نظام شمسی میں پانی کہاں سے آیا؟ ’گم شدہ کڑی‘ مل گئی

ویب ڈیسک

سائنسدانوں نے ایک دور دراز ستارے کے ارد گرد ہالے کی شکل میں گیس کی حالت میں موجود پانی کا مشاہدہ کرنے کے بعد حال ہی میں نظام شمسی میں پانی کے ماخذ کا پتہ چلانے کا دعویٰ کیا ہے، جسے وہ ’گمشدہ کڑی‘ کہتے ہیں

یہ مشاہدہ اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کرتا ہے کہ پانی ستارہ بنانے والے گیس کے بادلوں سے زمین جیسے سیاروں پر کیسے آیا ہوگا اور یہ اس نظریے کی تائید کرتا ہے کہ ہمارے چاروں طرف موجود پانی ہمارے سورج سے بھی پرانا ہے

امریکی خلائی ادارے ’نیشنل ریڈیو آسٹرونومی آبزرویٹری یو ایس اے‘ سے وابستہ ماہر فلکیات اور سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی قیادت کرنے والے مصنف جان جے ٹوبن نے بتایا ”اب ہم اپنے نظام شمسی میں سورج کی تشکیل سے پہلے پانی کی ابتدا کا پتہ لگانے کے قابل ہو گئے ہیں“

سائنسدانوں نے زمین سے تقریباً تیرہ سو نوری سال کے فاصلے پر موجود V883 Orionis نامی ستارے کے گرد ہالے کے مواد کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سیارہ بنانے والا یہ ہالہ ستارے کے ساتھ ہی وجود میں آتا ہے اور اس میں موجود مواد بالآخر سیاروں جیسی بڑی اشیا بنانے کے لیے اکٹھے ہونا شروع کر دے گا

سائنسدانوں نے اس مواد کے اندر گیس کی شکل میں پانی دیکھا۔ پانی کی ساخت کو دیکھ کر وہ یہ جان سکتے ہیں کہ یہ کب اور کہاں سے آیا تھا

یاد رہے کہ ماضی میں کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ نظام شمسی کے دم دار تاروں پر موجود پانی زمین سے ملتا جلتا ہے

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید پرانے دمدار تاروں نے اسے ہمارے سیارے تک پہنچایا ہو، لیکن اس عمل میں ایک گمشدہ ربط بھی تھا، جو نئے ستاروں کو دم دار تاروں سے جوڑتا ہے

جان جے ٹوبن کہتے ہیں ”V883 Orionis اس معاملے میں وہ گمشدہ لنک ہے“

اس سیارے کے ہالے میں پانی کی ساخت ہمارے اپنے نظام شمسی میں موجود دم دار تاروں کی طرح ہے

مزید ان نتائج سے اس نظریے کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ سیاروں کے نظاموں میں پانی سورج سے بھی پہلے اربوں سال قبل ستاروں کے درمیان خلا میں وجود میں آیا تھا اور دم دار تاروں اور زمین دونوں کو وراثت میں ملا ہے۔ یہ نظریہ نسبتاً تبدیل نہیں ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close