”وہ آئے۔ انہوں نے بندوقیں تانیں، گاؤں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو گھروں سے باہر نکال کر ایک طرف کیا۔ پھر ہماری جھونپڑیوں اور کچے گھروں پر مٹی کا تیل چھڑک کر ان کو آگ لگائی اور ہمیں ٹرکوں میں بھر کر لے گئے۔ اور پھر ریل میں۔ ’راجہ ریل‘ میں۔ اور لا کر نوابشاہ ریلوے لائن کے ساتھ قائم کیے گئے کیمپوں میں پھینک دیا۔“
سانگھڑ کے بیاسی سالہ اللہ ورایو اداسی کی یہ کہانی ان نسلوں کی کہانی ہے، جنہیں 1898 سے لے کر 1952 تک اس طرح کے کیمپوں میں قید رکھا گیا۔ 54 برسوں تک۔ پہلے برطانوی حکومت اور پھر پاکستانی حکومت کے کیمپوں میں۔ ان لوگوں کی ان کیمپوں میں دو نسلیں پیدا ہوئیں ، بڑی ہوئیں، کئی لوگ فوت ہوئے۔ بندوقوں کے پہروں اور خاردار باڑوں میں۔ کیونکہ یہ حر تھے۔ حر پیر پاگارو کے ۔ جو بھی حر تھا، بچہ، بڑا، بوڑھا، مرد چاہے عورت انہیں اس طرح کی خاردار باڑھوں کے اندر قید رکھا گیا تھا۔ پھر تھر تھا کہ راجستھان، راجپوتانہ، جیسلمیر، باڑہ میر، مہاراشٹر یا مرہٹہ ریاست میں ویسا پور۔ انیسویں بیسویں صدی کے برطانوی تسلط تلے غیر منقسم ہندوستان تھا کہ 1950 کی دہائی کے اوائل کے برسوں کا نو آزاد ملک پاکستان
انگریز بر صغیر اور سندھ سے اپنا بوریا بستر گول کر گئے۔ چودہ اور پندرہ اگست 1947 کی درمیانی شب جب جواہر لال نہرو نے ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ موجودہ ہندوستان میں قائم حروں کے کیمپ بھی ختم کر کے انہیں آزاد کیا گیا ۔ ان حر اسیروں سے لدی ٹرین نئے ملک پاکستان کی طرف روانہ ہوئی کہ ان قیدیوں نے پاکستان کی وطنیت اختیار کی تھی۔ جب یہ سابقہ حر اسیر کھوکھرا پار کی سرحد پار کر کے مونا باؤ سے پاکستان کے اندر داخل ہوئے تو انہیں ٹرین سے اترنے تو دیا گیا لیکن ان کے نئے ملک کی وہی پرانی پولیس ان کے لیے ہتھکڑیاں لیے ان کی منتظر تھی۔ ان حر مردوں اور خواتین کو ہتھکڑیاں پہنا کر پاکستان میں تب تک قائم خاردار باڑوں والے حر کیمپوں میں پہنچایا گیا جو ابتک قائم تھے۔ بس ان کے مرکزی گیٹ کے اوپر یونین جیک کے جھنڈے کے بجائے نئے ملک کا پرچم لہرا رہا تھا
’حر‘ لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہے ‘آزادی پسند۔’ انگریز حکمرانوں نے حروں کو ‘باغی،’ بلوائی’ شرپسند,’ اور ‘دہشت پسند’ کہا اور لکھا۔
حر پیر پاگارو کے مرید ہیں اور سندہ میں خیرپور میرس اور سانگھڑ اور ان کے درمیان نارا ، صحرائے تھر اور چولستان سے لے کربھارت میں راجستھان، گجرات، باڑہ میر، کچھ بھج جیسلمیر تک آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پیر پاگارو کے مریدوں کی تعداد پندرہ لاکھ ہے
لیکن میں جو یہ کتھا بیان کر رہا ہوں، یہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک کا قصہ ہے، جب پیر پاگارو اور اس کے حر برطانوی بدیسی حکومت کے ساتھ حالت جنگ میں تھے
تقسیم کے خون آشام فسادات و قتل و غارت گری سے قبل اور 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر جنوبی ایشیا میں انسانی خون میں لتھڑی ہوئی نہلائی ہوئی حروں کی اس تحریک کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی
جب فروری 1843 میں انگریزوں نے چارلس نیپیئر کی سرکردگی میں سندھ پر قبضہ کیا تو سندھ کے بڑے جاگیرداروں، زمینداروں، پیروں، امیروں کو حکم جاری کیا گیا کہ وہ چارلس نیپیئر کے دربار میں حاضری دیں اور ان سے وفاداری کا عہد کریں۔ سندھ کے تمام جاگیردار، میر و پیر چارلس نیپئیر کے دربار میں کورنش بجا لائے اور سندھ کے اس نئے فاتح کے سامنے عہد وفاداری کا اظہار کرنے کو پہنچے ہوئے تھے ، سوائے اس زمانے کے پیر پاگارو دوئم پیر علی گوہر شاہ اور چند گنے چنے زمینداروں کے
صحافی اور حر تاریخ پر عبور رکھنے والے اسحاق منگریو کا کہنا ہے ’’بلکہ تالپور حکمران میر شیر محمد جس نے انگریزوں کے سندھ پر قبضے کی مزاحمت کی تو خیرپور میرس سے لیکر رحیم یار خان تک کے صحرائی علاقوں میں پیر پاگارو اور اس کے حروں نے تالپوروں کا ساتھ دیا تھا۔“
1890 میں انگریزوں کی جانب سے پیر پاگارو کے اپنے مریدوں سے رابطوں اور نقل وحرکت پر سختی پر کشیدگی پیدا ہوئی جو سانگھڑ ضلع میں مکھی کے جنگلات سے انگریز سرکار کے خلاف نیم خود رو، منظم مسلح مزاحمت کی شروعات پر منتج ہوئی۔ یہ زیادہ سے زیادہ انیس سے تیس افراد پر مشتمل گروہ تھا، جنہوں نے بچو بادشاہ اور پیرو وزیر کے نام سے مکھی کے جنگلات کے اندر ایک متوازی حکومت قائم کی
مکھی سانگھڑ ضلع میں دو سو مربع میل میں پھیلے جنگلات اور مکھی جھیل پر مشتمل وسیع علاقہ تھا جہاں زیادہ تر پیر پگاڑو کے حر آباد تھے۔ بچو بادشاہ اور پیرو وزیر نے علاقے میں متوازی عدالتیں اور داروغہ سسٹم قائم کیا۔ سندھ کے سابق آئی جی پولیس آفتاب نبی اپنے ایک تحقیقی مقالے ’’بغاوت پر پولیس کشی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مکھی میں حروں کی سرکوبی کے لیے انگریزوں نے تین آرٹلری کمپنیاں اور ایک کیولری اسکواڈرن بھیجی اور پھر بھی حروں پر قابو نہیں پا سکے۔ بچو بادشاہ ، پیرو وزیر اور ان کے انیس بیس ارکان پر مشتمل ٹولے کی سرکوبی کے نام پر انگریز سرکار نے جو زیادتیاں پیر پگاڑو کے حروں مردوں چاہے عورتوں بچوں کے ساتھ کیں وہ انیسویں صدی کی “بے مثال ریاستی دہشت گردی” کہلائے گی۔ پیر پگاڑو کے حکم پر بچو بادشاہ کمشنر شیخ محمد یعقوب کے سامنے پیش ہوا جسے سانگھڑ میں پھانسی دے دی گئی
بچو بادشاہ اور پیرو وزیر کے بارے میں علاقے میں لوک داستانیں اور لوک شاعری تخلیق کی گئی۔
سال 1900 میں انگریز سرکار نے حر کرمنل ٹرائیبز ایکٹ لاگو کیا جس کے تحت حروں کو مجرم قبیلہ گنوا کر خاردار باڑوں میں قید کیا گیا۔ حر جنہیں کنسنٹریشن کیمپ کہتے ہیں۔
حر تحریک کا دوسرا دور 1942 سے 1946 تک ہے جب پیر پاگارو صبغت اللہ شاہ کو دوسری بار گرفتار کیا جاتا ہے۔
پیر پاگارو کی گرفتاری سے حر علاقوں سانگھڑ، نوابشاہ، میرپورخاص، شاہ پور چاکر، سنجھورو، تھر، اچھڑو تھر سے لیکر بہاولپور اور جیسلمیر تک “حر مزاحمت “ بھڑک اٹھی۔ اس مزاحمت کی تیاری پیر پاگارو 1930 میں اپنی پہلی گرفتاری اور پھر آٹھ سال کی سزائے قید پہلے گجرات اور پھر بنگال کی جیلوں میں کاٹ کر آنے کے بعد سے حروں کو کروا رہے تھے۔
ایک طرف دوسری جنگ عظیم جاری تھی تو دوسری طرف ہندوستان میں گاندھی کی “ہندوستان چھوڑ دو” تحریک تو سندھ میں حر مزاحمت۔ ایک لاکھ انگریزی فوج، گورکھا رجمنٹ کی چھاتہ بٹالین اور جاسوسی جال انگریزوں نے حر مزاحمت کیخلاف اتارے ہوئے تھے۔
پیر پاگارو کی لائبریری میں رکھی گئی ایک تصویر
پیر پاگارو کی لائبریری میں رکھی گئی ایک تصویر
سندہ اسمبلی نے مارچ 1942 کو سندہ حر آپریشن ایکٹ یکرائے منظور کیا اور یکم جون 1942 کو حر آبادیوں میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ یہ حر آبادیاں سانگھڑ سے بہاولپور اور جیسلمیر تک تھیں۔ حر آپریشن کا انچارج ایچ ٹی لئمبرک کو مقرر کیا گیا ۔ جسے حر ’نمبر ایک‘ کہتے ہیں۔
حر محقق و مصنف استاد نظامانی کے بقول پیر پاگارو صبغت اللہ شاہ ثانی باالمعروف ‘سورھیہ بادشاہ’ (‘سورما بادشاہ’) سمیت ان کے پانچ سو سے سات سو حروں کو پھانسیاں دی گئیں
حر آبادیوں میں دس لاکھ ایکڑ پر گھر، کھڑی فصلیں جلا دی گئیں ۔ پیر پاگارو کی پیر جو گوٹھ خیرپور میرس میں حویلی، اوطاق یا مہمان خانہ،سانگھڑ ضلع میں ان کے گڑنگ بنگلو پر بمباری کر کے مکمل تباہ کردیے گئے۔ یہی گڑنگ بنگلو تھا جہاں اس سے قبل انگریز فوج اور پولیس نے پیر پاگارو کے اہل خانہ کو حراست میں لے کر پہلے کراچی میں ایک بنگلے میں نظر بند کیا تھا جہاں سے پیر پگاڑو کے دونوں بیٹوں جن کی عمریں چودہ اور بارہ سال تھی سکندر شاہ باالمعروف شاہ مردان شاہ ثانی اور نادر شاہ پہلے علی گڑھ اور پھر لیورپول بھیجے گئے تھے۔ زمینی فوج نے بارود سے بھی عمارتوں کو اڑا دیا تھا۔ سینکڑوں حر گوٹھ یا گاؤں خالی کرتے ہوئے حر مردوں، عورتوں اور بچوں کے قافلوں پر بھی بمباری کی گئی۔
حر تحریک آخر تھی کیا؟
میں نے یہ سوال پاکستان کے حالیہ زمانوں کے جید مورخ ڈاکٹر مبارک علی سے بذریعہ فون پوچھا۔ انہوں نے کہا۔ “لا محالہ یہ ایک اینٹی کولونیل یا بیٹھکیت مخالف تحریک تھی۔ لیکن پیر صاحب پر تو بنگال میں جیلوں میں رہنے سے ان میں سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں لیکن یہ سیاسی تبدیلی ان کے مریدوں میں نہیں آئی۔ دوسرا یہ کہ یہ تحریک برصغیر کی باقی تحریکوں سے کٹی رہی۔ اسی لیے تحریک کامیاب نہیں ہوسکی“
سندھ کی سیاسی تاریخ کے خود ایک کردار اور اس پر نظر رکھنے والے مدد علی سندھی کا خیال مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’’مدنا پور کی جیلوں میں 1930 کی دہائی میں بنگالی انقلاب پسندوں کی صحبت میں رہنے کا پیر پاگارو پر اثر یہ تھا کہ انہوں نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو جیل سے ایک خط میں لکھا کہ انگریز مجھ سے جنگ کے لیے 30 ہزار کا چندہ مانگ رہے ہیں۔ میرے پاس پیسے ہیں لیکن یہ رقم میں انڈمان کے قیدیوں کی بہبود و بحالی پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
آخر کار ناگپور جیل سے پیر پاگارو کو جنوری 1943 کو بذریعہ طیارہ حیدرآباد سندھ لایا گیا جہاں انہیں سخت پہرے میں حیدرآباد سینٹرل جیل پہنچایا گیا۔ حیدرآباد میں ان پر تاج برطانیہ کیخلاف جنگ اور جنگ پر اکسانے کے الزامات میں جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے مقدمہ چلایا گیا۔ اس مقدمے کے پانچ برطانوی جج تھے جن میں میجر جنرل رچرڈسن بھی شامل تھے۔ پیر پاگارو نے اس مقدمے پر اعتراض اٹھایا تھا کہ ایسی عدالت میں کوئی بھی ہندوستانی رکن شامل نہیں تھا اور نہ ہی کوئی مسلمان وکیل ۔ ان کو انگریز سرکار کی طرف سے فوجداری مقدموں کا سندھ میں معروف وکیل ڈیئل مل مہیا کیا گیا تھا۔ پیر پاگارو نے ایوب کھوڑو کا نام اپنے دفاع کے گواہوں کے طور پر دیا اور ایوب کھوڑو نے جیل میں ملٹری کورٹ جاکر پیر پاگارو کے حق میں گواہی دی۔
آخر کار 20 مارچ 1943 کو انہیں حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اور ان کی تدفین کے مقام کو آج تک انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔
بشکریہ: وائس آف امریکہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)