مشتاق احمد یوسفی اور ضیا محی الدین ہنستے ہیں!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پندرہویں اردو کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں ضیا محی الدین لہک لہک کر پڑھ رہے ہیں:
”بعض خواتین جس انداز سے چہل قدمی کرتی ہیں اسے چہل قدمی کہنا مناسب ہوگا۔ مرزا عبدالودود کہتے ہیں کہ چال کی خوبی سے ہی چال چلن کی خرابی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے (قہقہے اور تالیاں) اس قیامت کا نظارہ کسی کو سامنے سے دیکھ کر نہیں ہوتا، پیچھے سے ہی دیکھ کر کھلتا ہے (قہقہے) چال کی چاپ اور چھب چھاب کیسی ہے، ایک خوبی ہو تو بیان کریں؟ (قہقہے)

لٹک مٹک (قہقہے)
ٹھمک جھپک (قہقہے)

پنڈولم کی مانند دائیں سے بائیں (قہقہے) اس طریقے سے رگل کرنا، اور دائیں بائیں لہرا کر چلنا، خرام ناز کے قیامت ڈھانے کے ان گنت انداز ہیں۔ یعنی لہکتی، لچکتی، لہراتی، لجاتی گج گامنی، پیچھے مڑ کر دیکھنا کہ اب بھی کوئی گھور رہا ہے یا سب ہی مر گئے؟ (قہقہے)

پیچھے مڑ کر دیکھنا ضروری نہیں کہ جوان اور خوبصورت عورت کی گدی میں انتہائی حساس اور نظر شناس نسائی ریڈار ہوتا ہے، اسے صاف نظر آتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظر سے دیکھتا چلا آ رہا ہے

نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے،
آگا بھی کھل رہا ہے، پیچھا بھی کھل رہا ہے (قہقہے)
یاں یوں بھی واہ واہ ہے، اور ووں بھی واہ واہ ہے (قہقہے)

واہ واہ تو ہم ووں ووں کے استعمال پہ کریں گے (قہقہے)

کیا لکھنے والے، پڑھنے والے یا سب ہنسنے والوں نے سوچا کہ یہ الفاظ کسی بھی عورت کے لیے کس قدر تحقیر آمیز ہیں؟

مزید رنج اس بات پہ ہوا کہ مجمعے میں موجود خواتین بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے میں مشغول تھیں۔ کسی نے نہیں سوچا کہ اس ووں ووں پہ واہ واہ کی بجائے احتجاج کیا جائے

آج کے دور کو مزاح کا عہد یوسفی کہا جاتا ہے اور یوسفی صاحب کی یوں پہ واہ واہ اور ووں پہ واہ واہ کرنے والوں کی کمی نہیں۔ لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ایسی تحریر کو پڑھ کر آپ کیسے مسکرا سکتے ہیں؟

”نیبھا بہت ہی حسین ہے، ذرا plump side پر ہے۔ boxum beauty اسی کو کہتے ہیں۔ غضب کی ڈانسر ہے۔ ٹھمکا ہو یا ٹھیکا، چکر کی دوران چال کا بہاؤ یا نرت بھاؤ، مجال ہے کہ نرتکی کے سینے کی تھرکن نظر آئے۔ نیبھا کا سینہ نہیں ہلتا، گدر شفتالو جیسے گال ہلتے ہیں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے جی؟ میں نے پھر جل کر کہا، گال کیوں ہلتے ہیں؟
اس لیے ہلتے ہیں کہ گالوں کو انگیا کرتی نہیں پہنائی جا سکتی، اس نے سمجھایا بھی اور سجھایا بھی“
(شام شعر یاراں)

کیا اسے آپ مزاح کہیں گے؟
عورت کی چھاتی اور کولہوں پہ پھبتی کس کر ہنسانا۔۔ یہ مزاح کا کون سا درجہ ہے بھائی؟

جب دانشوروں اور ادیبوں کے الفاظ عورت کے جسم کی چٹکیاں بھرنے لگیں، جب مجمع ان پھبتیوں پہ قہقہے لگائے، جب نقاد ان الفاظ کو مزاح کی اعلٰی مثال سمجھ کر قبول کریں تو سوچیے کہ سڑک پر چلنے والا ایک عام شخص پاس سے گزرتی عورت کے کولہے پہ ہاتھ کیوں نہ پھیرے؟ بس سے اترنے چڑھنے والی عورت کو چٹکی کیوں نہ کاٹے؟ موٹر وے پہ اکیلی عورت کو دیکھ کر ریپ کی خواہش کیوں نہ ابھرے؟

عورت کا جسم ہی تو ہے، الفاظ کے ذریعے رگید لیں یا اصل میں؟ کیا فرق پڑتا ہے!

معاشرے میں عورت کو، اس کی ذات کو ارزاں کر دیا گیا ہے اور اس کی باڈی شیمنگ کو اس حد تک درست مان لیا گیا ہے کہ اب بیچاری عورت خود ہنستی ہے۔ اپنے کولہوں پہ مذاق سن کر، اپنی چھاتی کا ذکر سن کر دوپٹے میں منہ چھپاتی ہوئی خود ہی ہنس پڑتی ہے کہ ہاں ٹھیک تو ہے، اسی قابل ہیں میرے کولہے اور چھاتی، اڑا لو مذاق، ہنسو خوب ہنسو۔۔

سوال یہ ہے، جس عورت کو باعث عزت سمجھا جاتا ہے، وہ کون سی عورت ہے اور جس عورت کے جسم کے پرزے اڑائے جاتے ہیں وہ کون ہے؟

ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اپنے قہقہوں سے طوفان بپا کرتے مردوں نے کبھی سوچا کہ چھاتی اور کولہے رکھنے والی عورت تو جانی پہچانی ہے۔ گھر میں موجود عورتوں/ لڑکیوں/ رشتے میں کچھ بھی، کے کولہے بھی پنڈولم کی طرح دائیں بائیں گھومتے ہیں اور نیبھا کی طرح سینہ نہیں گدر شفتالو ہلتے ہیں۔ کیا انہیں دیکھ کر بھی ہنسی آئی آپ کو؟ یا کبھی کہنے کا خیال آیا کہ چال کی خوبی سے ہی۔۔

اگلا سوال یہ ہے کہ مرد کی آنکھ میں آخر یہ کون سا ریڈار نصب ہے، جو عورت کو انسان کی طرح دیکھنے سمجھنے کی بجائے کولہوں اور سینے کا ناپ تول کرتا ہے؟ جیسے بیوپاری بکرا منڈی میں کھڑا جانوروں کا مول تول کرنے سے پہلے سب کچھ ٹٹول کر دیکھے کہ مال کی ہڈی پسلی تو پوری ہے نا!

بات پھر وہیں پہ آ ٹھہری کہ عورت ملکیت ہے، سو اس کی گت بنانے پہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ خود عورت کو بھی نہیں۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے، سب کہتے ہیں، سب کرتے ہیں، مذاق ہی تو ہے۔ سلمان گیلانی بھی یہی سب لکھتے ہیں اسی لیے ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے، سارے ایہو کجھ ای لکھدے نیں، میں کلا تے نہیں

معاشرے اور ادب میں عورت کو جس پستی میں دھکیلا گیا ہے اس میں کم وبیش سب مزاح نگاروں اور ادیبوں کا حصہ ہے چاہے وہ یوسفی ہوں یا کوئی اور۔ آگا بھی کھل رہا ہے، پیچھا بھی کھل رہا ہے

کیا کہیں؟ کیا انتہائی افسوس کے ساتھ نہ کہیں؟
ہم ادب کے عہد یوسفی میں نہیں بلکہ عہد مسوجنی میں زندہ ہیں۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close