گذشتہ رام نومی تہوار کی طرح اس مرتبہ پھر سے انڈیا کے کئی حصوں میں تشدد اور نفرت انگیز تقاریر کی واپسی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر متشدد یا اشتعال انگیز تقریروں کی متعدد ویڈیوز وائرل ہیں
ہندو مذہبی تہوار ’رام نومی‘ کے دوران کم از کم آٹھ ریاستوں میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد اتوار کو مشرقی بھارت کے کچھ حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات اور موبائل اور انٹرنیٹ سروس منقطع کر دی گئیں
پولیس کے مطابق ریاست بہار کے ہندو اکثریتی قصبے میں مسلمانوں کے ساتھ ’تصادم‘ کے بعد ہفتے کو نالندہ ضلع میں ایک شخص کو گولی مار دی گئی
اس سے قبل ہندو ہجوم نے ’رام نومی‘ کی تقریبات کے دوران مسلمانوں پر حملے کیے اور ان کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگا دی
واضح رہے کہ اس وقت سوشل میڈیا میں ایسی متعدد وڈیوز وائرل ہیں، جن میں مسجدوں کے باہر دیر تک کھڑے ہو کر مبینہ طور پر اشتعال انگیز نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے
30 مارچ یعنی رام نومی (ہندو دیوتا رام کی پیدائش کا جشن) کے روز کی ایک وائرل فوٹیج میں حیدرآباد میں کپڑوں سے ڈھکی ایک مسجد نظر آ رہی ہے۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زعفرانی جھنڈے والا ایک جلوس اس مسجد کے سامنے آ کر رکتا ہے اور اونچی گاڑی میں سوار ایک شخص تقریر شروع کر دیتا ہے
تقریر کرنے والے شخص بی جے پی کے معطل رکن ٹی راجہ سنگھ ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں ”ایک دھکہ لگا تھا، آج ایودھیا میں رام مندر بن رہا ہے۔ آنے والے وقت میں ایک اور دھکہ لگے گا اور متھرا میں ایک اور عالیشان مندر تعمیر ہوگا۔ ایک اور دھکہ لگے گا اور کاشی (بنارس) میں بھی ایک مندر بنے گا“
ان کی حمایت میں نعرے لگانے والے ہجوم کے ہنگامے کے درمیان وہ مزید کہتے ہیں ”سننے والو، کان کھول کر سن لو۔ راجہ سنگھ کسی کے باپ سے ڈرنے والا نہیں ہے“
یاد رہے کہ انہیں اس سے قبل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی پارٹی بی جے پی نے انھیں معطل کر دیا تھا۔ لیکن ان کی تفرقہ انگیز تقریریں آج بھی جاری ہیں اور حال ہی میں مہاراشٹر میں اشتعال انگیز تقریر کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا
لیکن اس طرح کی تقریریں کرنے والے وہ ملک میں اکیلے نہیں ہیں۔ بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی کی اہم قیادت مسلم دشمنی کی سیاست کو اپنا شیوہ بنائے ہوئے ہے
بھارت میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے دوران ہندو تہواروں میں اب سینکڑوں لوگ تلواروں، بندوقوں اور بھالوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعروں اور ساؤنڈ سسٹم پر مذہبی موسیقی بجاتے ہوئے مسلم محلوں میں مارچ کرتے ہیں
بعض مسلم شخصیات کا کہنا ہے کہ بہار میں مسلمانوں کے مکانات کو ہدف بنا کر نذر آتش کیا گیا
انسانی حقوق کے کارکنوں نے پرتشدد کارروائیوں پر اظہار افسوس کیا ہے اور اس کے لیے انتظامیہ کی سستی اور ناکارکردگی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے
انسانی حقوق کے کارکن، سابق رکن پارلیمان اور ’انڈین مسلم فار سول رائٹس‘ کے صدر محمد ادیب کا کہنا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے لہٰذا جان بوجھ کر اس قسم کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں تاکہ حکمراں جماعت کو انتخابات میں فائدہ پہنچے۔ ان کے بقول یہ 2024 کے عام انتخابات کی تیاری ہے
انہوں نے کہا کہ اب تک رام نومی کے موقع پر مندروں میں پوجا ہوتی رہی ہے، لیکن اب جلوس نکالا جاتا ہے اور مسجدوں کے سامنے ٹھہر کر تلواریں لہرائی جاتی ہیں
محمد ادیب کے مطابق ان شرپسندوں کو انتظامیہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اشتعال انگیزی پر اعتراض کیا جائے یا کوئی ایک پتھر پھینک دے تو کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے مذہبی جلوس پر پتھراؤ کیا۔
ان کے مطابق بہار شریف میں مسلمانوں کی دکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ دو روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کی ویڈیوز منگوا کر دیکھی ہیں جن میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے سامنے گھنٹوں نعرے بازی کی گئی اور تلواریں لہرائی گئیں
بہار پولیس کے سربراہ شبلی نعمانی کے مطابق جمعرات کو شروع ہونے والے تشدد کی لہر میں تقریباً ایک سو افراد کو اس وقت حراست میں لیا گیا ہے، جب ہزاروں ہندو سڑکوں پر نکل آئے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں اشتعال انگیز طور پر مارچ کرنے لگے
بہار کے دو دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کی فرقہ وارانہ جھڑپوں کی اطلاعات ملیں۔ روہتاس شہر میں تشدد کے بعد پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس ضلع میں ایک گھر کے اندر دھماکے میں چھ افراد زخمی ہوئے جہاں دو افراد مبینہ طور پر بم بنا رہے تھے
جمعرات کو ہندو تہوار کے بعد حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ تشدد نے سات دیگر ریاستوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا جہاں کم از کم تیرہ قصبوں اور شہروں میں درجنوں مسلمان زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا
ان متاثرہ ریاستوں میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور مغربی بنگال کا ہاوڑہ علاقہ شامل ہیں، جہاں جمعرات کو ہندو ہجوم نے توڑ پھوڑ کی اور مسلمانوں کی گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی پر اس تشدد کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا۔ بی جے پی نے جواب میں ممتا پر ہندوؤں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے
جمعرات کو بھارتی وزیراعظم مودی کی آبائی ریاست گجرات میں اسی طرح کے تشدد کی اطلاعات ملی تھیں جب کہ مہاراشٹر کے مغربی علاقے اورنگ آباد کے ساتھ وڈودرا میں بھی جھڑپیں ہوئیں
ناقدین کا کہنا ہے کہ 2002 میں ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی کی حکومت میں مسلم کش فسادات کے بعد 2014 میں ان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے سخت گیر ہندو گروپوں کو شہہ ملی ہے اور وہ کھلم کھلا مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں
گذشتہ سال بھی رام نومی کے موقع پر نئی دہلی اور جھارکھنڈ ریاستوں کے کئی شہروں میں اسی طرح کی جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا
رپورٹس کے مطابق مختلف ریاستوں میں انتظامیہ کی جانب سے جلوس نکالنے کی اجازت نہ دیے جانے کے باوجود جلوس نکالے گئے۔ دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں جہاں گزشتہ سال اسی موقع پر تشدد برپا ہوا تھا، پولیس کی اجازت کے بغیر جلوس نکالا گیا اور رپورٹس کے مطابق پولیس نے نہ تو کسی کے خلاف رپورٹ درج کی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا
محمد ادیب کے مطابق مغربی بنگال کے ہوڑہ اور دیگر علاقوں میں ہونے والے تشدد کے الزام میں پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ جن کو بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی ذیلی تنظیموں کے رکن ہیں۔
بی جے پی کے لوگوں کو ہندو بلوائیوں کی ان گرفتاریوں پر اعتراض ہے
محمد ادیب کا کہنا تھا کہ 2014 کے بعد عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ملک میں تمام مسائل کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ اسی لیے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کیا جاتا ہے اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی
امت شاہ کی جانب سے گورنر سے بات کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ریاست کے حکمراں محاذ میں شامل راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کا کہنا ہے کہ امت شاہ کو بہار کی فکر نہیں ہے بلکہ ریاست کی چالیس لوک سبھا نشستوں کی فکر ہے
یاد رہے کہ گذشتہ برس بھی کم از کم نو ریاستوں میں رام نومی اور ہنومان جینتی (ہندو دیوتا ہنومان کے پیدائش کا جشن) کی تقریبات کے موقع پر پرتشدد واقعات ہوئے تھے، جن میں ایک سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے
ان پُرتشدد واقعات کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟
سنہ 2020 میں مسلم علاقوں سے گزرنے والی ہندو عقیدے کے لوگوں کی یاترا کے بعد پھوٹنے والے تشدد کے بارے میں ’سٹیزین اینڈ لائرز اینیشیٹیو‘ کی طرف سے مرتب کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے تمام معاملات میں تشدد کا محرک ایک ہی تھا: ’رام نومی اور ہنومان جینتی کے ہندو تہوار منانے والے مذہبی جلوس۔ اور اس کے بعد مسلمانوں کی ملکیتی املاک، کاروبار اور عبادت گاہوں پر ٹارگٹڈ حملہ ہوا‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارت میں رام نومی جیسے مذہبی تہواروں کی آڑ میں ہجومی تشدد دیکھا گیا ہے لیکن یہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیاد بڑے اور بظاہر مربوط پیمانے پر ہوا ہے
اس طرح کے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹر صارف نے لکھا کہ ’ہندو تہوار بھارت کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہندو تہوار رامنومی کی تقریب کے نام پر مسجد کے سامنے رقص، مسلم مخالف نعرے اور ہتھیاروں کو بلند کرنا عام ہو گیا ہے‘۔
دوسری جانب کچھ ٹوئٹر صارفین اور ہندو رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ ہندو تہوار حملے کی زد میں ہیں۔
وکلا، سابق ججوں اور شہریوں کے ذریعے تیار کی گئی مذکورہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر کسی ایک عنصر کو مذہبی جلوسوں سے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے مہمیز کے طور پر دیکھا جائے تو یہ وہ راستہ ہوگا جو منتظمین اس قسم کے جلوسوں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔‘
’تشدد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے جلوس اکثر مسلمان اکثریت والے علاقوں سے گزرتے ہیں اور اکثر مسلمانوں کے گھروں یا مساجد کے سامنے رک کر اونچی آواز میں توہین آمیز گانے یا نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں جو کہ تشدد کی وجہ بنتی ہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق ’پچھلے سال کے رام نومی اور ہنومان جینتی کے جلوسوں سے منسلک تشدد میں سو سے زیادہ گھروں اور دکانوں کو تباہ یا جلا دیا گیا، ہر شہر میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور متعدد عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا گیا یا توڑ پھوڑ کی گئی۔‘
لیکن تشدد کے بعد حکام کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال (یعنی 2022 ) کے بعد ان میں سے کچھ شہروں اور قصبوں میں فوری طور پر حکومت کی طرف سے کارروائی ہوئی تا کہ ان لوگوں کو سزا دی جا سکے جنھیں ریاست ’فسادی‘ یا ‘سماج مخالف‘ عناصر قرار دیتی ہے
رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بھارت مسلسل تشدد کے دھانے پر پہنچ گیا ہے
مذہبی جلوسوں کے دوران ہونے والے حالیہ تشدد یا گزشتہ سال ہونے والے اس طرح کے متشدد واقعات پہلی بار نہیں ہوئے ہیں بلکہ انڈیا میں ایسے تشدد کی ایک تاریخ ہے جو مذہبی ریلیوں کے دوران یا ان کے انعقاد کے بعد ہوئے ہیں۔
ہندو جلوسوں کے مسلم علاقوں میں اونچی آواز میں موسیقی بجانے کے واقعات 1920 کی دہائی سے ہو رہے ہیں جب ہندو دائیں بازو کے رہنماؤں نے ناگپور جیسے مقامات پر مساجد کے سامنے ریلیاں نکالنے اور موسیقی بجانے پر اصرار کیا تھا۔
دوسری مثالوں میں، ’شولاپور میں فرقہ وارانہ گڑبڑ پر تحقیقاتی کمیشن- 17 ستمبر 1967‘ نامی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1925 اور 1927 میں ’گنپتی وسرجن جلوسوں‘ کے سلسلے میں نکالے جانے والے ’رتھ جلوسوں‘ کے موقعوں پر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
اور 1939 میں آریہ سماج کے ایک جلوس کے دوران قابل اعتراض نعرے لگانے کے بعد چاقو مارنے کے 18 واقعات سامنے آئے تھے۔
سنہ 1970 میں مہاراشٹر کے دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے جلوسوں کے ایک مسجد کے سامنے سے گزرنے پر اصرار کرنے کے نتیجے میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 1989 میں جمشید پور میں ہندو دائیں بازو نے رام نومی کے جلوس کو بھیڑ والے مسلم علاقے سے لے جانے پر اصرار کیا، حالانکہ حکام نے ان سے متبادل راستہ اختیار کرنے کو کہا تھا لیکن جلوس کا پھر بھی انعقاد کیا گیا اور اس کی وجہ سے تشدد کے نتیجے میں 108 افراد ہلاک ہوئے۔
سنہ 1989 میں کوٹا میں ہندوؤں کے مذہبی جلوس کو ایک پرہجوم مسلم محلے سے نکالنے کے حق پر اصرار کے نتیجے میں تشدد ہوا جس میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔
اسی طرح سنہ 1989 میں بہار کے بھاگلپور میں مسلمانوں کے علاقے سے مذہبی جلوس نکالنے پر اصرار کے نتیجے میں ہونے والا تشدد جدید بھارت کے بدترین فسادات میں سے ایک ہے، جس میں کم از کم نو سو اموات ہوئیں
یاد رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن نریمن نے مشورہ دیا تھا کہ ’بھارر کی تمام ریاستوں میں پولیس فورس کو ان آئینی اقدار اور شہریوں کے بنیادی فرائض کے بارے میں حساس بنانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے انہیں یہ بتانا چاہیے کہ بھارت میں رہنے والے مسلمان ہندوستانی ہیں“
لیکن اس طرح کا تشدد اور اس کی بنا پر بھارت میں سیاست ملک کے سیاسی میدان کا قابل قبول حصہ بننے سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ایک سیاسی حربہ چکے ہیں
بھارت کی جمہوری تاریخ کے زیادہ تر حصے پر کانگریس کی حکومت رہی ہے جب کہ ہندو دائیں بازو کے گروپ حکومت سے باہر ہوتے تھے۔ لیکن اب بی جے پی ملک کی اکثریت پر حکومت کرتی ہے، جسے دائیں بازو کے ہندو گروہوں اور حلقوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے
ناقدین اکثر اس قسم کے تشدد کا ذمہ دار دونوں سیاسی پارٹیوں کو قرار دیتے ہیں
سینئر صحافی منوج مٹّا، جنہوں نے دہلی میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات اور 2002 گجرات میں مسلم مخالف فسادات پر بڑے پیمانے پر لکھا ہے، حالیہ دور میں اس طرح کے تشدد میں کمی کی امید نہیں رکھتے
وہ کہتے ہیں ”اگرچہ اس طرح کا تشدد کانگریس کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا لیکن بی جے پی کے دور حکومت میں یہ بالکل مختلف سطح پر چلا گیا ہے. حالیہ برسوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی نوعیت بدل گئی ہے، ہلاکتوں کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن چھوٹے پیمانے پر تشدد کے مسلسل واقعات خطرناک حد تک جاری ہیں“
منوج مٹا کے خیال میں اس تبدیلی کے تانے بانے اتر پردیش کے مظفر نگر میں 2013 کے فسادات سے جڑتے ہیں جن میں تقریباً ساٹھ لوگ مارے گئے تھے لیکن تشدد کا اثر خطے کی سیاست پر آج بھی قائم ہے
مِٹّا کہتے ہیں ”تشدد نے مسلم متاثرین کو دہشت زدہ کرنے یا انہیں الگ تھلگ کرنے، یا ان کے خلاف بدنیتی پیدا کرنے یا انھیں اپنے گھر سے دور کیمپوں میں رہنے یا انھیں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور کرنے کا مقصد پورا کیا“
سنہ 1984 کے سکھ فسادات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جن میں مثال کے طور پر ہنڈو بلوائیوں نے ایک محلے کو دنیا سے کاٹ دیا تھا اور تقریباً چار سو افراد کو ہلاک کیا تھا، مٹّا کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے دور میں اس طرح کے کیسز کا تصور کرنا مشکل ہے لیکن مسلسل تشدد کو جاری رکھنا زیادہ آسان اور ممکن ہو گیا ہے
منوج مٹا کہتے ہیں ”فسادات میں اب زیادہ لوگ نہیں مرتے۔۔۔ حالیہ فسادات کا مقصد قتل سے زیادہ متاثرین کو نقل مکانی کرنے، ان میں خوف پھیلانے، انہیں الگ تھلگ کرنے، انہیں ولن ثابت کرنے، انہیں مکمل طور پر غیر دفاعی حالات میں ڈالنا ہے۔“