احباب سے اس بابت جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں بھائی تم بہت ڈراتے ہو، تو میرا ان سے ہمیشہ یہی کہنا ہوتا ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کر کے یہ سوچ لینا کہ بلی کا کوئی وجود نہیں، تو یہ اس کی خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے؟
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ماحول انسانی صحت اور اس کی نشونما میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ نا مناسب آب و ہوا، گھٹن، گندگی اور وسائل سے محروم ماحول میں صحت اور اچھے مستقبل کی توقع کی جا سکتی ہو؟
گذشتہ مضمون میں ہم نے گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کا سرسری ذکر کیا تھا۔ گلوبل وارمنگ، جسے زمینی تپش میں اضافہ یا موسیاتی تبدیلی کے معنوں میں لیا جاتا ہے، خود ساختہ عوامل سے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ جیسے کہ ہوا میں مختلف گیسوں کی زیادتی سے سورج کی کرنیں زمین سے ٹکرانے کے بعد خلا تک واپس نہیں جا سکتیں جس کی وجہ سے فضا اور زمین کا درجہِ حرارت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے
پہلے سیلاب کی وجہ زیادہ بارشوں کو قرار دیا جاتا تھا لیکن چوں کہ گرمی کی شدت میں اضافہ کی وجہ سے گلیشیئرز اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ اب کم بارش میں بھی سیلاب کے خدشات نہ صرف بڑھ گئے ہیں بلکہ بہت سے ممالک بشمول پاکستان اسے بھگت بھی رہے ہیں
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ماحول میں بگاڑ پیدا کرنے والی کارخانوں، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ ہو یا ایئر کنڈیشنز اور ریفریجریٹر سے نکلنے والی کلوروفلوروکاربن گیس، یا پھر کھیتوں میں جنم لینے والی میتھین گیس۔ ان سبھی کو ہم اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ماحول کا حصہ بناتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ درحقیقت ہم اس حرکت سے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہے ہوتے ہیں
فی زمانہ ہماری مثال تو اس انسان جیسی ہے، جو جس شاخ پر بیٹھا ہے، اسی کو کاٹ رہا ہے۔ صاف پانی اور نکاسیِ آب ہر انسان کا حق ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم صحت مند رہیں، لیکن برف پگھلنے کا عمل، درجہ حرارت اور سمندر کی سطح میں اضافے جیسے عوامل کا مجموعہ ظاہر کرتا ہے کہ آب و ہوا میں ہونے والی یہ منفی تبدیلی آبی وسائل کے معیار اور مقدار کو متاثر کر رہی ہے
ہمارے سیارے کے اوسط درجہ حرارت میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ تاہم، گرمی کا یہ موجودہ دور پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی وجہ انسان کی وہ خود ساختہ سرگرمیاں ہیں جو فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کو بڑھا رہی ہیں
آکسیجن تمام جانداروں کے لیے ناگزیر ہے۔ جنگلات کا صفایا اس میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ اوزون کا ہالہ ہمارے سیارے کے لیے ایک غیر مرئی ڈھال کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس میں سورج سے آنے والی مضر شعاعوں اور تابکاری کو تقریباً 95 سے 97 فیصد جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جو زمین پر موجود جانداروں کو نقصان پہنچا سکتی ہے
اگر اوزون کی یہ تہہ موجود نہ ہوتی تو لاکھوں لوگ جلدی بیماریوں کا شکار اورکمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتے۔ بدقسمتی سے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق اب ان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے اس ہالے میں بھی دراڑیں پڑ رہی ہیں
مندرجہ بالا باتوں کے بارے میں اگر کوئی یہ کہے کہ یہ خوف میں مبتلا کرنا ہے تو میرا ان کے لیے صرف یہی جواب ہو گا کہ یہ وہ حقائق ہیں جو نہ صرف سائنس کی رو سے ثابت شدہ ہیں بلکہ کہ اب توچشمِ حیراں نے بذاتِ خود اس کا تجربہ بھی کر لیا ہے
ایسا ہرگز نہیں کہ گلوبل وارمنگ کے کرہِ ارض پر پڑنے والے منفی اثرات سے لوگ بلکل بے خبر ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کے سدِباب کے لیے جس مجموعی ردِعمل کی ضرورت ہے وہ دکھائی نہیں دیتا، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں
بعض ترقی یافتہ ممالک اس کی ہولناکی سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ اگلے مضمون میں بات ہو گی ان ممالک کی کاوشوں، شہری اور علاقائی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے اور اسے ایک ایسے موقعے کے طور پر کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ملکی سطح پر بہتری کی طرف گامزن ہوا جا سکے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)