عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سے اپنی معزولی کے وقت اسے ’بیرونی سازش‘ قرار دیا تھا، ان کی معزولی کے بعد قائم ہونے والی کثیر الجماعتی حکومت کے زعماء نے ان کے اس بیان کو مسترد کر دیا تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اب پی ڈی ایم حکومت کو بھی اپنے خلاف ’بیرونی سازش‘ کی بُو آنے لگی ہے
گزشتہ روز پاکستان کے دفتر خارجہ نے سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے ”بین الاقوامی لابیئسٹ پاکستان میں خانہ جنگی کرانے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں اور یہ (زلمے کی) ٹویٹ اسی ’منصوبے‘ کی کڑی ہے“
دفتر خارجہ نے گذشتہ ہفتے زلمے خلیل زاد کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا ”پاکستان کو آج درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کسی سے لیکچرز یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک لچکدار قوم کے طور پر ہم موجودہ مشکل صورت حال سے مضبوطی سے نکلیں گے“
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے زلمے خلیل زاد کے بدھ کو دیے گئے ٹویٹ کی مذمت کرتے ہوئے اپنے تند و تیز ردعمل میں کہا ”امریکی سازش اور امپورٹڈ رجیم کی اصلیت سامنے آ گئی ہے، ’یہودی لابی‘ اپنا اسٹوج بچانے کے لیے سامنے آ چکی ہے، ’فارن فنڈنگ کے مجرم‘ کے ’ہینڈلرز‘ سامنے آتے جا رہے ہیں“
دفتر خارجہ اور وفاقی وزیر اطلاعات کے اس موقف کے برعکس سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے عمران خان کے ’حق‘ میں بیانات کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان میں امریکی امیج بہتر بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے
اسی حوالے سے سابق سفیر عبدالباسط نے کہتے ہیں ”شاید زلمے خلیل زاد پاکستان میں امریکہ کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں“
واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد نے اپنی بدھ کی ٹویٹ میں کہا تھا ”ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ، جس پر حکومتی اتحاد کا کنٹرول ہے، سپریم کورٹ سے عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دینے اور پی ٹی آئی کو اگلے چند دنوں میں منع کرنے کے لیے بھی کہہ سکتی ہے“
انہوں نے مزید کہا ”ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پاکستان کے تین بحرانوں کو مزید گہرا کریں گے: سیاسی، اقتصادی اور سلامتی۔ پہلے ہی کچھ ممالک نے منصوبہ بندی سرمایہ کاری کو معطل کر دیا ہے“
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا ”اگر مذکورہ اقدامات کیے گئے تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت میں مزید کمی آئے گی۔ سیاسی پولارائزیشن اور تشدد بڑھنے کا امکان ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاسی رہنما تباہ کن سطحی سیاست سے اوپر اٹھیں گے، جو قومی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر نہیں تو مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ ایسے کھیلوں میں استعمال ہونے سے منع کرے گی، جو قوم کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مجھے پاکستان کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے“
زلمے خلیل زاد کی یہ ٹویٹ گذشتہ ہفتے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی عدالت میں پیشی، لاہور میں گرفتاری، ان کی رہائش گاہ پر پولیس کے دھاوے، پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد، گرفتاری اور گھروں پر اندھا دھند چھاپوں کے موقعے پر منظر عام پر آئی تھی، جس پر بعد ازاں دفتر خارجہ نے ردعمل دیا
زلمے خلیل زاد نے پہلی ٹویٹ میں کہا تھا ”پاکستان کو تہرے بحران کا سامنا ہے, سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی۔ بڑی صلاحیت کے باوجود یہ کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنے حریف بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ یہ سنجیدہ روح کی تلاش، جرات مندانہ سوچ، اور حکمت عملی کا وقت ہے۔ یہاں یہ میرے خیالات ہیں“
انہوں نے مزید لکھا تھا ”لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنے، پھانسی دینے، قتل کرنے وغیرہ کے ذریعے نسل کشی کرنا غلط راستہ ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے بحران مزید گہرا ہوگا۔ میں دو اقدامات پر زور دیتا ہوں: نمبر ایک، خرابی کو روکنے کے لیے جون کے اوائل میں قومی انتخابات کے لیے ایک تاریخ مقرر کریں۔ نمبر دو، اس وقت کو اہم سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال کریں کہ کیا غلط ہوا ہے اور ملک کو بچانے اور استحکام، سلامتی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک مخصوص منصوبہ تجویز کریں۔ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے گی اسے عوام کا مینڈیٹ ملے گا کہ کیا کرنا چاہیے“
زلمے خلیل زاد امریکی سیاست سے تعلق رکھنے والے واحد شخصیت نہیں ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی بحران پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہو۔ امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین اور سینیٹر جیکی روزن بھی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر حال ہی میں اپنی آرا کا اظہار کر چکے ہیں
امریکی سینیٹر جیکی روزن نے بھی 22 مارچ کو ہی ٹوئٹر پر لکھا ”مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے اور میں تمام پارٹیوں سے کہتی ہوں کہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں اور قانون اور جمہوریت کی پاسداری کریں“
جبکہ اس سے قبل امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین نے 14 مارچ کو عمران خان کی تقاریر پر پابندی کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا
ان کے علاوہ آسٹریلوی سینیٹر ڈیوڈ شوبرج نے بھی عمران خان کی گرفتاری کے موقعے پر ٹویٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا ”ہم حکومتِ پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کے انسانی حقوق کو برقرار رکھے اور آزادیِ اظہار اور پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ تشدد کی بڑھتی ہوئی رپورٹیں گہری تشویش کا باعث ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے“
کئی ممالک میں پاکستان کے سابق سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دینے والے عبد الباسط اس حوالے سے کہتے ہیں ”زلمے خلیل زاد کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ ریٹائرڈ ہیں، اس لیے ان کو امریکہ کا سرکاری موقف نہیں کہا جا سکتا، لیکن زلمے خلیل زاد امریکی طاقتور حلقوں سے رابطے میں ضرور ہیں۔ اس لیے اس کو لابی کہا جا سکتا ہے اور اس طرح کے بیانات سے بےیقینی بھی پیدا ہوتی ہے“
عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیرونی سازش کے بیانیے کے بعد زلمے خلیل زاد پاکستان میں شاید امریکہ کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں
واضح رہے کہ گذشتہ برس اپریل میں اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد عمران خان اور تحریکِ انصاف کے دیگر رہنما اپنی حکومت کا تختہ الٹنے/ رجیم چینج کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے رہے ہیں، جس کے بعد ’Absolutely Not‘ کے نام سے ایک مہم بھی شروع کی گئی اور یہ نعرہ آج بھی گاڑیوں پر لکھا نظر آتا ہے۔ تاہم اب عمران خان فوج کو اپنی معزولی کا محرک قرار دیتے رہے ہیں
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے لکھا کہ ”پاکستان کی صورتحال پرتشویش بڑھ رہی ہے۔ زلمے خلیل زاد، سینیٹر جیکی روزن، کانگریس میں مائیک لوون اور امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق پر رپورٹ پاکستان میں گرفتاریوں اور تشدد پر شدید تشویش ظاہر کر رہی ہے، پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہے۔ سعودی عرب اور امارات جیسے دوست ملک فاصلے پر ہیں“
صحافی مبشر زیدی کے مطابق ”زلمے خلیل زاد افغانستان میں ناکام ہوئے۔ اس وقت وہ امریکہ میں کارنرڈ ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں“
اس سوال پر کہ آیا امریکی شخصیات کے بیانات پی ٹی آئی کی کسی باقاعدہ لابنگ کا نتیجہ ہیں؟ تو پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا ”اوورسیز پاکستانی جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے اپنے سینیٹرز سے خود بات کر رہے ہیں اور اُن کو ای میل کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ایسے مزید بیانات بھی سامنے آئیں گے۔ کسٹوڈیل ٹارچر (دورانِ حراست تشدد) کا معاملہ کافی سنگین ہے اور پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہے۔ ایسی ہی صورتحال رہی تو ہمیں عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کرنا پڑ سکتا ہے“
جب فواد چوہدری سے سوال کیا گیا کہ کیا ایسے بیانات کو وہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں سمجھتے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجودہ صورتحال تشویشناک ہے اور یہ تنقید درست نہیں کہ تحریک انصاف اندرونی معاملات میں مداخلت کا خیر مقدم کر رہی ہے
انہوں نے کہا ”انسانی حقوق کی اس قسم کی خلاف ورزی جنرل ضیا کے دور کے علاوہ کبھی نہیں ہوئیں، ایسی مثال ہی نہیں ملتی۔ ہم نے بدترین ادوار میں بھی ایسا تشدد نہیں دیکھا، جب اتنے جعلی کیسز بنائے گئے ہوں، اس بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہوں“