ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے ‘حیرت انگیز‘ معاہدے نے امریکہ کو گہری تشویش میں ڈال دیا ہے۔ خلیج کے دو دیرینہ حریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی سے جمعے کے روز سفارتی تعلقات بحال ہو جانے سے واشنگٹن میں یقیناً گہری بے چینی پائی جاتی ہے
دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے، لیکن عام طور پر وہ یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے
امریکہ کا یہ رسمی خیرمقدم دراصل چین کی اس اہم سفارتی کامیابی کو کم کر کے پیش کرنے کی کوشش ہے
جبکہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے ایک سابق اعلیٰ سفارت کار جیفری فیلٹ مین نے کہا کہ چھ برس کے بعد سفارت خانوں کو کُھلوانے میں چین کا کردار اس معاہدے کا اہم ترین پہلو ہے
خیال رہے کہ ایک طرف امریکہ اور چین کے درمیان تجارت سے لے کر جاسوسی تک جیسے امور پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں دوسری طرف دونوں دنیا کے مختلف ملکوں پر اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں
دنیا بھر میں خیرمقدم لیکن اسرائیل کو تشویش
مشرقی وسطیٰ کے دو حریف ممالک ایران اور سعودی عرب کے حکام کے درمیان بیجنگ میں چار روز سے خاموشی سے بات چیت چل رہی تھی۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا عرب ملکوں کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی خیرمقدم کیا ہے
عراق نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ‘ایک نیا باب شروع ہونے‘ کا خیرمقدم کیا۔ ترکیہ کی وزارت خارجہ کی طرف سے جارہ کردہ ایک بیان میں معاہدے کو مثبت اقدام قرار دیا گیا۔ عمان نے ریاض اور تہران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے سہ فریقی بیان کو خوش آئند قرار دیا۔ خلیجی تعاون کونسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امید ہے کہ یہ معاہدہ ”سلامتی اور امن کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا۔‘‘
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری خیر مقدمی بیان میں کہا گیا ہے ’’پاکستان کو یقین ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت خطے اور اس سے آگے بھی امن اور استحکام میں اہم کردار ادا کرے گی۔‘‘
ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا ہے کہ خلیجی خطے میں استحکام لانے کے لیے پڑوسی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ضروری ہیں
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے باوجود یو اے ای نے کہا کہ ایک مثبت علاقائی بات چیت سے اچھی ہمسائیگی میں اضافہ ہوگا۔ مصر نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ اس پیشرفت سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی
لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصراللہ نے خطے میں اس عظیم پیشرفت پر ردعمل کے بعد کہا: ‘یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، اس واقعہ سے ہماری مطمئن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اس پیشرفت سے لبنان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ خطے کے لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔’
مسٹر نصراللہ نے مزید کہا: ‘بلاشبہ ان دونوں ممالک کے درمیان صحت مند تعلقات سے نہ صرف ہمیں بلکہ یمن اور شام کے عوام اور عمومی طور پر مزاحمتی قوت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔’
تاہم اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس فیصلے کے حوالے سے نتن یاہو حکومت کو نشانہ بنایا ہے ساتھ ہی انھوں نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے
انھوں نے اس تبدیلی کو وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر يائير لپید نے کہا کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل اور خطرناک ناکامی ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنا کام کرنے کے بجائے قانون کے محاذ میں الجھ جائیں۔‘
اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے چینی ثالثی میں کرائے گئے اس معاہدے پر سابقہ حکومت اور امریکی صدر جو بائیڈن کو قصوروار ٹھہرایا ہے
جبکہ سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا اس معاہدے سے ایران کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے
ایران اور سعودی عرب کے مابین کیا معاہدہ ہوا؟
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے پر شائع ہونے والے اعلامیے کے مطابق سعودی عرب اور ایران نے چینی صدر شی جن پنگ کی سہولت کاری سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بہترین ہمسائیگی پر مبنی تعلقات پر اتفاق کیا ہے
مذاکرات میں سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العیبان اور ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی شامل تھے
اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات اور سفارت خانے کھولنے کا عمل دو مہینے کے اندر مکمل کر لیا جائے گا۔ دونوں ممالک نے سکیورٹی تعاون، تجارت، معیشت، ٹیکنالوجی، سائنس، کلچر، کھیلوں اور امور نوجوانان پر سال 2001 اور 1998 ء میں ہونے والے معاہدوں کی بحالی پر بھی اتفاق کیا ہے
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ معاہدے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی خودمختاری کے احترام اور دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا
دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ملاقات پر بھی اتفاق کیا گیا جبکہ باہمی تعلقات میں اضافے اور سفارت کاروں کی واپسی کے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ اعلامیے میں چین کے مسلسل مثبت کردار کی تعریف کی اور شکریہ ادا کیا گیا ہے
چین کا بڑھتا ہوا کردار
اس معاہدے کا اعلان ایسے وقت پر ہوا ہے، جب چند ہی گھنٹے قبل چینی صدر شی جن پنگ نے ریکارڈ تیسری مدت کے لیے صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اس معاہدے کو چین اور شی جن پنگ کی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاستوں میں چین کی بڑھتی ہوئی سفارتی مقبولیت اور اہم کامیابی کا مظہر بھی ہے
مذاکرات میں شامل چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی نے کہا کہ چین تمام ممالک کی خواہشات کے مطابق دنیا کو درپیش سنگین اور کشیدہ مسائل سے مناسب طریقے سے نمٹنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت اس وقت پریشان حال دنیا کے لیے بہت خوش آئند خبر ہے
وانگ نے کہا کہ دنیا کو صرف یوکرین کا مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے
امریکہ کیا سوچ رہا ہے؟
سابق صدر باراک اوبامہ کے دور میں مشرقی ایشیا کے لیے امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار ڈینیل رسل کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں سہولت کار کے طور پر چین کی شمولیت واشنگٹن کے لیے ’انتہائی اہم مضمرات‘ کی حامل ہے
رسل نے کہا کہ چین اگر کسی معاملے میں فریق نہ ہو تو بالعموم وہ اس تنازعے کو سفارتی طورپر حل کرنے کے لیے از خود کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ انہوں نے کہا ”سوال یہ ہے کہ کیا یہ آنے والے واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ کیا جب شی جن پنگ ماسکو کے دورے پر جائیں گے تو چین روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کرسکتا ہے۔‘‘
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے منسلک ایک ماہر برائن کاٹولس کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ امریکہ اور اسرائیل کو جوہری معاہدے پر تعطل کے شکار مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے غوروخوض کا ’ایک نیا ممکنہ راستہ‘ فراہم کرتا ہے
بات معاہدہ طے پانے تک کیسے پہنچی
گذشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ نے دورہ سعودی عرب کے دوران مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں
گذشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا، جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور عمان اور عراق کی جانب سے مذاکرات کے گذشتہ دور کی میزبانی کی تعریف کی
دونوں فریقین یعنی سعودی عرب اور ایران نے سنہ 2021 اور 2022 میں گذشتہ مذاکرات کی میزبانی کرنے پر چین کے ساتھ ساتھ عراق اور سلطنت عمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سنہ 2016 میں اس وقت منقطع ہو گئے تھے، جب ایران میں سعودی سفارتی ہیڈ کوارٹر پر ایرانی مظاہرین کے حملے کے بعد سعودی حکام نے سعودی شیعہ عالم نمر النمر کو پھانسی دے دی تھی
علی شمخانی نے ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے قریب سمجھی جانے والی ایک نیوز ویب سائٹ نورنیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’غلط فہمیوں کو دور کرنے اور تہران-ریاض تعلقات کے تحت مستقبل کی طرف دیکھنا یقینی طور پر علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دے گا اور خلیج فارس کے ممالک اور اسلامی دنیا کے درمیان تعاون میں اضافہ کرے گا۔‘
اثرات
ماہرین کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی دو بڑی حریف طاقتوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے نہ صرف علاقائی سیاست میں تبدیلیاں آئیں گی بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں مسلح تصادم کے خطرات بھی کم ہوں گے
دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی سے علاقائی تنازعات اور عالمی سیاست پر کیا اثر پڑے گا، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
یمن
سعودی عرب اور ایران دونوں ہی یمن کی سالہا سال سے جاری خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب 2015 میں یمن کے تنازع کا اس وقت فریق بنا تھا جب اس نے ملک کی جلاوطن حکومت کی حمایت کی۔ دوسری طرف ایران نے حوثی باغیوں کی حمایت کی جنہوں نے 2014 میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا
سفارت کار اس تنازعے کو ختم کرنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، جس نے دنیا کی بدترین انسانی آفات میں سے ایک کو جنم دیا ہے
یہ تنازع ریاض اور تہران کے درمیان "پراکسی” جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق سعودی عرب اور ایران معاہدہ تنازع کے خاتمے کی کوششوں کو آگے بڑھا سکتا ہے
ایران نے طویل عرصے سے طاقت ور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی حمایت کی ہے جب کہ سعودی عرب نے ملک کے سنی سیاسی رہنماؤں کی حمایت کی ہے
ریاض اور تہران کے درمیان کشیدگی کم ہونے سے دونوں ممالک لبنان میں سیاسی مفاہمت کی طرف کام کر سکتے ہیں۔ لبنان کو اس وقت غیر معمولی مالیاتی بحران کا سامنا ہے
شام
ایران نے اس طویل جنگ میں شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کی ہے۔ اس کے مقابلے میں سعودی عرب نے ان باغیوں کی حمایت کی ہے جو اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے خواہاں ہیں
لیکن حالیہ مہینوں میں خاص طور پر شام اور ترکیہ میں تباہ کن زلزلے کے بعد عرب ممالک اسد حکومت کے قریب آگئے ہیں
ماہرین کے مطابق جمعے کو ہونے والے اس معاہدے سے ریاض اور بشارالاسد حکومت کی قربتیں بڑھ سکتی ہیں اور اس سے لامحالہ بشار الاسد کی ‘آمرانہ’ حکومت مضبوط ہو سکتی ہے
ایران
ایران کو عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے۔ سعودی ایران معاہدہ تہران کو پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے نئی راہیں فراہم کر سکتا ہے
پہلے ہی ایران نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے اور تہران نے ماسکو کو یوکرین کے خلاف جنگ میں ڈرونز بھی فراہم کیے ہیں
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات کے باعث مملکت کو خام تیل پر انحصار سے دور کرنے کے لیے میگا پروجیکٹس پر دسیوں ارب ڈالر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں سرحد پار حملوں کے بارے میں فکر مند رہنا ان منصوبوں کو مزید شک میں ڈال دیتا ہے۔ لہذٰا اس معاہدے سے وہ اطمینان کے ساتھ اپنے ویژن کو آگے بڑھا سکیں گے۔