گذشتہ تیس سالوں کے دوران نیپال میں ہونے والے مہلک ترین ہوائی جہاز حادثے کے چند گھنٹوں بعد سے بھارت بھر میں ایک وڈیو وائرل ہے، ھس میں متاثرین میں سے ایک سونو جیسوال کو حادثے سے چند سیکنڈ قبل طیارے سے لائیو اسٹریمنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
وہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے غازی پور سے تعلق رکھنے والے چار دوستوں کے گروپ کا حصہ تھے، جو نیپال کی سیر کرنے گئے تھے اور دارالحکومت کھٹمنڈو سے پوکھرا کی پرواز میں سوار تھے
فوٹیج میں لینڈنگ سے قبل تباہ شدہ طیارے سے پوکھرا ہوائی اڈے کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ طیارے میں سوار افراد کو معلوم نہیں کہ وہ موت سے محض چند لمحے کے فاصلے پر ہیں۔ حادثے کا شکار طیارے میں سوار 72 افراد میں سے کسی کے بھی زندہ بچنے کی امید نہیں
وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارہ بھورے سبز کھیتوں پر محیط عمارتوں کے جھرمٹ سے آرام سے گزر رہا ہے اور پھر اس وڈیو کو بنانے والا شخص کیمرہ اپنی جانب گھماتا ہے اور مسکراتا ہے۔ اس کے بعد وہ طیارے میں سوار دیگر مسافروں کو دکھانے کے لیے کیمرے کا رخ دوسری طرف گھماتا ہے
لیکن اگلے ہی لمحے کانوں کو بہرا کر دینے والی ایک ٹکر ہوتی ہے۔ سیکنڈوں میں بلند شعلے اور دھویں سے کیمرے کی اسکرین بھر جاتی ہے کیونکہ کیمرہ میں ریکارڈنگ جاری تھی۔ اس کے بعد انجن سے تیز کٹیلی چیخ جیسی آوازیں سنائی دیتی ہیں، اور پھر شیشوں کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی وڈیو ختم ہو جاتی ہے
سونو جیسوال کے دوستوں اور اہلِ خانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اس کے فیسبک اکاؤنٹ پر وہ وڈیو دیکھی ہے اور اس کی تصدیق کی ہے
سونو جیسوال کے دوست مکیش کشیپ نے نامہ نگاروں کو بتایا ”سونو اس وقت (لائیو اسٹریم) کر رہے تھے جب طیارہ سیتی دریا کے قریب ایک گھاٹی میں گر کر تباہ ہو گیا“
مقامی صحافی ششی کانت تیواری نے بتایا کہ کشیپ نے انہیں جیسوال کے فیسبک پروفائل پر وہ ویڈیو دکھائی ہے، اور ان کا پروفائل پرائیویٹ پر سیٹ ہے
یہ واضح نہیں ہے کہ جیسوال نے طیارے سے اسٹریمنگ کے لیے انٹرنیٹ تک کیسے رسائی حاصل کی
نیپال کے سابق قانون ساز ابھیشیک پرتاپ شاہ نے بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں شامل لوگوں نے وہ فون برآمد کر لیا ہے، جس پر طیارے کے ملبے سے وڈیو ملی تھی
مسٹر شاہ نے این ڈی ٹی وی کو بتایا ”یہ کلپ میرے ایک دوست نے بھیجا تھا، جس نے اسے ایک پولیس افسر سے حاصل کیا تھا۔ یہ ایک حقیقی ریکارڈنگ ہے“
نیپال میں حکام نے ان کے دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہی اس فوٹیج پر کوئی تبصرہ کیا ہے، جو حادثے کے تفتیش کاروں کو ان کے کام میں مدد دے سکتا ہے
لیکن طیارے میں سوار چاروں دوستوں جیسوال، ابھیشیک کشواہا، انیل راج بھر اور وشال شرما کے اہل خانہ اور دوستوں کے لیے یہ وڈیو کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ’اتنے ٹوٹے ہوئے ہیں‘ کہ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں
ابھیشیک کشواہا کے بھائی چندر بھان موریہ نے کہا ’درد کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔‘
’حکومت کو ہماری ہر ممکنہ مدد کرنی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کی لاشیں ہمارے حوالے کی جائیں۔‘
ان چاروں کے گاؤں کے کئی لوگوں نے انہیں ’موج مستی کرنے والی مہربان روح‘ کے طور پر یاد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سانحے سے ٹوٹ کر رہ گئے ہیں اور اس نے ان کی نسبتاً پرسکون زندگیوں کو بہت حد تک متاثر کیا ہے
ان میں سے بعض لوگوں نے بھی احتجاجی مظاہرے میں شرکت بھی کی، اور متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضہ کا مطالبہ کیا
ان چاروں افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی عمریں بیس یا تیس کی دہائی کے اوائل میں تھیں، وہ کئی سالوں سے دوست تھے، اور اکثر ایک ساتھ وقت گزارتے تھے
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ 13 جنوری کو کھٹمنڈو کے مضافات میں واقع ایک معروف پشوپتی ناتھ مندر دیکھنے کے لیے نیپال گئے تھے جو ہندو دیوتا شیو کے لیے وقف ہے۔ اس سفر کے لیے مبینہ طور پر جیسوال نے منصوبہ بنایا تھا۔ وہ تین بچوں کے والد ہیں لیکن ایک اور بیٹے کی منت مانگنے کے لیے وہ مندر کے درشن کو گئے تھے
مندر کا دورہ کرنے کے بعد یہ چاروں دوست اتوار کو پوکھرا کے لیے روانہ ہوئے۔ پوکھرا ایک دلکش سیاحتی شہر ہے اور یہ پیراگلائیڈ کے لیے معروف اناپورنا پہاڑی سلسلے کے قریب واقع ہے۔ ان کا وہاں سے کھٹمنڈو واپس جانے کا منصوبہ تھا
جیسوال کے ایک نامعلوم رشتہ دار نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا: ’لیکن قسمت نے ان کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔‘
یہ چار افراد طیارے میں سوار پانچ انڈینز میں شامل تھے۔ حکام نے بتایا کہ تریپن مسافر نیپال کے باشندے تھے، ان کے ساتھ چار روسی اور دو کوریائی باشندے بھی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ جہاز میں سوار دیگر افراد میں برطانیہ، آسٹریلیا، ارجنٹائن اور فرانس کے ایک ایک مسافر شامل تھے
سوموار کے روز، بھارتی سوشل میڈیا حادثے کی جگہ کی تصاویر اور جیسوال کی بنائی گئی وڈیو سے بھرا پڑا تھا
جیسوال کے والد راجندر پرساد جیسوال نے کہا کہ وہ خود اس کلپ کو دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ ’میں نے صرف سونو کے دوستوں سے اس کے بارے میں سنا ہے۔ ہماری زندگی تباہ ہو گئی ہے۔‘
سوگواروں میں شامل لوگ بے اعتمادی میں متاثرین کے پڑوس میں ارد گرد کھڑے تھے جبکہ انیل راج بھر کے والد ان سے دور ہی رہے
ان کا بیٹا 13 جنوری کو اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر نیپال چلا گیا تھا۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ جب ان کے والد اپنے کھیتوں میں مصروف تھے، انیل نے خاموشی سے اپنا بیگ تیار کیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ چلا گیا
ان کے والد کو ابھی تک اس خبر پر یقین نہیں آ رہا ہے۔