پیر پنجال کے کوہساروں سے نکلنے والا دریائے جہلم جمو ں سے ہوتا ہوا جھنگ میں تریموں کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے اور یہاں سے ملتان کی جانب صرف دریائے چناب ہی بہتا چلا جاتا ہے۔ تریموں کے جنوب میں دریائے جہلم کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ تریموں کے شمال میں بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ساجھووال کے مقام پر دریائے جہلم کے کنارے ایک گھنا قدرتی جنگل ہے، جو تین مربع میل کے وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔اس جنگل میں جو صدیوں پرانے درخت ہیں، اُن میں شیشم، کیکر، برگد، پیپل، بیری، پیلوں، سرس، املتاس، کھجور اور آم شامل ہیں۔ اس جنگل میں بہت سی خودرو جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں دھتورا، اکڑا، کاسنی، حنظل، پیلکاں، پوہلی، کریریں اور لانی شامل ہیں۔
اس جنگل میں ظاہر ہے، جنگل ہی کا قانون نافذ ہے اور جنگلی جانور شیر، ریچھ، چیتا، ہرن، لومڑی، گیدڑ، خرگوش اور باگڑ بلے وغیرہ اسی قانون کو پسند کرتے ہیں۔ جنگل کے روایتی قانون کے تحت ایک ببر شیر نے طاقت کے بل بوتے پر اس جنگل کی بادشاہت پر قبضہ کر ر کھا تھا
یہ جنگل بھی عجیب تھا، جہاں سدا جنگل میں منگل کا ماحول تھا۔ اس جنگل میں مور بھی ناچتے تھے مگر ان کا رقص بہت سے لوگ دیکھتے تھے، موروں اور مورنیوں کا رقص دیکھنے والوں میں ماہی گیر، شکاری، باغبان، کسان، چرواہے، گلہ بان، جوگی، رسہ گیر، اِتائی، شتربان اور لکڑہارے شامل تھے۔ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلی چراگاہ میں چرواہے جنگل کے قانون ’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘ کے تحت ہنسی خوشی اپنے کام میں مصرو ف رہتے تھے
اس جنگل کے ہاتھی اپنے کھانے کے دانتوں اور دکھانے کے دانتوں کے بارے میں سب راز اپنے دِل میں رکھتے تھے۔اونٹوں کو اپنی ٹیڑھی کَل سیدھی کرنے کی فکر لاحق رہتی تھی۔ ہر ساربان کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ دیکھیں اونٹ اب کِس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جب کوئی اونٹ ساربان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھتا تو ساربان اسے خبردار کرتا کہ اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے گا۔
بہت انتظار کے بعد بوڑھے ببر شیر کے غار میں رونق آئی اور نوجوان شیرنی نے ایک ننھے شیر کو جنم دیا۔ بوڑھا شیر بہت خوش تھا کہ اب وہ جنگل کی مطلق العنان حکمرانی اپنے نومولود بچے کے سپرد کر کے آرام کرے گا اور یوں نسل در نسل جنگل میں ان کی بادشاہت کا ڈنکا بجتا رہے گا۔
جب ننھا شیر چلنے کے قابل ہو گیا تو اُس نے اپنے بوڑھے باپ اور نوجوان ماں سے کہا: ’’یہ گھنا جنگل میرے آبا کی نشانی ہے، آج میں اپنی موروثی جاگیر کی سیر کرنا چاہتاہوں۔‘‘
شیرنی نے جب اپنے ننھے شیر بچے کی بات سنی تو وہ بہت خوش ہوئی اور ننھے شیر کا سر چُوم کر کہنے لگی: ’’تم شوق سے جنگل میں پھرو، مگر یہ بات یاد رکھنا کہ اس جنگل میں بہت سے ایسے انسان بھی گُھس آتے ہیں، جو جنگلی جانوروں کے جانی دشمن ہیں۔۔ یوں تو سب انسان جنگل کے جانوروں کو اپنے جال میں پھنسانے کی فکر میں رہتے ہیں، مگر ان میں سے لکڑہارا بہت خطرناک ہے۔۔ تم لکڑہارے کے مکر کی چالوں سے بچ کر رہنا۔ عام طور پر لکڑہارا صرف لکڑیوں ہی کو چِیر پھاڑ کر ایندھن بناتاہے مگر جب اسے موقع ملتا ہے تو یہ جانوروں کو بھی مار ڈالتا ہے۔‘‘
ننھے شیر نے اپنی ماں کی بات سنی تو کہنے لگا: ’’فکر نہ کرو۔۔ میں بہت احتیاط سے کام لوں گا اور پورے اعتماد اور حوصلے سے مشکلات کا سامنا کروں گا۔ میں ایک پرندے ہُد ہُد سے بھی واقف ہوں، جو لکڑی میں سوراخ کرتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر ننھا شیر غار سے نکلا اور دوڑتا ہوا گھنے جنگل میں دُور نکل گیا۔ اچانک اُس نے ایک تنومند آدمی کو دیکھا، جو جنگل میں شیشم کے ایک خشک درخت کے قریب کھڑا تھا۔ اُس کے کندھے پر ایک تھیلا تھا اور وہ پُر اسرار انداز میں ننھے شیر کو دیکھ رہا تھا۔ اس اثنا میں ننھے شیر کو اپنی ماں کی نصیحت یاد آئی، مگر وہ تو لکڑہارے کو پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ کاش اُس نے اپنی ماں سے لکڑہارے کا حلیہ پوچھ لیا ہوتا۔
ننھا شیر ابھی انہی سوچوں میں گُم تھا کہ لکڑہارا ننھے شیر سے مخاطب ہو کر بولا: ’’واہ جی واہ! کیا خوب صورت شیر کا بچہ ہے! میں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔۔ تم اس جنگل کے بادشاہ ببر شیر کے اکلوتے بچے ہو اور اس وقت بہادری، دانش اور چُستی میں تمہارا کوئی ثانی نہیں۔۔ وہ دِن دُور نہیں، جب تم اس جنگل کے بادشاہ بنو گے۔۔ اس وقت تم کس کو تلاش کر رہے؟‘‘
ننھے شیر نے کہا: ’’تم کون ہو؟ میں نے تمہیں نہیں پہچانا۔میری ماں نے کہا تھا کہ جنگل میں لکڑہارے سے بچ کر رہنا، وہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ میں نے آج تک لکڑہارا کبھی نہیں دیکھا۔۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اُس کی شکل کیسی ہوگی؟ اگر میں ایک بار لکڑہارا دیکھ لوں تو میں اُس کی گردن میں اپنے نو کیلے پنجے گاڑ دوں گا اور اُس کا خون پی جاؤں گا۔ میں اس گھنے جنگل میں اپنی بادشاہی میں ظالم لکڑہارے کی دہشت اور خوف ختم کر کے دم لوں گا۔‘‘
لکڑہارے نے جب ننھے شیر کی بات سُنی تو بولا: ’’لکڑہارے کے بارے میں تمہاری ماں کا اندیشہ درست ہے۔۔ مگر تمہاری ماں نے لکڑہارے کی شناخت کے بارے میں شاید تمہیں کچھ نہیں بتایا۔۔ تم بالکل فکر نہ کرو، میں پوری کوشش کروں گا کہ آج تمہیں لکڑہارا دکھا دوں۔ تم خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہو اس کے بعد تمہیں صرف میری ہدایت پر عمل کرنا ہوگا۔“
یہ کہہ کر لکڑہارے نے مختلف اوزاروں سے بھرا ہوا اپنا تھیلا ایک طرف رکھ دیا۔ اس نے اپنا تھیلا کھولا اور اُس میں سے تیشہ اور ستھرا نکالا اور شیشم کے خشک درخت کے قریب زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے شیشم کے درخت کے خشک تنے میں زمین سے ایک فٹ کی بلندی پر آٹھ انچ محیط کا ایک شگاف کیا اور ننھے شیر سے کہا: ’’ادھر آؤ شیشم کے خشک درخت کے تنے میں جو شگاف میں نے کیا ہے، اس میں سر ڈال کر دیکھو، تمہیں لکڑہارا صاف نظر آئے گا۔‘‘
ننھے شیر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔۔ فوراً اپنا سر شیشم کے درخت کے تنے کے شگاف میں ڈال دیا۔ لکڑہارا تو اِسی موقع کی تاک میں تھا، جوں ہی ننھے شیر نے اپنا سر شیشیم کے درخت کے تنے کے شگاف میں ڈالا، اُس نے تیز دھار والے تیشے کے پے در پے وار کر کے ننھے شیر کی گردن پر کاری ضرب لگائی اور اُس کی شہ رگ کاٹ ڈالی۔
اس کے بعد لکڑہارے نے شیر کے تڑپتے ہوئے نیم جان بچے سے کہا:
’’اب دیکھ لیا لکڑہارا۔۔۔ تمہاری ماں سچ کہتی تھی کہ لکڑ ہارے سے بچنا۔“