اسمگلنگ کے شبے میں ایرانی فورسز نے فائرنگ کر کے سینکڑوں گدھے ہلاک کر دیے

ویب ڈیسک

ایران سے متعلق خبریں دینے والے بلوچ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ٹیلی گرام چینلز کے مطابق ایران کی پاسدارانِ انقلاب فورس (آئی آر جی سی) نے 14 فروری کو ایرانی بلوچستان کے علاقے سراوان کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ کر کے سینکڑوں گدھوں کو ہلاک کر دیا، جن کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے

’بلوچ کمپین‘ نامی ٹیلی گرام چینل اور ’رسانک‘ نامی چینل نے بھی اس خبر کے حوالے سے بتایا کہ یہ واقعہ ایرانی بلوچستان کے علاقے شہر گلشن میں کلیگان کے علاقے میں پیش آیا۔ کلیگان کا سرحدی پہاڑی علاقہ صوبہ سیستان اور بلوچستان کے سراوان کے اضلاع میں سے ایک ہے

سنیچر کو ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک کچی سڑک اور اس کے ارد گرد سینکڑوں گدھوں کی لاشیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ’بلوچ کمپین‘ چینل پر ایک دوسری وڈیو بھی سامنے آئی ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو افراد پہاڑی علاقے میں بھاگ رہے ہیں، ان کے قریب بڑی تعداد میں گدھے بھی کھڑے ہیں جبکہ فورسز کے اہلکار ان کا تعاقب کر رہے ہیں اور اس دوران وہ فائرنگ بھی کر رہے ہیں

ٹیلی گرام چینل کی خبر کے مطابق یہ گدھے بلوچ آبادی سے تعلق رکھنے والے افراد کا ذریعہِ معاش تھے، جنہیں ایرانی فورسز نے ایندھن کی اسمگلنگ کے الزام میں فائرنگ کر کے مار ڈالا

’بلوچ کمپین‘ کے مطابق ایران میں جانوروں کے تحفظ کے آرٹیکل سات کے مطابق کوئی بھی غیر ضروری اقدام اور کوئی بھی ایسا فیصلہ، جو جانوروں کی موت کا باعث بنے، ان کی زندگی کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے

ادھر ایرانی ہیومن رائٹس کے ادارے نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر گدھوں کی ہلاکت کے واقعے پر ایک ٹویٹ میں لکھا: ’آئی آر جی سی فورس نے سینکڑوں گدھوں کو گذشتہ ہفتے پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی علاقے میں ہلاک کردیا ہے۔ بلوچ کمپین کے مطابق انہیں ایندھن کی سمگلنگ کے شبے میں ہلاک کیا گیا۔‘

ایران سے پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ ایرانی بلوچستان کے راستے پاکستان میں کی جاتی ہے اور اسمگلر مختلف طریقوں سے تیل کو سرحد تک پہنچاتے ہیں

سیستان اور بلوچستان کی دو ممالک پاکستان اور افغانستان کے ساتھ گیارہ سو کلومیٹر زمینی سرحد ہے اور بے روزگاری کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ تیل کی مصنوعات، خاص طور پر ڈیزل کی اسمگلنگ کا ایک مقام ہے

ذرائع نے بتایا ہے کہ سینکڑوں گدھوں اور خچروں کی لاشیں کلیگان کے علاقے میں پڑی ہیں، جہاں یہ وڈیوز ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ایندھن کو سرحد کے دوسری طرف منتقل کرنے کے بعد وہ اس علاقے میں گھومتے ہیں

بہت سے معاملات میں، سرحدی محافظ جانوروں کو اس وقت گولی مار دیتے ہیں جب ان کا ایندھن لی جانے والے قافلوں سے سامنا ہوتا ہے یا صرف گدھوں اور خچروں کے ریوڑ کو دیکھتے ہیں، جو اس علاقے میں صرف ایندھن کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں

یہ جانور عام طور پر ملک کے دوسرے حصوں سے اس مقام پر اسمگل کیے جاتے ہیں۔ مقامی تاجروں کے پاس عموماً دس سے بیس گدھے یا خچر ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہی ان کا واحد سرمایہ ہوتا ہے

اس کے علاوہ زیادہ مالی صلاحیت کے حامل سرمایہ کاروں کے پاس ایندھن لے جانے کے لیے زیادہ جانور ہوتے ہیں، جو وہ مقامی کارکنوں کو کرائے پر فراہم کرتے ہیں

ایران میں ان جانوروں کو مارنے کی ایک تاریخ رہی ہے۔ ایران کے فوجی دستوں نے سیستان و بلوچستان اور کردستان میں کئی بار جانوروں کو ہلاک کیا ہے۔ ابھی تک کسی ادارے نے ان جانوروں کو مارنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی

سنہ 2015 میں اسلامی کونسل کے کچھ ارکان نے ایران اور عراق کے سرحدی علاقوں میں جانوروں کی ہلاکت کے واقعات کو روکنے کرنے کا مطالبہ کیا تھا

اس وقت پارلیمنٹ کے سوشل کمیشن کے رکن شکور پور حسین شکلان نے پولیس فورس کے برتاؤ کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ افسران کو گھوڑوں کو ہلاک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے مالکان کو قانون کے مطابق گرفتار کیا جانا چاہیے

لیکن ایک معاملے میں صوبہ کردستان کے سرحدی محافظ کمانڈر نے ایسی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close