جب امریکی ٹیکنالوجی فرم اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اوپن اے آئی) نے نیوزی لینڈ کی مقامی زبان ’ماوری‘ سمیت درجنوں زبانوں کے لیے آڈیو ٹرانسکرپشن اور انگریزی میں ترجمہ کرنے والی ایپ ’وسپر‘ متعارف کروائی تو نیوزی لینڈ کے بہت سے آبائی باشندوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ستمبر میں جب ’وسپر‘ متعارف کروائی گئی تو اسے چھ لاکھ اَسّی ہزار گھنٹے کی آن لائن آڈیو تربیت دی گئی، جس میں ’ماوری‘ زبان کے 1381 گھنٹے شامل تھے
ٹیکنالوجی اور ثقافت کے مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس طرح کی ٹیکنالوجیز زبانوں کے تحفظ اور بحالی میں مدد کر سکتی ہیں لیکن اجازت کے بغیر زبانوں کا ڈیٹا حاصل کرنا، ان کے غلط استعمال اور اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے
نیوزی لینڈ میں جہاں ’ماوری‘ زبان بحال ہو رہی ہے، حکومت کا ہدف ہے کہ 2040ع تک اسے بولنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ ہو
’ماوری‘ زبان کے ماہر اور آکلینڈ یونیورسٹی کے اعزازی رکن کرائیتیانہ تائیورو کہتے ہیں ”ڈیٹا ہماری زمین اور قدرتی وسائل ہے۔ اگر مقامی لوگوں کو ان کے اپنے ڈیٹا پر اختیار حاصل نہ ہوا تو سیدھی سی بات ہے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس کے معاشرے میں دوبارہ نوآبادی بن جائیں گے“
اوپن اے آئی نے اس خبر پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ ’صنعت کے رہنماؤں اور پالیسی سازوں کے ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مصنوعی ذہانت کے نظام قابل اعتماد طریقے سے تیار کیے جائیں۔‘
ماہر آرٹیفیشل انٹیلیجنس پروفیسر مائیکل رننگ وولف کا کہنا ہے کہ یہ خاص طور پر ان مقامی برادریوں کے معاملے میں درست ہے، جن کی ثقافت چوری ہونے اور اسے اپنائے جانے کی ایک طویل تاریخ ہے
2019ع میں نیوزی لینڈ کی فضائی کمپنی ایئر نیوزی لینڈ نے جب مقامی زبان ’ماوری‘ کے الفاظ ’کیا اورا‘ کے ساتھ اپنا لوگو ٹریڈ مارک کرنا چاہا تو مقامی رہنما غصے میں آ گئے۔ یہ الفاظ اس زبان میں خیریت دریافت کرنے کو استعمال ہوتے ہیں۔ جس سے یہ مسئلہ اجاگر ہوا کہ مقامی گروپوں کی طرف سے ان کی زبان اور ثقافت اپنانے معاملے میں کشیدگی موجود ہے
اس صورتحال میں مصنوعی ذہانت سے متعلقہ سافٹ وئیرز کی تیاری کے لیے انٹرنیٹ پہ موجود مواد کے انٹیلکچوئکل رائٹس کے حوالے سے سوالات پیدا ہو چکے ہیں کہ آیا وہ مواد استعمال کرنا قانونی طور پہ درست ہے یا نہیں؟
حال ہی میں گرافک ڈیزائنرز کے ایک گروپ نے مصنوعی فن پارے بنانے والی کمپنیوں ’سٹیبلیٹی اے آئی، مڈجرنی اور ڈیویئنٹ آرٹ‘ کے خلاف کاپی رائٹس کی خلاف ورزی پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا کیوں کہ ان کمپنیوں نے ان فنکاروں کے انداز کی نقل کی تھی
مقدمے میں نامزد کمپنی سٹیبلیٹی اے آئی نے کہا ہے کہ ’ہمارے کام کو منصفانہ استعمال کے اصول کے تحت تحفظ حاصل ہے جو کاپی رائٹ والے مواد کے محدود استعمال کی اجازت دیتا ہے۔‘
ماؤری لوگ اور زبان، مختصر تاریخ
پچھلے دو سو سالوں میں ماوری زبان (te reo Māori) کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے دوچار رہی ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ Aotearoa/نیوزی لینڈ میں بولی جانے والی اہم زبان تھی۔ جیسے جیسے زیادہ انگریزی بولنے والے نیوزی لینڈ پہنچے، ماوری زبان تیزی سے ماوری برادریوں تک محدود ہوتی گئی۔ بیسویں صدی کے وسط تک یہ خدشات تھے کہ زبان ختم ہو رہی ہے
نیوزیلینڈ میں انگریزوں کی آمد نے ماؤریوں کی زندگیوں میں غیر معمولی تبدیلیاں لائیں۔ مغربی کھانے ، نئی ٹکنیکس، نئے ہتھیار اور نئی ’تہذیب‘ سے متعارف کروایا۔ اور پھر ۱۸۴۰ کا وہ دور آیا جب برطانوی تاج اور ماوری سرداروں کے درمیان ایک معاہدہ ( Treaty of Waitangi) طۓ پایا کہ نیوزیلینڈ برطانیہ مملکت کا حصہ اور اس کا ماتحت ہو گیا۔
ابتدا میں تو ماوری اور یوروپینس (جنھیں ماوری پاکیھا (Pakeha) کہا کرتے تھے) کے درمیان تعلقات خوشگوار تھے۔ لیکن ۱۸۶۰ کے آس پاس متنازعہ زمینات کی فروخت، بڑے پیمانہ پر زمینات پر قبضہ نے ماؤری اور یوروپینس کے درمیان کشیدگی پیدا کر دی
سماجی بحران اور کئی وبائی امراض کے پھیلاؤ ماؤری قوم کی ہلاکت کے سبب بن گئے ، جس سے ان کی آبادی غیر معمولی طور پر کم ہوتی چلی گئی
البتہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی ماؤری قوم کی آبادی بحال ہونے لگی اور سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، اور معاشی سطح پر نیوزیلینڈ سماج میں ان کی ترقی اور پہچان ہونے لگی۔ ۱۹۶۰ میں ان کی رنجشوں کو ختم کرنے کے لیے جو احتجاجی تحریک چلائی گئی تھی، اسے بھی کافی حمایت اور تائید حاصل ہوئی۔اس وقت نیوزیلینڈ کی پندرہ فیصد سے زیادہ آبادی ماؤری قوم ہے
1980 کی دہائی سے شروع کیے گئے بڑے اقدامات نے ٹی ریو ماوری کا احیاء کیا ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں، ماوری نسل کے تقریباً 125,000 لوگ ٹی ریو کو بول اور سمجھ سکتے تھے، جو کہ نیوزی لینڈ کی اشاراتی زبان کے ساتھ ایک سرکاری زبان تھی۔ آج ماؤری لوگ سارے نیوزیلینڈ میں پھیلے ہیں۔اور بڑی مستعدی سے اپنی ثقافت اور زبان کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں۔