’چیٹ جی پی ٹی‘ کے پاکستانی تعلیمی نظام اور طلباء پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ویب ڈیسک

نومبر 2022ء میں اپنی لانچ سے ہی خبروں کا مرکز رہنے والے چیٹ بوٹ ‘چیٹ جی پی ٹی‘ کا استعمال اب پاکستان میں بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے زیادہ تر صارفین کالج اور یونیورسٹی طلبا و طالبات ہیں

گزشتہ برس نومبر کے اواخر میں مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ نے ایک نیا چیٹ بوٹ لانچ کیا تھا، جو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے صارفین سے گھنٹوں بات کر کے ان کے سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی لانچ کے پہلے ہفتے میں ہی اسے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے استعمال کیا اور اب تک یہ کئی نئے ریکارڈ بنا چکا ہے

دنیا بھر میں اس چیٹ بوٹ کے زیادہ تر صارفین اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات ہیں، جنہیں یہ بوٹ ہوم ورک اور اسائنمنٹ بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس سے پہلے طلباء گھنٹوں گوگل کر کے اپنا متعلقہ مواد تلاش کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے نیویارک سمیت کئی شہروں کے تعلیمی اداروں میں چیٹ جی پی ٹی کو بین کر دیا گیا ہے

پاکستان میں بھی یونیورسٹی اور کالجوں کے طلباء اس چیٹ بوٹ کو بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے زبوں حالی کا شکار پاکستانی تعلیمی نظام پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

شاہ زیب صدیقی معروف یو ٹیوبر ہیں اور سائنسی موضوعات لکھتے ہیں، جو ایک طویل عرصے سے پاکستان میں سائنس اور فلکیات سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں

ان کا کہنا ہے ”میں گزشتہ ایک ماہ سے یہ چیٹ بوٹ استعمال کر رہا ہوں۔ اس دوران جہاں ایک جانب مصنوعی ذہانت نے مجھے کافی متاثر کیا وہیں میں نے نوٹ کیا کہ اس سے ملنے والی معلومات کو حتمی نہیں مانا جا سکتا“

چیٹ جی پی ٹی میں 2021ء سے پہلے کا ڈیٹا اپلوڈ کیا گیا ہے، یعنی بہت سی جدید معلومات اس میں مکمل طور پر موجود نہیں ہیں۔ شاہ زیب کے مطابق دورانِ چیٹ انہوں نے بوٹ کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کی اور حیران کن طور پر وہ اس میں کامیاب رہے۔ ان سے کچھ دیر بحث کرنے کے بعد بوٹ نے تسلیم کیا کہ پانچ اور پانچ گیارہ کے برابر ہوتے ہیں

حالانکہ اس سے کائنات کی وسعت کے متعلق بات کرتے ہوئے شعوری طور پر جب انہوں نے کائنات کی وسعت 150 ارب نوری سال بتائی تو بوٹ نے فوراً ان کی اصلاح کی کہ قابلِ مشاہدہ کائنات کی وسعت 93 ارب نوری سال ہے

ان تجربات سے شاہ زیب صدیقی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی سے ملنے والے ڈیٹا کو لازمی کراس چیک کیا جانا چاہیے. ”اگر طلباء اس پر اندھا اعتماد کر کے یونیورسٹی کے امتحانات یا اسائنمنٹ کی تیاری کریں گے، تو وہ کم نمبرز آنے پر اساتذہ سے شکوہ نہیں کر سکتے‘‘

کرسچین فارمین کالج لاہور میں لائف سائنسز ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احتشام کہتے ہیں ”حیاتیاتی سائنس میں زیر تعلیم طلباء کا رجحان چیٹ جی پی ٹی کی طرف اتنا زیادہ نہیں ہے، جبکہ ریاضی، طبیعیات، شماریات وغیرہ کے طلباء اس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اس سے کیلکولیشن یا مساواتیں وغیرہ حل کرنے میں فوری مدد ملتی ہے‘‘

کراچی یونیورسٹی میں اسپیس سائنسز کے طالبعلم
فوز صدیقی بتاتے ہیں ”مجھے چیٹ جی پی ٹی نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے، یہ ہمہ وقت ساتھ رہنے والے ایک دوست کی طرح ہے، جو کسی بھی طرح کا سوال یا مسئلہ حل کرنے میں میری مدد کرتا ہے‘‘

فوز کہتے ہیں ”اس سے پہلے مجھت گھنٹوں گوگل پر اپنا متعلقہ مواد تلاش کرنا پڑتا تھا مگر وہی کام چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے بغیر دقت ہو جاتا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ ریاضی اور طبیعیات کے کیلولیشن میں با آسانی غلطی کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ جبکہ پہلے درست جواب نہ آنے پر گھنٹوں ایرر ڈھنڈنے میں لگ جایا کرتے تھے‘‘

ڈاکٹر احتشام کہتے ہیں ”مصنوعی ذہانت کا استعمال زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ رہا ہے۔ ایگری کلچر میں بہتر فصلوں کی کاشت سے، زلزلے اور سونامی کی پیشن گوئی اور جینیات میں روز افزوں پیش رفت کے لیے جدید اے آئی ماڈلز استعمال کیے جا رہے ہیں، بالکل اسی طرح چیٹ جی پی ٹی تعلیمی اداروں میں جاری تحقیق میں بھی اساتذہ اور طلباء دونوں کے لیے معاون ہو سکتی ہے‘‘

ڈاکٹر احتشام کے مطابق تحقیق کے دوران کسی مسئلے کے حل کے لیے محققین مختلف ماڈیولز اور سافٹ ویئرز استعمال کرتے ہیں۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے متعلقہ کوڈ باآسانی جنریٹ کیا جا سکے گا، جس میں اپنی ضروریات کے مطابق رد وبدل بھی ممکن ہوگا۔ اس طرح کم وقت میں زیادہ موثر اور مصدقہ نتائج حاصل کیے جا سکیں گے۔

چیٹ جی پی ٹی کے تعلیمی نظام پر منفی اثرات کے بارے میں ڈاکٹر احتشام کہتے ہیں ”جیسا کہ ہمارے سامنے ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے صارفین میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو لا محالہ اس کا منفی استعمال بھی سامنے آئے گا‘‘

انہوں نے بتایا ”نیویارک کے تعلیمی اداروں میں اس بوٹ کا استعمال پہلے ہی بین کر دیا گیا ہے کیونکہ طلباء خود محنت کرنے کے بجائے اس کی مدد سے ہوم ورک اور اسائنمنٹ تیار کر رہے تھے“

ڈاکٹر احتشام کے مطابق ”کورونا وائرس وبا کے بعد سے پاکستانی طلباء کا ایسے آن لائن پلیٹ فارمز کی طرف رجحان بڑھ گیا ہے، جہاں سے انہیں تیار شدہ مواد با آسانی مل جاتا ہے، چیٹ جی پی ٹی اس میں ایک نیا اضافہ ہے اور لا محالہ اس کا منفی استعمال پاکستانی تعلیمی نظام کے ساتھ طلباء کی علمی و تحقیقی قابلیت کو مزید زنگ آلود کرنے کا سبب بنے گا‘‘

چیٹ جی پی ٹی کے منفی استعمال کے تدارک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر احتشام نے کہا ”آن لائن پلیٹ فارم سے ہونے والی نقل کو پکڑنے کے لیے اساتذہ ’ٹرینیٹن اسٹوڈیو‘ نامی سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پہلے سے فیڈ شدہ معلومات کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے پروسیس کر کے طلباء جو مواد تیار کریں گے تو اسے پکڑنا یقینا ایک بڑا چیلنچ ہوگا۔“ ان کے خیال میں اس کا ایک حل یہ ہے کہ اساتذہ مخصوص وقت میں طلباء کو ایسے پراجیکٹس دیں، جو وہ ان کے سامنے مکمل کریں اس طرح طلباء کی قابلیت اور نقل دونوں کی قلعی کھل جائے گی

ڈاکٹر احتشام کہتے ہیں ”سب سے ضروری امر یہ ہے کہ طلباء میں احساسِ ذمہ داری پیدا کیا جائے، آج کل نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ صرف ہائی جی پی اے لینا چاہتا ہے، جس کے لیے وہ کوئی غلط طریقہ استعمال کرنے سے نہیں کتراتے۔ اس رجحان کی نفی اشد ضروری ہے‘‘

کیونکہ بقول ڈاکٹر احتشام کے، ”تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں ہے بلکہ یہ شعور و آگاہی بڑھانے کے ساتھ طلباء کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل اپنی سمجھ بوجھ اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق تلاش کر سکیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close