شہزادی ڈیانا کے سوئیٹر پر درجنوں سفید بھیڑوں میں موجود ایک کالی بھیڑ کی کتھا۔۔

ویب ڈیسک

2021 میں پابلو لائرین کی فلم ’اسپنسر‘ ریلیز ہوئی، جس میں ان کی شاندار ہدایتکاری جھلکتی ہے۔ یہ کہانی غالباً ویلز کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی ہے، جن کا نام شادی سے قبل ڈیانا اسپنسر تھا، مگر کسی بھی پیمانے کے تحت یہ ہالی وڈ میں عام طور پر کسی مشہور شخص کی زندگی پر بننے والی بائیو پکِ فلموں جیسی نہیں ہے

زیرِ موضوع خاتون کی طرح خود بھی یہ فلم بیک وقت مانوس بھی لگتی ہے اور پراسرار بھی۔ اس میں ایک شاندار، غیر قدرتی حقیقت پسندی کے ساتھ وہ لمحات دکھائے گئے ہیں، جو سنہ 1991 میں ملکہ برطانیہ کے سانڈرنگھم ہاؤس میں کرسمس کی چھٹیوں پر شہزادی نے دیکھے۔ یہ وہ وقت تھا، جب ان کا شہزادہ چارلس سے رشتہ اپنے آخری لمحات میں تھا

اس دورے میں ان کے ہر قدم، وہ کیا کھائیں یا کیا پہنیں، ہر ہر چیز کو ایک منظم عسکری انداز میں پہلے سے طے کیا گیا۔ ایک یادگار منظر جو ان کی دنیا کی تنگی ظاہر کرتا ہے، اس میں ڈیانا شاہی خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ کھانا کھا رہی ہیں۔ اس میں سب لوگ ایک روبوٹ کی طرح ایک ہی انداز میں اپنا سوپ پی رہے ہیں

کیمرہ ڈیانا کی نظر سے ایک سخت مزاج ملکہ کو دکھاتا ہے۔ اس کے ریورس شاٹ کی عکس بندی ڈیانا کے گرد فوکس ہوتی ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ خوف کے مارے وہ گلے میں پہنا ہار اس سوپ میں گرا بیٹھتی ہیں، پھر اسی خوف میں وہ موتی نگل جاتی ہیں۔ یہ اس فلم میں موجود ڈیانا کی حقیقی اور نفسیاتی تنہائی کی تشبیہ تھی

مذکورہ بالا فلم میں فوجی انداز میں پہناوے کے بارے میں ہدایات کا پسِ منظر ذہن میں رکھیں تو لیڈی ڈیانا کا مشہور سوئیٹر ’خاموشی کی زبان‘ جیسا لگتا ہے

اس کے سب سے یادگار ملبوسات میں سے ایک سرخ بُنا ہوا یہ سویٹر، جو چھوٹی، سفید بھیڑوں کی ہم آہنگ قطاروں میں ڈھکا ہوا تھا، انہی میں ایک کالی بھیڑ بھی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ لیڈی ڈیانا کے بہت سے کپڑوں کی طرح، یہ بھی ایک استعارہ اور پیغام تھا

یوں تو اپنی مختصر زندگی کے دوران، شہزادی ڈیانا کئی وجوہات کی بناء پر محبوب تھیں۔ ان میں سے ایک ان کی فیشن سینس تھی۔ وہ ہر لباس میں خوبصورت لگتی تھیں، اور چونکہ وہ جوان اور ماڈرن تھیں، اس لیے انہوں نے آرام دہ اور پرسکون لباس بھی اپنا لیا۔ ان کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ یہ اب بھی تازہ محسوس ہوتا ہے

شہزادی ڈیانا نے سرخ رنگ کے اس اونی سوئیٹر کو 1981ع میں پہنا تھا، جب وہ ایک پولو میچ دیکھنے کے لیے جا رہی تھیں۔ اس وقت وہ اُنیس سال کی تھیں اور انہی دنوں ان کی منگنی پرنس چارلس سے ہوئی تھی، جس کی وجہ سے خوبصورت ڈیانا دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں تھیں۔ یہ واقعہ جون 1981 کا ہے اور اس وقت وہ ڈیانا اسپنسر کے نام سے جانی جاتی تھیں

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سوئیٹر ڈیانا کو اس کے ڈیزائن میں موجود کالی بھیڑ کی وجہ سے پسند تھا۔ سفید بھیڑوں کی قطاروں میں واحد کالی بھیڑ اس بات کا استعارہ تھی کہ وہ شاہی خاندان میں خود کو اجنبی محسوس کرتی تھیں

شہزادی ڈیانا نے عام لوگوں تک اپنے احساسات کو پہنچانے کے لیے علامتی انداز اختیار کیا اور وہ تھا کپڑے استعمال کرنے کا ایک طریقہ۔ جیسا کہ دی کراؤن کے چوتھے سیزن میں دکھایا گیا ہے، نوجوان شہزادی اکثر شاہی گھرانے کی حدود میں خود کو بے زبان محسوس کرتی تھی — اور کپڑے ایک قسم کی علامتی زبان بن گئے، جس کے ذریعے وہ اپنے پیار کرنے والے مداحوں سے بات کرتی تھیں

اس وقت، جب عام لوگ سمجھتے تھے کہ چارلس اور ڈیانا ایک نوجوان جوڑے کی طرح ایک دوسرے کے پیار میں ہیں، بہت کم لوگوں نے ڈیانا کے بیرونی لباس کے انتخاب کے بارے میں مزید پڑھا ہوگا۔ تاہم، بعد میں، یہ ڈیانا کی طرف سے ایک ’گستاخانہ منظوری‘ کے طور پر دیکھا جانے لگا کہ وہ خود کو شاہی خاندان کے اندر کیسے دیکھتی ہے، شاید ہجوم میں تنہا، ایک اجنبی کی طرح

بہرحال کچھ بھی ہو، لیڈی ڈیانا نے اپنی خوبصورتی، انداز اور لباس کے انتخاب کی وجہ سے اسٹائل آئیکون کی حیثیت اختیار کی۔ وہ ایسی خواتین میں شامل ہو چکی تھیں، جن کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ تصویریں کھینچی جاتی تھیں۔ ڈیانا کی شہرت کی بلندیوں کے اس دور کا فائدہ فیشن ڈیزائنر سیلی موئیر اور جوانا اوسبورن نے بھی اٹھایا اور اپنے ’وارم اینڈ ونڈرفل‘ کے برینڈ کے تحت ان کے لیے سرخ رنگ کا ایک سوئیٹر تیار کیا

اس ڈیزائن کا سوئیٹر اب ملبوسات کی مختلف کمپنیاں بھی تیار کرتی ہیں اور عموماً اسے ’ڈیانا ایڈیشن‘ کے نام سے فروخت کرتی ہیں۔ اس طرح کے سوئیٹر ایمازان پر آن لائن بھی دستیاب ہیں

اس سوئیٹر کی کہانی آگے چل کر مزید دلچسپ ہو گئی۔ چند ہفتوں کے بعد موئیر اور اوسبورن کو بکنگھم پیلس سے ایک سرکاری خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ڈیانا نے استعمال کے دوران سوئیٹر کو قدرے خراب کر دیا ہے۔ کیا آپ اس کی مرمت کر سکتے ہیں یا اس کے بدلے میں دوسرا سوئیٹر دے سکتے ہیں۔ بکنگھم پیلس نے یہ سوئیٹر کمپنی کو واپس کر دیا تھا

ڈیزائنرز نے جب سوئیٹر کا معائنہ کیا تو اس کی ایک آستین کے ایک حصے کو کچھ نقصان پہنچا تھا۔ ڈیزائنرز کا خیال ہے کہ نقصان ممکنہ طور پر منگنی کی اس انگوٹھی کی رگڑ سے ہوا تھا، جس میں ہیرے اور نیلم جڑے تھے

کمپنی نے پرانا سوئیٹر مرمت کرنے کی بجائے ڈیانا کے لیے اسی طرح کا ایک نیا سوئیٹر بنا کر بھجوا دیا۔ جس میں ان کی ایک تصویر تھی، جو 1983 میں ایک تقریب کے دوران کھینچی گئی۔ اس تقریب میں ڈیانا نے سفید بھیڑوں والے سرخ سوئیٹر کے ساتھ سفید جینز پہنی تھی اور کالا ربن باندھا تھا

’وارم اینڈ ونڈرفل‘ کا برینڈ اب صرف سوتی سوئیٹر تیار کرتا ہے، جس کی قیمت 250 ڈالر کے لگ بھگ ہوتی ہے

اس واقعہ کے کئی عشروں کے بعد ڈیزائنر اوسبورن کو حال ہی میں گودام میں سے ایک پرانا ڈبّا ملا، جسے رکھنے والے بھول چکے تھے۔ جب ڈبّا کھولا گیا تو اس میں سے ڈیانا کا وہی اصلی سوئیٹر نکلا جو بکنگھم پیلس نے مرمت کے لیے واپس بھیجا تھا۔ اس سوئیٹر کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اسے نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا

معروف نیلام گھر ’سادبیز گلوبل‘ کا اندازہ ہے کہ سوئیٹر کی بولی 80 ہزار ڈالر سے اوپر جا سکتی ہے۔ یہ سوئیٹر 7 سے 13 ستمبر تک نیویارک کے سادبیز گلوبل کے شوروم میں نمائش کے لیے رکھا جائے گا، جب کہ اس کی آن لائن بولی 31 اگست سے 14 ستمبر تک جاری رہے گی

اس سے قبل رواں سال جنوری میں سادبیز گلوبل نے فیشن ڈیزائنر وکٹر ایڈلسٹین کا ڈیانا کے لیے تیار کردہ ایک بال گاؤن 604800 ڈالر میں نیلام کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close