتبار سے یہ دن اور رات کا ایک فرق ہے

فرومنٹین نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایسی پٹیاں تیار کی ہیں، جو کینسر کی کچھ قسموں میں پائے جانے والے زخموں کی بدبو کو کم کرتی ہیں

تاہم وہ کہتی ہیں ”نئی ٹکنالوجیز سے ہر چیز حاصل نہیں کی جا سکتی۔ شفایابی ایک ایسا عمل ہے، جو ہر شخص کی عمر اور صحت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ یقین کرنا کہ صرف ایک ڈریسنگ ہی آپ سب کو خود ہی ٹھیک کر دے گی ایک خام خیالی ہوگی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close