گل حسن کلمتی کی یاد میں کراچی اور گوادر میں تقریبات

ویب ڈیسک

معروف محقق، تاریخدان اور دانشور گل حسن کلمتی کی یاد میں ان کے چہلم کے موقع پر مختلف شہروں میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور ان کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا

گذشتہ روز آرٹس کونسل کراچی میں شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سندھی کی جانب سے سندھ کے نامور تاریخدان گل حسن کلمتی کی یاد میں ادبی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں گل حسن کلمتی کی شخصیت پر تحریر کردہ کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی

مقررین نے مطالبہ کیا کہ گل حسن کلمتی نے کراچی کی تاریخ مرتب کر کے سندھ کی خدمت کی، ان کی ادبی خدمات پر تحقیق کرنے کے لئے کراچی یونیورسٹی میں چیئر قائم کیا جائے

ادبی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر کے ڈائریکٹر پروفیسر سلیم میمن، نامور آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کلیم لاشاری، ادبی، سیاسی و سماجی شخصیت مہتاب اکبر راشدی، آرٹس کونسل کے ایوب شیخ، ملیر کے سماجی رہنما سید خدا ڈنو شاہ، الٰہی بخش بکک، ارتقا انسٹیٹیوٹ کے کلیم درانی، پروفیسر ڈاکٹر رخمان گل پالاری، نصیر اعجاز، ذوالفقار ہالیپوتہ، حفیظ بلوچ، امر گل اور گل حسن کلمتی کی صاحبزادی ماہین بلوچ و دیگر نے کہا کہ گل حسن کلمتی سندھ کی جدید تاریخ کے نامور تاریخدان تھے، انہوں نے سندھ و بلوچستان کے آثار قدیمہ کی سائنسی انداز میں مستند تاریخ مرتب کی

مقررین نے کہا کہ گل حسن کلمتی نے کراچی کی تاریخ تحریر کر کے سندھ کی لازوال خدمت کی۔ ان کی ادبی و تاریخی خدمات پر تحقیق کرنے کے لئے جامعہ کراچی میں تحقیقی چیئر قائم کیا جائے

تقریب میں نظامت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر شیر مہرانی نے ادا کیے

گل حسن کلمتی 5 جولائی 1957ء کو حاجی عرضی بلوچ گاؤں گڈاپ، ضلع ملیر ، کراچی میں پیدا ہوئے۔
کلمتی نے 1978 میں ایس ایم آرٹس کالج کراچی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء میں جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ یہیں سے سندھی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی

کراچی کے ماضی کو دستاویزی شکل دینے والے سندھ کے مشہور مورخ گل حسن کلمتی گزشتہ چند ماہ سے انتہائی علیل تھے، وہ ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے علاوہ گھر تک محدود ہوگئے تھے

مورخ اور محقق عارضہ جگر میں مبتلا تھے، وہ 17 مئی 2023 کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جا ملے

دوسری جانب معروف تاریخ دان و لکھاری گل حسن کلمتی اور بلوچی رسالا ماہتاک بلوچی کے مدیر عبدالواحد بندیگ کی علمی و ادبی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آر سی ڈی کونسل گوادر کے زیراہتمام ان کی یاد میں تقریب منعقد ہوئی

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بلوچی زبان کے نوجوان قلم کار اسحاق رحیم اور بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کے سابقہ صدر انجینئر داؤد کلمتی نے کہا کہ گل حسن کلمتی بلا شبہ ایک نابغہ روزگار لکھاری تھے، جنہوں نے اپنے تحقیقی اسلوب اور تحاریر سے نام کمایا۔ گو کہ ان کا فنِ تحقیق سندھی زبان پر استوار تھا لیکن انھوں نے کراچی میں بلوچوں کے تاریخی کردار کو بھی اجاگر کیا۔ گل حسن کلمتی کئی کتابوں کے مصنف تھے اور انہوں نے جو کام کیا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی

مقررین نے کہا کہ گل حسن کلمتی نہ صرف ایک محقق، تاریخ دان اور قلم کار تھے بلکہ وہ کراچی میں مظلوم بلوچ اور سندھیوں کے بنیادی حقوق کے لیے متحرک کردار ادا کرتے رہے، ملیر کراچی میں بلوچوں کی زمینوں پر مافیا کی قبضہ گیری کے خلاف جو تحریک شروع کی گئی، اس میں گل حسن کلمتی نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ صفِ اول کا کردار ادا کیا تھا۔ گل حسن کلمتی کی دانش ورانہ صفت کسی بھی تعصب اور امتیاز سے بالاتر تھی۔ اسی خاصیت نے گل حسن کلمتی کو ایک اعلیٰ پائے کے دانش ور، محقق اور لکھاری ہونے کا شرف بخشا

زاہد فاروق نے کہا کہ کلمتی نے اپنی زندگی میں دو کردارادا کیے، ایک طالب علموں کے لیے اور دوسرا سماجی کارکنوں کے لیے۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب ملیر، گڈاپ کی سرسبز و شاداب زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کس طرح ایک ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کا مقابلہ کیا۔ جب بلوچستان میں نانی ہنگلاج ماتا کا میلہ شروع ہوتا ہے اور وہ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ وہ راستہ تھا جو مائی سسی نے بھمبور سے شروع کیا تھا

گُل حسن کلمتی نے سال 2014 اور 2015 کے دوران سندھ ابیھاس اکیڈمی کے پراجیکٹ کے تحت اپنے پیارے پنوں کی تلاش میں سندھ بھمبورسے تربت کیچ کا سفر کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سسی نے شاید اس راستے میں موجودہ بحریہ ٹاؤن کو عبور کیا تھا۔ یہ کتاب جامعہ کراچی کے شاہ عبداللطیف چیئر نے شائع کی ہے۔

گُل حسن کلمتی نے بدھ مت کی باقیات اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے تکیہ (آرام گاہ) کے مقام کی نشاندہی کی۔ ان کے مطابق بدھ مت کی باقیات اور شاہ صاحب کا تکیہ دونوں اب بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات میں مدفون ہیں۔ گل حسن کلمتی کے تخلیقی اور تحقیقی کاموں کو کوئی فراموش نہیں کر سکے گا

نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین، بلوچی زبان کے ادیب عیسیٰ گل، آر سی ڈی کونسل گوادر کے صدر ناصر رحیم سہرابی اور بشیر احمد نے عبدالواحد بندیگ اور گل حسن کلمتی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بندیگ بلوچی زبان اور ادب کے شیدائی تھے، ماہتاک بلوچی کوئٹہ کی اشاعت کو آگے بڑھانے اور اسے مسلسل قائم رکھنے کے لیے بندیگ نے ان تھک کوشش کی جس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے

بندیگ نے ماہتاک بلوچی کو نہ صرف بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلایا بلکہ خلیج میں مقیم بلوچوں میں زبان اور ادب کی طرف مائل کرنے اور ترغیب دینے کے لیے مایتاک بلوچی کو وہاں تک پہنچایا۔ بندیگ ہوں یا گل حسن کلمتی دونوں نے بلوچ تاریخ اور ادب کو پروان چڑھانے میں اپنا لازوال کردار ادا کیا۔ ماہتاک بلوچی کی بدولت بلوچی ادب اور نثر تخلیق کرنے والوں کو حوصلہ ملا اور بلوچستان بھر میں موجود شعرا اور ادبا کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انھیں ماہتاک بلوچی کے توسط سے ایک مؤثر فلیٹ فارم میسر آیا

بندیگ اور گل حسن کلمتی کا ادب کے فروغ اور تاریخ کے تحفظ کے لیے کردار کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، جس کے لیے دونوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

تقریب میں نظامت کے فرائض بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کے بجار بلوچ نے ادا کیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close