خواتین میں نشے کا رجحان: ’لڑکیوں کو بوائے فرینڈ اور پارٹنر نشے کی طرف راغب کرتے ہیں‘

ویب ڈیسک

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ستر لاکھ سے زیادہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ان میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ہیروئن، کوکین اور آئس کا نشہ شامل ہے

منشیات کی لت میں مبتلا ایک ایسی ہی بائیس سالہ لڑکی سمیرا خان (فرضی نام) کراچی میں ایک بحالی سینٹر میں موجود ہیں اور خود کو نشے کی لت سے آزاد کرنے کے لیے کوشاں ہیں

سمیرا بتاتی ہیں ”میرا بوائے فرینڈ خود نشہ نہیں کرتا تھا لیکن وہ مجھے لا کر دیتا تھا تاکہ جنسی تسکین کے لیے میرا استعمال کرے، کوئی لڑکی جب نشے میں پڑ جاتی ہے تو اس کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، وہ یہ ہی کہتی ہے کہ میرے ساتھ کچھ بھی کرو جیسا بھی کرو بس مجھے نشہ لا کر دو“

سمیرا خان کی نوعمری میں ایک بڑی عمر کے شخص سے شادی ہو گئی تھی اور نتیجے میں چند سالوں میں علیحدگی ہو گئی

بحالی سینٹر میں موجود سمیرا اس حوالے سے بتاتی ہیں ”وہ شخص مجھ پر تشدد کرتا تھا اور اس عرصے میں میں دو بچوں کی ماں بن گئی اور ایک روز تنگ آ کر والدین کے گھر آ گئی لیکن شوہر بڑے بیٹے کو ساتھ لے گیا“

یہی وہ حالات تھے، جن میں سمیرا کی پڑوس میں ایک نوجوان سے دوستی ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں ”بیٹا چھیننے کی وجہ سے مجھے رات کو نیند نہیں آتی تھی، اور میرے دوست نے مجھے نشہ (کرسٹل) دینا شروع کیا اور کہا کہ اس سے آرام آئے گا، اس طرح میں پھنس گئی“

انہوں نے اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”ماں باپ کو کیا پتا ان کی بیٹی نشہ کر کے کہاں پر بیٹھی ہو گی، کس کے ساتھ لیٹی ہو گی۔۔ اس نشے میں آ کر کچھ سمجھ میں نہیں آتا بس یہ دل کہتا ہے جو کرنا ہے کرو بس نشہ دو“

سمیرا نے بتایا ”میں اپنے والدین کو نشہ آور گولیاں کھلا کر باہر چلی جاتی، صبح کو واپس آ جاتی تھی کبھی بھی پکڑی نہیں گئی“

یہ صرف ایک سمیرا کی کہانی نہیں ہے، بلکہ پاکستان میں نوجوان لڑکیاں اور خواتین کی کتنی بڑی تعداد نشے میں مبتلا ہے، اس کے اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں تاہم بحالی سینٹرز میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے

کراچی میں کام کرنے والی آس ٹرسٹ کی ماہرِ نفسیات شہلا مظہر اس حوالے سے ہولناک صورت حال کی نشاندھی کرتے ہوئے بتاتی ہیں ”جس طرح نوجوان اور بالغ بچے جگہ جگہ آپ کو ملیں گے، اس طرح خواتین بھی ملیں گی لیکن ان کی تعداد کم ہے تاہم گھروں میں بہت زیادہ تعداد ہے۔ ہمارے پاس جو کیسز آ رہے ہیں ان میں طالبات ہیں، ایئر ہوسٹسز ہیں، اس قدر کہ نرسز کے پورے کے پورے گروپس ہیں، ان کے گھر والوں کو پتا تک نہیں کہ وہ کرتی کیا ہیں، ان خواتین میں کرسٹل، شیشہ، الکوحل کے علاوہ پین کلر بھی عام ہیں“

شہلا مظہر کے مطابق ”مین نے ایسا نہیں دیکھا کہ خواتین کا خود بخود رجحان اس طرف ہو جائے تاہم کلاس فیلوز، ساتھ کام کرنے والوں، بوائے فرینڈز یا جو بعد میں شوہر بھی بن رہا ہے، وہ ان کو اس طرف راغب کرتا ہے“

انہوں نے کہا ”بوائے فرینڈ ڈرگ استعمال کرتا ہے پتا نہیں چلتا، شادی کے بعد معلوم ہوتا ہے اور خواتین کو بھی بعد میں پتا چلتا ہے کہ جو یہ مجھے دے رہا تھا وہ نشہ تھا، اس کے بعد اس کو لانے کی ذمہ داری بھی خواتین کی ہوتی ہے شوہر نے بیٹھ کر بس نشہ کرنا ہے“

پاکستان کے بڑے شہروں میں یونیورسٹی کے طالب علموں میں کرسٹل، آئس و دیگر نشوں کا استعمال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایسے بھی کئی کیسز ہیں، جس میں نوجوان سکول کے زمانے سے اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں

لیاری کے رہائشی یوگیش بتاتے ہیں ”اسکول کے زمانے سے شراب پینا شروع کر دی تھی اور اس کے بعد چرس پر آ گئے اور اگلا قدم ’ڈرگ آف چوائس‘ تھی، جو ہیروئن اور کرسٹل تھا جس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گنوا بیٹھا۔ چوری معمول بن گئی، نشے کے لیے کچھ بھر کر دیتا تھا“

مبین احمد کی کہانی بھی یوگیش سے ملتی جلتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ”نویں کلاس میں چرس پیتا تھا کالج میں گیا تو کبھی بیئر تو کبھی الکوحل استعمال کی، اس کے بعد خواب آوور گولیوں پر چلا گیا اور اس کے بعد آئس اور کرسٹل میں مبتلا ہو گیا۔۔ یہاں دال گھی شاید مشکل سے دستیاب ہو لیکن کرسٹل آسانی سے مل جاتا ہے“

آس ٹرسٹ کی شہلا مظہر ڈار کہتی ہیں ”ہمارے بحالی سینٹرز میں جو آتے ہیں، پہلے وہ کہتے ہیں کہ میں نے چرس لی تھی بعد میں جب بات شروع ہوتی ہے تو کرسٹل، آئس دیگر نشوں کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ یہ لوگ کسی ایک نشے کے ساتھ نہیں بلکہ پولی ڈرگ استعمال کرتے ہیں“

لندن میں صحت کے بارے میں تحقیقی جریدے لینسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ نشے میں مبتلا تءس ہزار لوگوں کے علاج کی سہولت ہے، جبکہ نشے میں مبتلا افراد کی تعداد اس سے کئی سو گنا زیادہ یعنی ستر لاکھ ہے، جس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے

پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس کے نام سے ادارہ موجود ہے، جس کو چاروں صوبوں میں بحالی سینٹر بھی قائم کرنے تھے، کراچی میں یہ سینٹر ماڑیپور میں موجود ہے

صحت کے تحقیقی جریدے لینسٹ نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ پاکستان اپنے بحالی سینٹروں کی تعداد بڑھائے تاکہ متاثرہ افراد میں سے زیادہ سے زیادہ اس سے مستفید ہوں

لیاری کے نوجوان یوگیش تین سینٹروں میں زیرِ علاج رہے ہیںش جن میں سے ایک اینٹی نارکوٹکس فورس کا سینٹر بھی شامل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اے این ایف کے سینٹر میں تشدد کیا جاتا تھا

وہ الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اے این ایف والے پانچ سات روز ادویات دیتے تھے اس کے بعد اگر دوائی مانگتا تھا تو پانی کی مشین کے بیلٹوں سے مارتے تھے اور پھر بیڈ پر لٹا دیتے تھے یا دو سو مرتبہ اٹھک بیٹھک کرواتے، کہتے دیوار سے پیر لگا کر کھڑے ہو جاؤ۔ ایسا سلوک ہوتا تھا“

یوگیش بتاتے ہیں ”میں نے دل میں رنج رکھا کہ گھر والوں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا اور جیسے ہی بحالی سینٹر سے باہر آیا تو اسی دن سے دوبارہ نشہ شروع کر دیا۔ اس کے بعد مجھے ’سیو دی لائف‘ میں لے آئے اور یہاں تین ماہ علاج ہوا“

مبین احمد بھی اے این ایف سینٹر جا چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”ایک تو وہاں داخلے کے لیے پانچ، چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہاں جو ڈاکٹر بیٹھا ہے وہ لگتا ہے جیسے جانوروں کا ڈاکٹر ہو، ایسا برتاؤ کرتا ہے۔ تشدد مار پیٹ بدتمیزی عام سے بات ہے“

اگر کوئی منشیات کی لت کا شکار ہو جائے تو اس کو ترک کرنا بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ مبین احمد بتاتے ہیں ”نشئی عام زندگی نہیں گزار سکتے بلکہ سوچ سمجھ کر زندگی گزارنی ہوتی ہے، بہت غصے میں رہتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو فوری دماغ میں بٹھا لیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا اس کو بہانہ بنا کر دوبارہ نشے کی طرف آ جاتے ہیں“

سمیرا خان کہتی ہیں ”اگر ہمت کریں تو اس کے سامنے یہ نشہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے، مجھے بحالی سینٹر میں محبت اور اعتماد ملا، جس کی بدولت میں اس سے نجات حالص کرنے میں کامیاب رہی ہیں“

کراچی کے علاقے میمن گوٹھ میں ’راستہ بحالی مرکز‘ چلانے والے طارق عزیز، جو خود بھی طویل عرصے تک اس لت میں مبتلا رہے، کہتے ہیں ”بنیادی چیز ہمارا سماجی رویہ ہے، جو حساس افراد کے منشیات میں مبتلا ہونے کی وجہ بنتا ہے، اسی لیے ادویات کے ساتھ ہمارا رویہ بھی منشیات کے عادی افراد کے علاج کو ممکن اور پائیدار بناتا ہے“

طارق عزیز کا کہنا ہے ”ہم اپنے مرکز میں مریضوں کی کاؤنسلنگ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان میں زندگی کے لیے اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نسبتاً ہمارا ریکوری ریشو بہت بہتر ہے“

’آس ٹرسٹ‘ کی شہلا مظہر ڈار کے مطابق ”دس سے پندرہ دن ڈی ٹاکسفیکیشن کے ہوتے ہیں یہ عرصہ زیادہ دن بھی ہو سکتا ہے اور اس کا دارو مدار اس نشے پر ہے، جو کیا گیا ہے“

وہ بتاتی ہیں ”نشے سے دستبرداری کا عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، اس عرصے میں ذہن میں خودکشی کے خیالات بھی آتے ہیں کیونکہ کچھ لوگ اس تکلیف کو برداشت نہیں کر پاتے۔ دوسرا مرحلہ علاج کا ہے جس میں ان کا نفسیاتی مشاہدہ اور معاونت کی جاتی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close