میرا دوست، میرا دشمن (شاہکار افسانہ)

ایڈتھ پرگیٹر (ترجمہ: عقیلہ منصور جدون)

میں نے اس دوسری ملاقات کی استدعا اس لیے کی ہے، جنرل، کہ مجھے علم ہوا ہے کہ ہمارے درمیان دس دن قبل جو گفتگو ہوئی تھی، اس کی آپ کی جانب سے بہت منصفانہ اور درست رپورٹنگ کے باوجود، میرے اعمال کی یورپین اخبارات نے بہت غلط تشریح کی اور اسے بالکل غلط سمجھا گیا ہے۔ پھر بھی یہ میری توقع سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ جو زبان سمجھتے ہیں، وہی استعمال کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے وفاداریاں بدل لی ہیں ، میرا حوصلہ قید کے دوران پست ہو گیا ہے۔۔ میں نے یہاں اپنے قیام کے دوران کچھ ایسا کیا ہے کہ اب میں واپس انگلینڈ جانے سے خوفزدہ ہوں۔۔ میری سیاسی برین واشنگ کی گئی ہے۔۔۔ اور میں دشمن کے ساتھ مل گیا ہوں!! ان کے خیال میں ان وجوہات کی بناء پر میں وطن واپسی سے انکار کر رہا ہوں اور یہاں تک کہ کسی غیر جانبدار ملک میں جانے کے لئے بھی تیار نہیں اور ادھر ہی آزاد گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔۔ ادھر، جہاں میں ہوں، بطور ایک شہری، ایک ایسا لفظ جس کے میرے لئے اب کوئی معنی نہیں رہے ، بے شک یہ ان کا لفظ ہے۔۔۔ آئیے ہم صرف ’آدمی‘ ہی کہتے ہیں۔۔

کورین معاملے کے اختتام پر بھی ایسا ہی تھا ، آپ کو یاد ہوگا — جی ہاں ، سب لوگوں میں سے آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے کچھ ہم وطنوں کو تب ایسی ہی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، اور انہوں نے اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر بناتے ہوئے رحمدلی کے ساتھ ایسے ہی غیر تسلی بخش انجام تک پہنچایا ۔ یہ وہ وقت تھا، جب یہ عمل پہلی دفعہ استعمال میں آیا ۔ ایسا نظر آتا ہے یہ پہلے ہی ہمارے ساتھ تھا ، شکست خوردہ فوجوں کا یہ مسئلہ جو واپس گھر نہیں جانا چاہتیں۔ ہم پہلے ہی اسے سمجھنا شروع ہو گئے ہیں اور ہمارے جوابات بھی ایک خاص نمونے سے آنا متوقع ہیں ۔ جو موافقت / مطابقت نہیں رکھتے وہ ہمیشہ مشتبہ رہتے ہیں۔۔

اسی وجہ سے میں نے اس ملاقات کا وقت مانگا ۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ سوچیں کہ میں دنیا کی غلط تشریحات کی پرواہ کرتا ہوں ؛ ان کی اچھی رائے کی مجھے زرہ بھر پرواہ نہیں ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میری اصل صورت حال کا، قبل اس کے بہت دیر ہو جائے، انہیں نوٹس لینا چاہیے۔۔ اور اس لیے بھی، کہ میں جانتا ہوں، کہ وہ میری وضاحتوں پر کان نہیں دھریں گے ۔ میں چاہتا ہوں ، میری خوشی کے لئیے آپ میرے پیامبر بنیں۔ میں پوری دنیا کے آدمیوں پر آپ کو ، اور تمام ملکوں پر ، آپ کے ملک کو ترجیح دیتا ہوں ، یہ سمجھنے کے لئے کہ کیا واقعہ ہوا ، اور میرے بارے میں اور ان حالات کے بارے میں، جن میں اس وقت میں ہوں، سچائی کے ساتھ سوچا جائے۔۔

میرے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ 1959 کی سردیوں میں میری قید سے قبل کا واقعہ ہے ۔ مجھے آپ کو یہ بتانا ہے، تا کہ ثابت ہو سکے کہ میری قید کی نوعیت کیا تھی۔۔ اور اس کا میرے اندر ہونے والی تبدیلی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔۔

ہم پہاڑوں کے دامن میں تھے۔تباہ و برباد ملک کے کچھ میلوں پر پھیلے رقبے پر آگے پیچھے لڑ رہے تھے ۔ شدید سردی تھی، وہ وقت پہلے ہی گزر چکا تھا، جب اقوام متحدہ کمانڈ اسے ختم کرانے کی کوشش کر رہی تھی اور ہم پہلے سے ہی ایٹمی بم کے علاوہ اپنے تمام وسائل استعمال کر رہے تھے۔۔ ایٹم بم ہمارے لئیے اتنے چھوٹے مسئلے کی نسبت بہت قیمتی تھا ۔اور اس کا استعمال نہ کرنا ، ہمارے تحمل ، برداشت اور ہمارے محتاط رویے کی نسبت ہماری کمینگی تھی ۔ ہمیشہ کی طرح ہماری توقعات کے مطابق یہ معاملہ بھی بہت معمولی نوعیت کا ثابت نہیں ہوا۔ ہم دشمن کی استقامت اور اس کے یہ سمجھنے سے انکار پر، کہ وہ جیت نہیں سکتا، بہت پریشان و ناراض تھے ۔ اس وقت جس کی میں بات کر رہا ہوں، ہم دوبارہ نیپلم ( پیٹرول کی جیلی والے) بم استعمال کر رہے تھے۔۔ اور ہماری بمباری سب حربوں سے، جو ہم نے کوریا میں استعمال کیے، زیادہ مہلک تھی ۔ ہمارے سامنے ملک کا وہ حصہ پھیلا ہوا تھا، جو بالکل خالی اور چاند کے کریٹرز کی طرح بے شمار گڑھوں سے بھرا تھا ۔ ہم اس تباہی و بربادی کے کناروں پر چھچھوندروں کی طرح رہتے تھے ۔ بے شک جب سے آپ کا مشن یہاں شروع ہوا ، آپ نے یہ ملک دیکھا ہے ۔

میرے ساتھ جو حادثہ ہوا، وہ رات کے حملے میں ہوا ۔ ہمیں دو دن گزر گئے تھے اور ہم بمشکل ایک گڑھے سے دوسرے گڑھے تک رینگتے ہوئے کچھ سو گز ہی آگے بڑھ سکے تھے ۔ دوسری رات ہم نے بھرپور حملہ کر دیا ، پہلے دن کا رکنا مجھے اس مردہ زمین پر وقت کا ضیاع لگا تھا ۔ ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے، جہاں انہیں ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا ،جب کہ وہ وہاں موجود تھے۔۔ اور انہوں نے ہمیں بھرپور جواب دیا ۔ بہت زیادہ تعداد میں وہ مرے او ہم بھی مرے۔۔ لیکن یہ سب متوقع نقصان تھا، جس کا اندازہ ہم لگا چکے تھے ۔

آخر میں دونوں فریق پیچھے ہٹے اور پھر پہلی والی پوزیشن پر جم گئے ۔ اور درمیان کی زمین پر دو دو رکاوٹی بند باندھ کر زمین پلستر کرنے لگے ۔ اپنے والد کی سنائی ہوئی کہانیوں سے کہہ سکتا ہوں ، کہ یہ سب کم سے کم کی بجائے زیادہ سے زیادہ 1915 جیسا تھا ۔

جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے کبھی واپسی کا سفر نہیں کیا — تب بھی نہیں۔۔۔ میں کچھ سو بکھری مٹی اور پتھروں کے نیچے تھا یہ ایک پہاڑی کے نیچے تیار شدہ قبر تھی ۔ میری ہڈیاں سالم تھیں لیکن کمر سے پاؤں کی ایڑیوں تک زخمی تھا ۔

چوٹوں کے باعث پاگل ہو رہا تھا اور پہلے دن بالکل یادداشت اور عقل کھو چکا تھا ۔ جب حواس بحال ہوئے تو شام ہو چکی تھی اور اس وقت جب میں نے اپنے آپ کو ملبے سے گھسیٹ کر نکالا تو رات کی سیاہی ایسے گر رہی تھی، جیسے یہاں کوئی باز، کوئی ڈھیر یا پتھر گرتا ہے۔
موت جیسی خاموشی تھی۔۔ وہ سب اب بھی پیچھے ہٹ رہے ہوں گے اور اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے ۔ بندوق بردار مر چکے ہوں گے۔۔ میں بڑی جدوجہد سے کریٹر سے باہر نکلا ، اور اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن درد اور ٹانگوں کے سُن ہونے کے باعث کھڑا نہ ہو سکا۔ میں ادھر لیٹے لیٹے اپنا سر اونچا کر کے سننے اور جہاں تک گہرے اندھیرے میں دیکھ سکتا تھا، دیکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔ دھواں چھٹ چکا تھا۔۔ رات کو کہر اور پالے سے کالے ہیرے کی جگمگھاہٹ کی طرح جو اسے آبنوسی روشنی کے انعطاف سے ملتی ہے، چمک مل رہی تھی۔۔ اور یہاں یہ چمک دنیا بھر سے مختلف تھی۔۔ زمین کی منجمد لہریا حرکت جو غصیلے سمندر کی لہروں اور ڈونگوں کی شکل میں مجھے دکھائی دے رہی تھی ۔ اور ایک ایسی چیز تھی جو بار بار جھک رہی تھی ، جو ہو سکتا ہے کبھی درخت ہو ۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دی ۔ کسی حرکت یا کسی کے سانس لینے کی، ماسوائے میرے اپنے سانسوں کے۔م سب جا چکے تھے، رات تھی اور میری ہر سانس کے ساتھ ٹھنڈ میرا کلیجہ کھا رہی تھی۔۔ میں جان چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی پناہ نہ ملی تو میں صبح تک مر جاؤں گا۔۔

پہلے پہل تو بالکل چل نہیں سکتا تھا، صرف رینگ سکتا تھا۔۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میرا رخ کدھر تھا اور نہ ہی ایک سے دوسری سمت جانے کا کوئی فائدہ تھا۔۔ میں اتنا بدحواس تھا کہ مجھے ستاروں سے سمت کا تعین کرنے کا خیال ہی نہیں آیا ۔لیکن ساکت رہنے سے حرکت کرنا بہتر تھا اور کچھ لمحوں بعد میری ٹانگیں بہتر ہونے لگیں اور میں ان پر کھڑا ہو گیا۔۔ اور اس طرح چلنے لگا گویا کریٹرز کے درمیان ڈگمگا رہا تھا ۔ کبھی ان میں گر پڑتا اور پھر ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا۔۔ بالکل ایک مدہوش شرابی کی طرح، جو ہل چلے کھیت سے گھر آ رہا ہو۔۔ اس طرح چلنے سے بہتر تو رینگنا تھا۔

مجھے بہت سارے مُردوں سے ٹھوکریں لگیں ، مجھے لمحے بھر کے لیے بھی خیال نہیں آیا کہ ان میں رتی بھر زندگی کی رمق موجود ہو سکتی ہے ۔ میرے دماغ میں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ وہاں میں ہی زندہ مخلوق تھا ۔ جب میں منجمد زمین سے مورچے میں گرا تو میں نے ہچکچاتے ہوئے اپنے ارد گرد دیکھا ۔ کچھ انگارے اور ان کے قریب اکڑوں بیٹھا ایک آدمی۔۔۔ وہ باہر پڑے مُردوں سے کسی طرح بھی مختلف نہیں تھا ۔
شاید اسی لیے میں نے اسے فوراً گولی نہیں ماری ،جب کہ اس نے اسی قسم کا لباس پہنا ہوا تھا، جسے دیکھتے ہی ہمیں گولی مارنا سکھایا گیا تھا اور میری اضطراری حرکات بہت تیز تھیں ۔ کسی بھی سارجنٹ یا عام آدمی سے زیادہ۔۔ لیکن وہ حقیقی نہیں تھا۔ اس لیے حقیقی گولیاں اسے کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں۔۔ میں اس کی پناہ گاہ کے مٹی کے فرش پر لیٹ گیا، آہستہ آہستہ اپنے حواس مجتمع کرنے لگا اور اسے گھورتا رہا ، اور حیران ہوتا رہا کہ جب باقی نہیں ہلے تو یہ کیوں ہلا۔۔

وہ اس وقت بغیر کسی کوشش کے مجھے مار سکتا تھا ۔ اس نے اپنے ہاتھ رائفل کی طرف بڑھائے بھی، جو اس کے ساتھ والی چٹان پر رکھی تھی اور تب اس نے جیسے محسوس کیا کہ بندوقیں اس سے مختلف طول و عرض کے لئے بنی ہیں ، اس نے اپنے ہاتھ پرے کر لئے۔۔ اور بیٹھ کر منہ کھولے مجھے جواباً گھورنے لگا۔۔ اس کی آنکھیں آدھی بند تھیں۔

اس کے بارے میں آپ کو بتانے کے لئے کیا خاص ہے؟ آپ تو جانتے ہیں وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں۔۔ وہ بھی باقیوں جیسا ہی تھا، ادھیڑ عمر تھا، تھوڑا سا فربہی مائل شاید دوسروں کی نسبت زیادہ۔۔ اس کا چہرہ تھوڑا زیادہ چپٹا، خوش مزاج اور قابلِ قبول۔۔ شاید اس میں کہیں تبتی خون کی شمولیت تھی۔۔ اس کے دانت خراب تھے، لیکن آنکھیں اچھی تھیں، بٹنوں جیسی چمکدار۔۔ اس کی گردن کے گرد ایک گندا، خون آلود چیتھڑہ لپٹا ہوا تھا۔۔ اور بھرتی سے نرم کیا گیا یونیفارم بے رنگا ہو چکا تھا۔۔ مٹی ، گندگی اور خون سے مٹیالہ۔۔ سب باتوں کی ایک بات، وہ بالکل مجھ جیسا دکھائی دیتا تھا۔۔ اور وہاں ہم بیٹھے ایک دوسرے کا معائنہ کر رہے تھے، یہاں تک کہ ہمیں ایک دوسرے کی ہر لکیر یاد ہو گئی، جیسے کہ ہم آدمی اور آئینہ تھے اور ہمارے درمیان ایک ہی شخصیت تھی۔۔

آگ بالکل اصلی تھی، اگرچہ زیادہ نہیں تھی۔۔ میں کچھ بھی نہیں سوچ پا رہا تھا اور میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت بھی بھول گیا تھا ۔ اگر آپ جنوری کی راتوں میں یہاں ہوتے تو آپ سمجھ جاتے۔۔ یا تو آپ آگ ڈھونڈ لو یا مر جاؤ۔۔ میں آگ کی طرف ایک ایک انچ کر کے بڑھنا شروع ہوا۔ وہ مجھے دیکھتا رہا، تب اس نے میرے اور اس کمزور سی چمک کے درمیان سے ہٹنے اور مجھے اس کے قریب ہونے کے لیے حرکت کی۔

حیران کن طور پر مجھے اس کی زبان کے کچھ الفاظ آتے تھے لیکن میں نے کبھی انہیں استعمال نہیں کیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ماسوائے ہمارے درمیان تناؤ کم کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔۔ اور یہ ضروری بھی نہیں تھا۔۔ کہ میری حالت کسی طرح بھی اس سے بہتر نہیں تھی۔۔ وہاں ہم دونوں تھے کوئی تیسرا فریق شک کرنے، اختلاف کرنے اور ہمارے درمیان کسی رکاوٹ کا سبب بننے والا نہیں تھا۔ میرا خیال ہے اگلے کچھ دنوں اور راتوں میں ہم نے شاید کل تین مرتبہ بات کی۔۔ اور وہ بھی محض کوئی آواز سننے کی عیاشی کے لئے، گفتگو کے لئے نہیں۔ بندوقوں اور بموں کی گھن گرج کے دوران آواز ذہنی صحت کے لئے ضروری تھی۔ الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔۔

میرے پاس کچھ ایمرجنسی راشن تھا، جس میں چاکلیٹ، کمپریسڈ فوڈ اور بسکٹ تھے۔ میں نے وہ نکالے اور اسے آگ کے بدلے میں پیش کیے۔۔ اس نے سمجھ لیا۔ اس کے پاس پانی کی صراحی نما بوتل/ فلاسک تھی۔۔ اور میرے پاس بھی تھی۔ اس نے ہمارے خوراک کے ذخیرے میں کچھ سیاہی مائل روٹی اور کچھ سخت سلیٹی چیز (cheese) کا اضافہ کیا۔ ہم بہت تھوڑا کھاتے اور بہت تھوڑی آگ جلاتے۔ اس لئے کہ ہمارے پاس لکڑی اور تنکوں کا بہت چھوٹا سا ڈھیر تھا، جو اس کے غار کے ایک کونے میں پڑا تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس بنجر جگہ میں کوئی بھی جلانے کے قابل چیز ڈھونڈنا کتنا مشکل تھا ۔ وہاں پہلے ہی بہت کم درخت تھے اور وہ سب بھی بہت پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔ وہاں موجود جھونپڑیاں سال پہلے ویران ہو گئی تھیں اور ان کی لکڑی کی دیواریں اور چھپروں کا گھاس پھونس ان کی ویرانی کے ایک ماہ کے اندر ہی ختم ہو گیاتھا ۔ یہاں سردیوں میں ایندھن بھی زندگی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے، جتنا پانی اور خوراک۔۔ اور اس کا حصول بھی انتہائی مشکل تھا۔

کوئی وقت ایسا آتا کے ٹھنڈ ہماری ہڈیوں میں گھس جاتی، ہم آگ کے قریب تر ہوتے یہاں تک کہ ہم اکڑوں ہو کر کانپتے ہوئے اسے چھونے لگتے۔۔ ہم پہلو بہ پہلو قریب ہوتے جاتے۔۔ نیند ایسی چیز ہے، جو اس ملک کی اس ٹھنڈ میں ناممکن ہے۔۔

کچھ دیر بعد ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔۔ زمین پر لیٹے، بدن کے ساتھ بدن ایک دوسرے کے گلے لگے تاکہ گرمائش دے اور لے سکیں؛ اور جب اس نے محسوس کیا کہ میرے کپڑے اس کے کپڑوں کی نسبت بہت باریک ہیں تو اس نے اپنا ڈھیلا اسکن کوٹ کھولا اور ہم دونوں کے گرد لپیٹ دیا اور ہم ایک دوسرے کے بازوؤں میں کانپتے لیٹے رہے، ایک دوسرے کے چہرے پر سانسیں چھوڑتے رہے۔ اس کا سب کچھ، اس کی تیز بُو، اس کے گوشت کا بوجھ، چیز ملی سانسیں۔۔۔ میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ وہ میری بُو خوشی خوشی برداشت کر رہا تھا۔ ہم اس رات زندہ بچ گئے۔۔ اور ہر گھنٹے بعد ہم آگ میں کچھ نہ کچھ ڈالتے رہے تاک وہ مکمل بجھ نہ جائے، اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔۔

روشنی پھیل گئی اور ہم بالکل نہیں سوئے۔ لیکن پھر بھی سردیوں کی روشنی کا ظاہر ہونا بھی اس انسان کو تازہ دم کر دیتا ہے، جو رات کے خونی پنجے سے بچ نکلا ہو۔ ابھی تک رات والی خاموشی برقرار تھی۔ صرف کچھ جہاز اوپر سے گزرے۔ ہم ایک دوسرے سے الگ ہوئے، ہمارے بدن اتنے اکڑے ہوئے تھے کہ حرکت کرنا بھی مشکل تھا۔ مجھے لگا وہ آج علیحدہ ہونا چاہتا ہے۔۔ کہ اس نے خوراک، جو ہمارے پاس تھی، اسے تقسیم کرنا شروع کیا۔۔ جو زیادہ بڑا حصہ تھا، اس نے میری طرف کر دیا ۔لیکن میں اتنا بیمار اور کمزور تھا کہ کہیں بھی اکیلے جانے کے قابل نہیں تھا ۔ مجھ پر جو مٹی اور پتھر گرے تھے اور میرے عضلات کو جو زخم پہنچے تھے، اس کے بعد رات بھر کی سردی سے میں ایک ٹانگ کے بعد دوسری ٹانگ اٹھانے کے بالکل قابل نہیں رہا تھا ۔

میں لیٹا اسے دیکھتا رہا۔۔میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور لڑھک کر میرے رخساروں پر جم گئے۔۔ اس لیے کہ مجھے لگا، وہ مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے اور میں سمجھ گیا کہ اب میں مر جاؤں گا۔ اس نے میرا انتظار کیا، ہر چھوٹا قدم اٹھانے کے بعد پیچھے مڑ کر مجھے دیکھتا، یہاں تک کہ اس نے دیکھ لیا کہ میں اس کے پیچھے اس پناہ گاہ سے نہیں نکل سکتا۔ وہ کچھ دیر سوچتا ہوا محسوس ہوا، کہ کیا کیا جائے۔۔ آخرکار اس نے جو خوراک اپنی جیکٹ میں رکھ لی تھی، اسے بھی واپس رکھ دیا۔۔ اور جب وہ اس غار سے باہر نکلا تو اس کا مقصد صرف لکڑی اور خشک گھاس جمع کرنا تھا۔ اس کو جو بھی خشک ٹہنی فوری طور پر ملی، لے کر واپس آگیا۔۔ مجھے یہ دکھانے کے لئے کہ وہ مجھے چھوڑ نہیں رہا ۔ اس نے سر ہلایا اور مسکرایا ، اپنے کھچڑی نما بال ہلائے۔ تب میں جرأت کر کے اس کے پیچھے کسی نہ کسی طرح باہر نکلا اور ایندھن کی تلاش میں اس کی مدد کی۔

اس منجمد زمین پر، جو کسی منجمد سمندر کی طرح سخت تھی، پچاس گز کے فاصلے تک رینگنے میں مجھے صدیاں لگیں۔۔ لیکن زمین کی قربت میری مدد گار بھی تھی اور میں نے وہ جگہ ڈھونڈ لی ، جہاں لکڑیاں ایک دوسرے کے اوپر دبا کر جمع کی گئی تھیں ۔ تب میں نے اپنے ناخنوں سے کھود کر کچھ لکڑی کے ٹکڑے نکال لئے اور انہیں فتح مندی سے ’گھر‘ لے آیا۔

ہمارا وہ دن اچھا گزرا۔۔ آگ اچھی تھی، خوراک بھی تھی اگرچہ ہماری تسلی سے بہت کم۔۔ ہم نے دن کے درمیانی حصے میں، جب ناقابلِ اعتبار سورج کچھ دیر کے لئے چمک رہا تھا، اور ٹھنڈ کی شدت اسے دیکھنے سے ہی کم محسوس ہونے لگی تھی، ایک دوسرے کے زخم دیکھے۔ اس کے دو تین گندے زخم گوشت میں تھے، لیکن خطرناک نہیں تھے۔ ان سے کافی خون بہہ چکا تھا۔۔ میں نے اپنی ایمرجنسی پٹی اس کے گہرے زخموں پر باندھ دی اور باقی زخموں کو جتنا ممکن ہو سکا صاف کر دیا۔ جواباً اس نے میری پشت اور ٹانگوں کو گرم کیا اور مساج کیا، یہاں تک کہ میں سچ مچ سو گیا۔۔ جی ہاں، وہ ایک اچھا دن تھا۔۔ سہہ پہر میں اس نے ایک پرندہ شکار کیا، ایسی نسل، جسے میں نہیں جانتا تھا۔ اگرچہ میں نے اسے دیکھا ہوا تھا لیکن میں نے کبھی اس پرندے پر غور نہیں کیا تھا۔۔اس نے اسے چھیلا اور ہم نے اسے اپنی آگ کی ایک طرف کی راکھ میں دبا کر پکایا۔

رات سے پہلے پہلے میرے دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا، صرف میرا جسم ابھی بھی تیار نہیں تھا۔ میں نے اگلے دن اپنے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے بارے میں سوچا۔

میں نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ وہ مجھے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔ میں اس آدمی کے بارے میں بہت کچھ جاننے لگا تھا۔ مجھے اس کا نام معلوم نہیں تھا۔اسے بھی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ کبھی بھی کوئی اور میرے لئے محض ’وہ‘ نہیں ہو سکتا جیسے کہ ’وہ‘ تھا.۔ اس سے قبل، جب سے میں ایک الگ وجود بنا، کبھی بھی کسی سے اتنی قربت نہیں رہی۔۔ نہ بھائی، نہ والدین یا بیوی یا بچے، جتنی اس کے ساتھ ہوئی۔۔

اس رات گنیں دوبارہ گرجنے لگیں، پہلے پہل صرف ان کی تھیں اور پہنچ مختصر تھی۔۔ بس ان کی گونج سے زمین ہلتی، جس سے مٹی اور پتھر گرنے لگتے تھے، جس سے ہمیں اذیت پہنچ رہی تھی ۔ اس کے بعد ہماری گنوں نے جواب دینا شروع کر دیا— میں پرانی اصطلاح، ہماری اور ان کی، استعمال کر رہا ہوں۔۔ صرف اپنے مفہوم کی وضاحت کے لئے— جلد ہی دونوں اس بنجر علاقے پر زیادہ دھماکہ خیز مواد کی تہہ بچھا نے لگے، کیونکہ دونوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ دوسرا فریق ابھی بھی مورچہ بند ہے یا نہیں۔ آپ جانتے ہیں اس وقت اقوام متحدہ بموں اور گولوں کے حوالے سے کس قدر حساس تھی۔۔ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کرنا چاہتی تھی۔۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔

کیا آپ کبھی نشان زدہ علاقے میں جاسوس بنے ہیں، جیسے اس وقت ہم تھے۔۔ یہ سلسلہ ساری رات شدت سے جاری رہا اور دن ہونے کے ساتھ ہی بمباری والے بھی پہنچ گئے۔ایک کے بعد ایک پرواز۔۔ زمین کانپ اور کراہ رہی تھی، ہماری دیواریں ہم پر جھک گئیں۔۔ لیکن ہم نے اس پناہ گاہ سے باہر نکلنے کی جرأت نہیں کی۔۔ ہم صرف کھود کر اپنے آپ کو آزاد کرا سکتے تھے اور اس سب کے ختم ہونے کا انتظار۔۔ اور وہ ختم نہیں ہوئی۔ طلوعِ سحر کے وقت ہماری آگ بجھ گئی، ہم پورا دن ایندھن اکٹھا نہیں کر سکے تھے اور نہ ہی ملبے سے پانی کی بوتل نکال سکے۔ ہم مل کر راکھ میں لڑھک گئے، ہمارے کپڑے جھلس گئے، لیکن ہم گرم نہ ہوئے۔ ہم اپنے جلنے کی بُو سونگھ رہے تھے، جب کہ ہم ٹھنڈ سے آہستہ آہستہ مر رہے تھے۔۔

ایسا ہی ایک اور دن اور رات تھی۔۔ کیا آپ نے سن لیا؟ اگر ہم ایک دوسرے سے دو عاشقوں کی طرح چمٹ نہ جاتے تو ہم دونوں ہی مر چکے ہوتے۔۔۔

میں نے اس سے ایسے پیار کیا، جیسا آپ اس سے کرتے ہیں، جس کے لئے آپ نے بے حد کوشش کی ہو اور اس نے مجھ سے اپنے خونی رشتے کی طرح محبت کی۔۔ اور مجھ میں زندگی کی رمق برقرار رکھنے کے لئے شدید جدوجہد کی۔۔۔

اگلے دن بالکل خاموشی چھا گئی۔ صرف چند جہازوں نے علاقے کی گشت کی۔ ایسا لگا، جیسے دونوں اطراف کو یقین ہو گیا تھا کہ علاقہ خالی ہے۔ ہم اپنے بل سے نیند میں چلنے والوں کی طرح باہر نکلے اور آخری آگ کے لئے کافی ایندھن اکٹھا کیا۔ اپنے آدھا مردہ جسم اور مکمل سُن بدن کو متحرک رکھ کر پگھلایا۔ ہمارے دماغوں کے اندر کا شور کبھی نہیں تھما، تاہم یہ ہماری سست حرکات کی آواز سننے میں مخل نہیں ہوا۔ شاید ہم دو مختلف سطحوں پر جی رہے تھے۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، نہ ہی پانی تھا، لیکن ہم چلنے کے قابل تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ہمیں اپنے لوگوں میں واپس جانا ہو گا۔۔ لیکن یہ بات متناقضہ (Paradox) تھی۔۔ کہ کوئی بھی شخص کبھی میرا نہیں تھا، جیسے ’وہ‘ میرا تھا۔۔ اپنے اس دشمن کا تقابل کرنے پر میری کمپنی کے آدمی میرے لئے مختلف زبان بولنے والے اجنبی تھے۔

کچھ دیر اکٹھے چلنے کے بعد ، ہم تقریباً صبح دس بجے الگ ہوئے۔ وہ اس زمین سے بہتر واقف تھا، اس کا دماغ صحیح کام کر رہا تھا۔ اس نے اپنے بازو کے پُرزور اشارے کے ساتھ مجھے میرے رستے پر روانہ کیا۔۔ اور میرے سامنے رسماً جھکا، میں نے اس کا جواب دیا۔ تب ہم اپنے درمیان کی خاموشی، جو اس سارے عرصے میں ہماری گفتگو تھی، کو توڑے بغیر اپنے اپنے رستے پر چل دیے۔۔۔

میں سورج غروب ہونے کے رخ پر کئی گھنٹے پھرتا رہا۔۔ تب میرا رابطہ ایک گشتی دستے سے ہو گیا اور ان کے ساتھ کیمپ واپس پہنچ گیا ۔ اس کے بعد یوں لگتا، جیسے یہ سب کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک خاص رویہ آپ پر غالب آ جاتا ہے، جب آپ اس زمین پر واپس آ جاتے ہیں، جس پر آپ اسے جائز سمجھتے ہیں ۔ میں بیمار بھی نہیں ہوا ۔ وہ دوبارہ اسی علاقے کی طرف آگے بڑھنے لگے، اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔۔ مجھے یہ سب اس وقت قطعاً مضحکہ خیز نہیں لگا۔ لیکن اس بحال شدہ معمول کے باوجود ’وہ‘ میرے اندر موجود تھا۔

رات کو ابتدائی تحقیق کے لئے بھیجے گئے گشتی دستے کے ساتھ میں بھی تھا، ہماری ان کے ایسے ہی دستے سے مڈ بھیڑ ہو گئی، لیکن کچھ ہوا نہیں، وہ اپنے رستے نکل گئے اور ہم اپنے۔۔ لیکن یہ مڈبھیڑ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوئی۔ بالکل اچانک ایک آدمی تاریکی سے اچھل کر میرے سامنے نمودار ہوا۔۔ اور یہ ’وہ‘ تھا۔۔۔ میں نے اسے پہچان لیا اور میں نے اسے گولی مار دی۔۔۔

میں نے بہت دفعہ اس واقعہ کے بارے میں سوچا کہ یہ سب کچھ کس ترتیب سے ہوا۔۔ اس کی تیار رائفل اس کے پاس تھی، لیکن اس نے فائر نہیں کیا۔۔ میں اس بارے میں بہت حیران رہا۔۔ کیا اس نے مجھے نہیں پہچانا؟ اور اسے ٹریگر دبانے کا موقع نہیں ملا؟ یا اس نے مجھے پہچان لیا اور گولی چلانا چاہتا تھا لیکن اپنے آپ کو بچانے میں دیر کر دی؟ یا اس نے مجھے پہچان لیا اور جان بوجھ کر باز رہا؟

آپ میری مشکل سمجھ رہے ہیں۔۔۔ میں نے یہ متعین کرنے کی کوشش کی کہ آیا میں نے پہلے پہچانا یا جبلتاً انگلی پہلے دب گئی۔ میں سوچتا ہوں میں نے فائر کرنے سے پہلے پہچان لیا تھا ، پھر بھی میں نے فائر کیا۔۔ میں ایک مخصوص طریقے پر ردعمل دینے پر سدھایا ہوا تھا۔۔ اس نے وہ کپڑے پہن رکھے تھے، جن کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ میں نے گولی چلانی ہے اور میں نے گولی چلا دی۔۔

پہچان/شناخت، اگرچہ فوری تھی، لیکن اسے سوچ کا حصہ بننا پڑتا ہے اور سوچ بہت سست تھی۔۔۔

مجھے یقین ہے، میں ایماندار ہوں اور یہی سچ ہے۔۔ تاہم اب یہ اہم نہیں رہا۔۔ یہ اس لمحے سے متعلق تھا اور پھر وہ ایک زیادہ بڑی چیز کا حصہ بن گیا۔۔

وہ گرا اور خاموش لیٹ گیا۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ مر چکا تھا۔۔

میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔۔ وہ ایک لمحہ شدید ذاتی دکھ اور پچھتاوے کا تھا، لیکن میں بہت جلد اس سے نکل آیا۔کیونکہ میرے اندر کچھ ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ ابتدا ہی سے نا گزیر تھا، ایسا تجربے کی کاملیت کے لئے ضروری تھا کہ میں اسے قتل کروں گا یا وہ مجھے کرے گا۔ ہم سوچنے والی مخلوق نہیں تھے۔۔ تب میں نے سوچنے کے لئے یہ سمجھنا شروع کیا کہ ہوا کیا تھا۔۔ تب اس بیج نے، جو زمین میں دفن ہو گیا ہوتا، پھوٹنا شروع کر دیا۔ شاید اسے ہم دونوں میں سے کسی ایک کا خون چاہیے تھا۔۔ اور اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ ہم میں سے کون۔۔۔ ہم ایک ہی گوشت پوست تھے۔

میی نہیں جانتا کہ مجھے بقا پر یقین ہے، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میرا اس سے اختلاف نہیں اور یہ میرے لئے کافی ہے۔۔ میں یہ جانتا ہوں کہ جب تک میرا وجود ہے، وہ بھی موجود ہے۔۔ اور جب وہ برداشت کرتا ہے تو میں برداشت کرتا ہوں۔۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کبھی بھی میری مرضی یا خواہش نہیں تھی کہ میں اسے قتل کروں۔۔ اور مذید یہ، کہ اس کے اندر جو میرے وجود کا حصہ تھا، وہ برقرار تھا، جب میں نے اسے گولی ماری۔۔ اور جو میں جانتا ہوں، وہ بھی جانتا تھا۔۔ میرا کوئی لفظ بھی ہمارے دہرے پن اور اتحاد کے پیچیدہ تضاد کو نہیں سمجھا سکتا۔۔۔

اسی رات جب ہم واپس کیمپ پہنچے تو میں نے بڑی خاموشی سے تاریکی میں اپنے آپ کو الگ کیا اور ان سے دور چلا گیا۔

میں نے اپنی رائفل ایک گڑھے میں پھینک دی اور خالی ہاتھ دشمن کی جانب چل پڑا ۔ کافی دیر بعد مجھ پر فائر ہوا۔ میں نے اپنے خالی ہاتھ انہیں دکھائے اور چلتا رہا۔۔انہوں نے مجھے قیدی کے طور پر تسلیم کر لیا۔ یہ فرار تھا۔۔ میں جانتا ہوں۔۔ اور میرے اچھے تربیت یافتہ شعور کے لئے فرار اجنبی تھا؛ لیکن یہی وہ واحد یقینی رستہ تھا، جس کا میں سوچ سکتا تھا کہ ایسا دوبارہ نہیں کرنا پڑے گا۔۔

اب ہم تقریباً پہنچ چکے ہیں، جنرل، جس طرح کے شخص آپ ہیں، میری موجودہ حیثیت کے بارے میں آپ ہی بہتر دیکھ سکتے ہیں۔ میں ایک سال تک جنگی قیدی تھا۔ جنگ بندی نے مجھے باقی سب کے ساتھ آپ کے حوالے کیا۔ میرا خیال ہے میرا کیمپ میں قیام مفید رہا۔ وہاں پابندیاں تھیں، سختیاں تھیں، لیکن میرے پاس بندوق نہیں تھی اور میں پہلی دفعہ اپنے آپ میں تھا۔۔۔ اور جب مجھ سے سوال پوچھنے کی باری آئی، تو میں نے واپس انگلینڈ بھیجے جانے سے منع کر دیا۔کسی بھی دوسرے ملک جانے سے بھی انکار کر دیا۔۔ صرف اور صرف یہاں ہی رہنے کی خواہش ظاہر کی، جہاں میں ہوں اور یہیں رہنا چاہتا ہوں، جیسے میں چاہوں۔۔

میں کیوں کسی کو تکلیف دوں کہ وہ مجھے پوری دنیا میں پہنچائے۔۔ یا ہفتوں سفر میں وقت ضائع کریں، کیوں۔۔تاکہ میں گھر پہنچ جاؤں!؟ میں گھر پر ہی ہوں۔۔ اس لئے نہیں کہ یہ ’اُس‘ کا ملک ہے- مجھے غلط مت سمجھیں، اس میں کوئی سرشاری یا وقف شدہ جذبہ نہیں- لیکن میرا گھر وہی ہے، جہاں میں ہوں۔۔ وقت کے کسی بھی لمحے میں، کسی بھی جگہ۔۔ میرے لئے زبان کی کوئی پابندی نہیں۔ سرحدیں مجھے پابند نہیں کر سکتیں۔۔ جی، جی، مجھ سے نفرت کی جا سکتی ہے، یہاں یا کہیں بھی۔۔ میں قتل بھی ہو سکتا ہوں، اگر ضروری ہو۔۔ متنوع ہر جگہ خطرے میں ہوتا ہے، بغیر کسی ملک یا قومیت کے انسان اچھوت ہوتا ہے۔۔ میں قتل ہو سکتا ہوں، لیکن اب مجھے کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔۔ اور جب تک میں زندہ ہوں۔۔ کام اور لوگ ہر جگہ ہیں، یہاں اور کسی بھی دوسری جگہ۔۔۔

انہیں بتائیں، اگر وہ آپ سے پوچھیں، اگر وہ کہیں کہ میں نے وفاداری تبدیل کر لی ہے، میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ کسی کی طرفداری کرنا ممکن ہے۔ اگر وہ چِلائیں کہ میں نے اپنے دوستوں اور خاندان کو چھوڑ دیا ہے ، تو بتائیں کہ وہ یہاں میرے ساتھ ہیں ۔ میرا خاندان وہ سب ہیں، جنہیں میری ضرورت ہے۔۔ اور جنہیں میں سڑکوں پر ملتا ہوں، وہ سب میرے دوست ہیں۔۔

انہیں یہ سب بتا دیں۔۔ میری خاطر نہیں، بلکہ انہیں بر وقت بتانا ضروری ہے کہ درحقیقت ایک ہی فریق ہے۔۔ انہیں بندوقوں سے کھیلنا چھوڑنا ہوگا۔۔ اس لیے کہ گولیاں مڑ کر واپس ضرور آتی ہیں۔۔ انہیں بتائیں، اگر وہ اپنے چولہوں تک دشمن کو رسائی نہیں دیں گے، تو بہت جلد ان کے پاس بھی ایندھن نہیں رہے گا۔۔ انہیں بتائیں، اگر وہ مل کر شکار کریں گے تو انہیں اتنا وافر ملے گا کہ وہ زندہ رہیں گے۔۔ اور اگر وہ ایک دوسرے کے بازوؤں میں سوئیں گے، تو وہ رات کی مار دینے والی ٹھنڈک سے بچے رہیں گے۔۔۔ اور اگر نہیں، تو مر جائیں گے۔۔۔ بس یہ اتنا ہی سادہ ہے!

لیکن میرا دفاع مت کرنا ،کہ میں سب سے حقیر، ظلم وستم کی شکار اقلیت میں شامل ہو گیا ہوں۔۔ میں یہودی، نیگرو، ایب اوریجنل (آسٹریلیا کے قدیم باشندے) ہوں۔۔ میں دشمن ہوں۔۔ میری نسل انسان کی نسل ہے۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close