اشوک شرما نے اپنی زندگی بھارت کے ایک ’محبّ وطن شخص‘ کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے وقف کردی ہے۔وہ اسی ’ہیرو‘ کو اظہارِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بنائے گئے مندر کی خدمت میں اپنے روز و شب گزارتے ہیں
لیکن آپ یہ جان کر ضرور حیران ہونگے کہ ان کا یہ ’ہیرو‘ برصغیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والا کوئی رہنما نہیں، بلکہ آج سے پچھتر برس قبل 30 جنوری 1948ع کو مہاتما گاندھی کے نام سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو قتل کرنے والا ناتھو رام گوڈسے ہے
مہاتما گاندھی، جنہیں دنیا ان کے اہنسا یا ’عدم تشدد‘ کا پرچار کرنے والے رہنما کے طور پر جانتی ہے، بھارت میں وہ باپو اور آزادی کی جنگ لڑنے والے مدبر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے اپنے ہی ملک میں دائیں بازو کے انتہا پسند ہندو قوم پرستوں کا ایک طبقہ ان کے قاتل کو ہیرو مانتا ہے
بھارت میں انتہا پسند قوم پرست ہندوؤں میں ناتھو رام گوڈسے کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے گاندھی کے سیکیولر اور عدم تشدد کے فلسفے کے جواب میں ہندو قوم پرستی کی علامت کے طور پر ہیرو بنا کر پیش کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا
کئی سیاسی تجزیہ کار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بڑھتی ہوئی سیاسی گرفت اور مقبولیت کو اس رجحان کا بنیادی محرک قرار دیتے ہیں
اس حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی جے پی ہندو قوم پرستی کے نظریات کے تحت بھارت کی متبادل تاریخ رقم کر رہی ہے، جس میں اشوک شرما جیسے ناتھو رام گوڈسے کے پرستار اب ’اکیلے شرپسند‘ نہیں رہے، بلکہ ان کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جارہا ہے
بھارت میں ہواؤں کے رخ کا اندازہ اشوک شرما کی اس بات سے ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں ”جب میں نے ناتھو رام گوڈسے کا مندر بنایا تھا تو مجھے اپنے پرائے سبھی کے طعنوں اور ملامت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اب مجھے ناتھو رام گوڈسے کے سچے بھگت کے طور پر عزت دی جاتی ہے۔۔ ملک میں تبدیلی کی ہوا چلنے سے لوگوں کو سمجھ آگیا ہے کہ گوڈسے اصل محبِ وطن اور گاندھی غدار تھے“
اشوک شرما نے نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 2015ع میں ناتھو رام گوڈسے کے مندر کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سے پہلے ماضی میں حکومتوں نے ان کا مندر بنانے کی کوششیں ناکام بنا دی تھیں۔ انہیں یہ مندر بنانے کی وجہ سے جیل بھی جانا پڑا اور ان کی جائیداد بھی ضبط ہوئی
سن 2019ع میں اس مندر کے افتتاح کے وقت بھارت میں ایک بڑا تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ اس وقت مہاتما گاندھی کی برسی کے موقعے پر اس مندر کے افتتاح کے لیے ان کی مورتی پر گولی چلا کر علامتی طور پر انہیں ’قتل‘ کیا گیا تھا
میرٹھ میں قائم اس چھوٹے سے مندر میں ناتھو رام گوڈسے کے علاوہ ان کے ساتھی نارائن آپٹے کی مورتی بھی رکھی گئی ہے۔ یہاں روزانہ درجنوں لوگ آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو صرف تجسس یہاں کھینچ لاتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اظہارِ عقیدت کے لیے آتے ہیں
اشوک شرما اور ان کے ساتھی اس مندر میں گوڈسے کی مورتی کے سامنے روز پوجا کرتے ہیں۔ پوجا میں ایسے نعرے اور تقریریں بھی شامل ہوتی ہیں، جن میں گاندھی کو بھارت کی آزادی کے ہیرو کے بجائے انہیں قوم سے غداری کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے
ان انتہا پسند ہندوؤں کا ماننا ہے کہ گاندھی برطانیہ کو ہندوستان کی تقسیم سے روکنے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے قدیم ہندو مذہبی کتابوں کے مطابق اکھنڈ بھارت بحال نہیں ہو سکا
تقریباً ایک صدی پرانی قوم پرست ہندو تنظیم ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے ابھشیک اگروال کا کہنا ہے کہ گاندھی اور ان کی سیاسی فکر کی وجہ سے ہندوؤں کو مسلمانوں اور غیر ملکیوں کے سامنے جھکنا پڑا
واضح رہے کہ ناتھو رام گوڈسے نے اپنے خلاف گاندھی کے قتل کے مقدمے میں جو تفصیلی بیان دیا تھا، اس میں انہوں نے بھی اپنے اقدام کے یہی اسباب بتائے تھے
ابھیشیک اگروال کے نزدیک آزادی کے بعد سیکیولر سیاستدانوں نے باقاعدہ سازش کے تحت ’ہندو عقائد کو دبانے‘ اور ملک پر جمہوریت تھوپنے کے لیے گوڈسے کے خلاف نفرت کو ہوا دی۔ اگروال کے بقول: ”بھارت کی تاریخی روایات کے اعتبار سے جمہوریت اس خطے کے لیے ایک اجنبی تصور ہے“
وہ کہتے ہیں ”اب گاندھی کی حقیقت لوگوں کے سامنے آگئی ہے اور گوڈسے کا پیغام گھر گھر پہنچ رہا ہے۔۔ سیکیولر لیڈر اب اس طوفان کو روک نہیں پائیں گے اور ایک دن آئے گا، جب اس پاکیزہ سرزمین سے گاندھی کا نام مٹ جائے گا‘‘
◼️ ناتھو رام گوڈسے اور آر ایس ایس
ناتھو رام گوڈسے 1910ع میں پونے کے ایک چھوٹے سے مضافاتی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محکمہ ڈاک کے ملازم تھے۔ انہوں نے ابتدائی عمر میں ہی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ گاندھی کے قتل کے وقت ناتھو رام گوڈسے سینتیس سال کے تھے
ہندو قوم پرست مفکر کے بی ہیڈگوار نے 1925ع میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی تھی۔ اس تنظیم کے قیام کی بنیاد ’ہندوتوا‘ کا انتہا پسندانہ نظریہ ہے، جس میں ایک ہندو مملکت یا ’راشٹر‘ قائم کرنے کا تصور پیش کیا گیا ہے، جہاں صرف ہندو بستے ہوں
آر ایس ایس میں ان انتہا پسند نظریات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے عملی جدوجہد کی تیاری اور لڑنے کے لیے تنظیم کے ارکان کو جسمانی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ عام طور پر آر ایس ایس میں اپنے نظریات کارکنوں کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے چھوٹی عمر کے افراد بھرتی کیے جاتے ہیں
اس سب کے باوجود حیران کن امر یہ ہے کہ اس پر دنیا نے کبھی بھی ’غیر ریاستی عناصر’ یا ’دہشتگرد’ کے طور پر انگلی نہیں اٹھائی اور نہ ہی کبھی بھارت پر کوئی سفارتی دباؤ ڈالا گیا
اگرچہ سن 1948ع میں گاندھی کے قتل کے بعد بھارتی حکومت نے کچھ عرصے کے لیے آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی تھی۔ ناتھو رام گوڈسے اور ان کے ساتھی کو تو گاندھی کے قتل میں سزائے موت دے دی گئی لیکن آر ایس ایس پر پابندی برقرار نہیں رہی
آج نہ صرف آر ایس ایس بھارت میں پوری طرح فعال ہے بلکہ اس کی سیاسی فکر کی نمائندہ جماعت بی جے پی ایک دہائی سے اقتدار میں ہے اور اس نے ہندوؤں کی روایات اور شناخت کو بھارت کی سیاست کا مرکزی نکتہ بنا دیا ہے
خود وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی عملی سیاست میں آنے سے قبل کئی برس تک آر ایس ایس میں شامل رہے تھے اور وہ اسی دہشتگرد اور انتہا پسند آر ایس ایس کی پیداوار ہیں
اگرچہ حالیہ برسوں میں بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے ناتھو رام گوڈسے کو جنگِ آزادی کا ہیرو قرار دیا ہے۔ ان میں بھوپال سے بی جے پی کی رکنِ پارلیمنٹ سادھوی پرگیا ٹھاکر اور دیگر کئی رہنما شامل ہیں۔ لیکن نریندر مودی نے خود کو ناتھو روم گوڈسے کی پذیرائی کرنے والوں سے مصلحتاً دور رکھا ہے۔ وہ ہر سال گاندھی کی برسی کے موقعے پر انہیں بظاہر ’خراجِ عقیدت پیش‘ کرتے ہیں
گاندھی کے قاتل کی سرپرستی کے تاٹر کو زائل کرنے کے لیے کچھ برس قبل بی جے پی کی جانب سے ’من میں باپو‘ کے نام گاندھی کی برسی پر تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا تھا
لیکن نریندر مودی اور بی جے پی نے کبھی واضح طور پر ناتھو رام گوڈسے کی مذمت نہیں کی ہے۔ بلکہ مودی اور بی جے پی گوڈسے کے استاد اور ہندو قوم پرست مفکر ونایک دامودر ساورکر کو آزادی کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار کرتی ہے۔ خیال رہے کہ گاندھی کے قتل کے مقدمے میں جرم پر اکسانے کے الزام میں ساورکر بھی ملزمان میں شامل تھے۔ لیکن انہیں بعد میں بری کر دیا گیا تھا
گوڈسے کے عقیدت مند اپنے ’ہیرو‘ کے لیے بھی بی جے پی اور نریندر مودی سے اسی برتاؤ کے خواہش مند ہیں، جو قومی سطح پر ساورکر کے لیے اپنا گیا ہے۔ لیکن اپنی توقعات پوری نہ ہونے پر یہ سخت گیر عناصر اظہارِ مایوسی کرتے ہیں
مصنف اور مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تُشار گاندھی کا کہنا ہے کہ مودی اپنے پیش رو وزرائے اعظم کے برخلاف اپنے سیکیولر اقدار پر عمل کرنے کے بجائے خود کو ہندوؤں کا مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ گاندھی کی فکر سے انحراف ہے۔ل
تُشار گاندھی کا کہنا ہے کہ گوڈسے سے اظہارِ عقیدت مودی حکومت کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والی فکر کا نتیجہ ہے جو ’’تباہی کے بیج بونے‘‘ میں مصروف ہے
ان کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرستی کے بارے میں ہم طویل عرصے تک مصلحت پسندی کا شکار رہے اور اسے قوم پرستی سے مماثل قرار دیتے رہے۔ لیکن یہ جذبہ حب الوطنی نہیں بلکہ جنونیت ہے
مصنف تُشار گاندھی کے بقول ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے نفرت کے اس زہر کو نکالنا ہوگا۔ ورنہ ہماری نفرت ہمیں نگل جائے گی۔