دلدل (ہندی ادب سے منتخب افسانہ)

امر گوسوامی (ترجمہ: قیّوم خالد)

میّنْک جی لفظوں کے کاریگر تھے – بہت اچھے کاریگر – لفظوں کو گڑھتے، چھیلتے، کاٹتے، تراشتے – انہیں روپ دیتے – کئی طرح کے روپ — لفظوں سے وہ پھول کھلاتے۔قدرت کے رازوں کو بُوجھنے کی کوشش کرتے۔

ان کے لفظ غریبوں کے گھروں میں جا کر ان کے آنسو پوچھ آتے، لاچاروں کی لاٹھی بن کر کھڑے ہوتے – میّنْک جی کی کوشش ہوتی کہ ان کے لفظ سہارا بنیں – اپنے شاعر ہونے کی مہارت اسی میں سمجھتے تھے – میّنْک جی لفظوں سے ہر طرح کے جذبات جگا سکتے تھے – ان کے لفظوں سے جو ہو کر گزرتا، وہ کبھی ہنستا تو کبھی روتا – ان کے لفظوں سے کبھی اذاں کی آواز آتی تو کبھی مندر کی گھنٹیوں کی – میّنْک جی ان آدمیوں میں سے تھے، جن کے لئے لفظ مقدّس ہوتے ہیں – وہ لفظوں سے محبت کرتے تھے، ان سے سیاستدانوں کی طرح کھیلتے نہیں تھے۔ لفظوں کی درگت بنتے دیکھتے تو وہ خون کے آنسو روتے ۔

لفظوں کی دنیا کے میّنْک جی کا اصلی نام اشرف لال تھا۔ یہ نام انہیں کاروباری لگتا تھا اور لالچی ہونے کا احساس دلاتا تھا۔ انہوں نے اپنا ادبی نام میّنْک رکھ لیا- اس سے انہیں سکوں محسوس ہوتا تھا – اور میّنْک یعنی چاند کے داغ کے وجہ سے یہ نام انھیں دنیا کے قریب لگتا تھا ۔ میّنْک جی جانتے تھے کہ زندگی میں سب کچھ بےداغ یعنی چوبیس کیرٹ کا نہیں ہوتا ۔ ایسا کچھ ہوجاتا ہے جو آدمی کو بائیس کیرٹ کا بنا دیتا ہے ۔ بائیس کیرٹ کا آدمی ہی آج کی دنیا میں قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔

میّنْک جی خود کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اپنے خاندان کی نظروں میں بےداغ نہیں ہیں ۔ وہ جانتے تھے کے اپنی ماں سے لے کر اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کا دل وہ وقتاً فوقتاً دکھاتے رہے ہیں ۔ ماں چاہتی تھی بیٹا چھوٹا موٹا ہی سہی افسر بن جائے یا پھر ڈاکٹر یا انجینیر، لیکن میّنْک جی کو ٹیوشن کا کاروبار راس آیا کیونکہ اس میں ان کے شاعر کو آرام تھا ۔

ماں اسی دکھ میں زندگی کی پتلی گلی سے آنکھیں موند کر اس پار کھسک گئی ۔ بیوی راجیشوری بھی میّنْک جی کی عادتوں سے آزردہ رہتی تھی ۔ وہ انہیں عام لوگوں سے مختلف پاتی تھیں ۔ شاعر کی بیوی ہونے کی وجہ سے سماج میں راجیشوری کو وہ عزت نہیں ملتی تھی، جو گھوٹالے میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے نوکری سے معزول انجنیئر کی بیوی کانتا جی کو ملتی تھی ۔ سپنا جی کو بھی وہی عزت ملتی تھی، جن کے شوہر مقامی لیڈر کے ساتھ لگے رہتے تھے – میّنْک جی کا بیٹا پرستت بھی اپنے باپ سے ناراض رہتا تھا – اسے اپنے باپ کے دئے ہوئے نام سے بڑی چڑھ تھی ۔ اس کے دوست نہ اس کا نام ٹھیک سے سمجھ پاتے تھے نہ بول پاتے تھے ۔ وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔ کالج کے کچھ استاد بھی اس کا نام لیتے وقت اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کرتے ۔ ایک بار ہندی کے استاد نے نرالا جی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کوی تو پاگل ہی ہوتے ہیں، تب اسے سن کر پرستت کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ شریر لڑکے ہنسے بھی تھے ۔

جب کوئی بیٹا کھلے عام باپ کی دلچسپیوں اور سمجھ بوجھ پر انگلی اٹھانے لگے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ بیٹا جوان ہو گیا ہے ۔ پرستت بھی اپنی ماں کے سامنے اپنے باپ کی مخالفت اور برائی کرنے لگا ۔ راجیشوری من ہی من میں خوش ہوئیں تھیں کہ بیٹا جوان ہو گیا ہے ۔ وہ اس کی شادی کے بارے میں خیالی پلاؤ پکانے لگیں ۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کے جس دن پرستت کو اپنی نوکری کی پہلی تنخواہ ملے گی، وہ اسی دن کونونٹ میں پڑھی کسی حسین لڑکی سے اس کی شادی پکّی کردیں گی – پرستت کو بھی انہوں نے میّنْک جی کی خواہش کی مخالفت میں کونونٹ سکول میں تعلیم دلائی تھی ۔ راجیشوری نہیں چاہتی تھیں کی پرستت بڑا ہوکر ٹھیٹھ ہندی والا ہو کر اپنا مستقبل برباد کر لے۔

میّنْک جی کے لفظوں کی دنیا میں راجیشوری اور پرستت عدم دلچسپی کی وجہ سے قدم ہی نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ میّنْک جی کی نظمیں ادبی دنیا میں بھلے ہی سراہی جاتی رہیں، ان کے گھر میں نہیں پڑھی جاتی تھیں ۔ یہ ان پر ایک غیر معلنہ پابندی تھی ۔ یہ پابندی میّنْک جی کی گری ہوئی اقتصادی حالت کی وجہ سے لگی ہوئی تھی ۔

شادی کے ابتدائی دنوں میں راجیشوری نے اپنے شوہر کی نظموں کو پڑھنے اور سننے میں بھرپور دلچسپی دکھائی تھی، مگر بعد میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی ۔ انھیں لگتا تھا کہ نظموں کا چکّر نہ ہوتا تو میّنْک جی زیادہ عملی آدمی ہوتے ۔ آوروں کی طرح ان کا بنک بیلنس ہوتا ، اپنا مکان ہوتا ۔ انہیں سال دو سال بعد کرایہ کا مکان نہ بدلنا پڑتا۔ مکان بدلنے میں راجیشوری کو سب سے زیادہ دقّت میّنْک جی کی لائبریری سے ہوتی تھی، الماریوں میں بھری ڈھیر ساری کتابوں کو نکالنا رکھنا، دیکھنا، باندھنا، پھر انہیں نئے مکان میں جا کر کھول کر الماریوں میں پھر سے جمانا بڑا تھکا دینے والا کام تھا ۔ کتابوں کو رکھنےکے لیے الماریاں بھی ناحق خریدنی پڑی تھیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی کتابیں دو تین صندوقوں میں ٹُھنسی پڑی تھیں، جنہیں کھول کر دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔ میّنْک جی کو جب کوئی کتاب ڈھونڈنی ہوتی، تب انہیں کھولا جاتا تھا ۔ پھر تو اس دن کمرے میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آتیں، جنہیں دوبارہ صندوق میں ٹھونسنے کے لئے کبھی راجیشوری یا پرستت کی ضرورت پڑتی ۔ پرستت کو یہ ناخوشگوار کام کرنا پڑتا تو بہت بڑبڑاتا۔ میّنْک جی اس کے اس رویے پر مسکرا کر رہ جاتے تھے ۔

میّنْک جی کو الماریاں حقیقت میں کتابوں کی حفاظت کے لئے خریدنی پڑتی تھیں – کچھ تو کتابوں کو چوہوں سے اور کچھ ان سے ملنے آنے والے دوست اور ادبی ہستیوں سے بچانے کے لئے ۔ اس کے علاوہ کرائے کے مکانوں میں شو کیس اور وارڈ روب کی جگہ کے علاوہ کچھ اور رکھنے کے لیے دیواروں میں جگہ نہیں بنائی جاتی ہے ۔ کتابوں کے عاشق کرایہ دار اتنے کم ہوتے تھے اور مکان مالک بھی چونکہ اس دیوانگی سے بچے ہوتے تھے، اس لیے گھر میں کتابیں سجاکر رکھنے کی جگہ نکالنے کی بات کسی کے دھیان میں ہی نہیں رہتی تھی۔ شو کیس اور وارڈ روب میں کتابیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں ۔ میّنْک جی کو کتابوں کے لئے ہر بارایک الگ ہی ترکیب کرنی پڑتی تھی ۔ کچھ تو کتابیں خریدنے کی عادت کی وجہ سے اور کچھ کتابیں دوستوں سے تحفہ میں ملنے کی وجہ سے، ان کے پاس کتابیں لگاتار بڑھتی رہتی تھیں۔ میّنْک جی کو کتابیں بے حد پیاری تھیں ۔ اگر وہ لوک کتھا کے جن ہوتے تو ان کی جان کسی کتاب ہی میں بسی ہوتی ۔ کتابوں کی بڑھتی تعداد سے الماریاں بڑھتیں۔ جب جب گھر میں کتابوں کے لئے نئی الماری خریدنے کی نوبت آتی تو ایک چھوٹی موٹی مہا بھارت چھڑ جاتی تھی ۔

کبھی کبھی پرستت چڑ کر کہتا ‘”بابا نے پورے گھر کو لائبریری بنا رکھا ہے ۔ جہاں دیکھو کتابیں ہی کتابیں۔۔ لگتا ہے ہم گھر میں نہیں، لائبریری میں بیٹھے ہوئے ہیں۔“

میّنْک جی کہتے، ”یہ احساس ہو تو برا کیا ہے؟ خاص کر اس کے لئے، جسے اپنے کیریئر کے لئے پڑھنا ہی پڑھنا ہے۔ ایسے ماحول میں رہنے سے پڑھائی اچھی ہوتی ہے۔“

پرستت کہتا، ”اس دکھاوے کی لائبریری میں میرا دل کیا لگے گا ۔ اس میں ایک بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو میرے کیریئر میں مدد دے سکے ۔ ایک بار یونہی فارغ وقت میں ایک نظموں کی کتاب لے کر بیٹھ گیا۔ نظمیں تو اپنی سمجھ میں نہیں آئیں۔ جو کچھ اپنا پڑھا تھا، اسے بھی بھولنے کی نوبت آ گئی“

راجیشوری بولیں، ”یہ سب چیزیں بھول کر بھی نہیں پڑھنا بیٹا۔ اپنے پاپا کی طرح بگڑ جاؤ گے۔“

میّنْک جی نے کہا، ”تم سب پڑھے لکھے جاہل ہو۔ ہیرے کو پتھر سمجھتے ہو۔ میں کیا کہوں۔“

”کہو گے کیا؟“ راجیشوری بولیں، ”اس بار مکان بدلنے سے پہلے ان کتابوں کو ٹھکانے لگا دو۔ مجھ سے بار بار پیکنگ کرتے نہیں بنتا ۔ اس کے علاوہ یہ جگہ تو گھیرتی ہی ہیں، اپنے دو تین صندوق بھی اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ تو صرف انہیں ڈھونے کے لئے ہی رہ گئے ہیں۔ بیکار ڈھونے سے کیا فائدہ؟“

میّنْک جی نے بھی سوچا بیگم ٹھیک ہی بول رہی ہے۔ ناپسند چیزوں کو ڈھونا پڑے تو وہ بوجھ ہی بن جاتی ہیں۔ اپنا مکان ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی، لیکن ان حالات میں تو واقعی تکلیف دہ ہے۔

کافی دیر غور و خوض کے بعد میّنْک جی نے فیصلہ کیا کے اپنی کتابوں کو کسی لائبریری کو دے دیں گے۔ گھر کا بوجھ بھی ختم ہوگا، لائبریری والوں کو بھی خوشی ہوگی اور کتابیں قارئین تک پہنچ جائیں گی۔ ان کے پاس ایسی ایسی نایاب کتابیں تھیں جو کسی بھی لائبریری کے لئے قابلِ فخر ہوتیں۔ ہر کتاب ایک موتی ہے۔ موتیوں کی اس لڑی کو مناسب مقام پر رکھنا ہی بہتر ہوگا۔

میّنْک جی شہر میں لائبریری ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ انہیں حیرت ہوئی کہ شہر میں کوئی لائبریری نہیں تھی۔ آزاد بھارت میں یہ نیا شہر بسا تھا۔ نئے شہر میں نئے امیر آ کر بسے تھے۔ یہ لوگ ہر عمر کے تھے۔ اپنے پیشوں اور حالات کا غلط استعمال کر کے اناپ شناپ دھن بٹور کر، اس شہر میں انہوں نے کوٹھیاں کھڑی کی تھیں۔ دولت کے بل بوتے پر کھڑی ان عمارتوں میں باھر سے ایک قسم کی رومانیت اور اندر سے پُر اسراریت نذر آتی تھی۔ ان کوٹھیوں میں سندر سندر کتے اور اپنی شان بنائے رکھنے والے نوکر چاکر نظر آتے تھے۔ ان کوٹھیوں کے خوبصورت پھاٹکوں پر پتلوں کی طرح دربان کھڑے رہتے تھے – اس شہر کی سڑکیں سبک رو تھیں، جن پر بجلی کے اونچے اونچے کھمبے تھے – عالیشان بازار تھے شاندار دکانیں تھیں۔ ان میں ادبی کتابوں کو چھوڑ کر دنیا بھر کا سامان ملتا تھا ۔ چند دن پہلے کتابوں کی ایک فیشنیبل دکان ضرور کھلی تھی، جہاں خوبصورت بنانے کے مشوروں سے بھری کتابیں اور بدیسی عورتوں کی چکاچک تصویروں والے رسالے اور انگریزی کے چالو ناول بکتے تھے ۔ انگریزی میں لکھی پامسٹری اور کیریئر کو کامیاب بنانے والی کتابیں بھی وہاں مل جاتی تھیں ۔ پر ادب تو دور کی بات، ہندی کی کوئی کتاب وہاں نہیں دکھائی دیتی تھیں۔

آزاد دیش کے نئے بنے شہر میں چاروں طرف انگریزی کی بھرمار تھی ۔ شہر میں خوبصورت بنانے کے لئے کئی بیوٹی پارلر کھل گئے تھے۔ متناسب ڈیل ڈول بنانے کے لئے جم کھل گئے تھے۔ چستی پھرتی بنائے رکھنے کے لئے گالف کورس اور کلبس کھل گئے تھے۔ دل کے امراض اور شکر کی بیماری کے لئے دواخانے کھل گئے تھے، جن میں موجود ہر ڈاکٹر اپنے آپ کو ماہر کہتا تھا ۔

اتنی خوبصورت چیزوں کے درمیان میّنْک جی کو ایک خوبصورت تو کیا ، بدصورت لائبریری کی پرچھائی بھی نظر نہیں آئی ۔ کچھ دانشوروں نے ضرور ایک کافی ہاؤس بنانے کی مانگ اٹھائی تھی ۔ ویسے ان میں سے کچھ دانشور پیسوں کے بل بوتے پر مہنگے کلبوں میں گھس گئے تھے ۔ ان کلبوں میں شراب پی کر تاش کی چکنی گڑیوں سے اپنا دل بہلاتے تھے ۔ ان کلبوں میں اس کے علاوہ سنوکر، بلیرڈس ، ٹیبل ٹینس اور لان ٹینس کھیلنے کا بھی انتظام تھا ۔ لیکن لوگوں کا دل سیاسی بحثوں اور افواہوں میں لگتا تھا ۔ اتنی ساری آسائشوں کے ہوتے ہوئے کتابوں کی بات سوچی بھی نہی جا سکتی تھی ۔ نہیں تو بڑے کلبوں میں کیا لائبریری نہیں بنائی جاسکتی تھی؟ پہلے کے کلبوں میں ضرور ہوتی تھی۔

اس بیچ شہر میں کئی سائبر کیفے کھل گئے تھے ۔ انگریزی فلموں کے لئے دو سنیما ہال بھی کھل گئے تھے ۔ نئی نسل انہی جگہوں پر اپنا وقت بِتانا پسند کرتی تھی ۔ میّنْک جی نے لائبریری کی چھان بین سے مایوس ہو کر کئی سماجی اور مذہبی اداروں اور ٹرسٹوں سے جڑے لوگوں سے بات کی – کسی کو بھی لائبریری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا ”ارے صاحب، ادبی کتابیں پڑھنے کی اب کسے فرصت ہے۔ اب تو لونڈے جنرل نالج کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں ۔ اسی میں انہیں سب کچھ مل جاتا ہے ۔ اسی کو پڑھ کر لوگ چھپر پھاڑ کے لکھپتی، کروڑ پتی بھی بن چکے ہیں۔۔“

میّنْک جی نے انہیں اس کے باوجود لائبریری بنانے کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی ، اچھے ادب کے ذریعے اچھی تہذیب کا ذکر کیا ۔ خود کئی سو کتابیں لائبریری کے لئے مفت دینے کی بات کی، پر ان میں سے کوئی بھی ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوا۔
میّنْک جی نے اس سلسلہ میں ایک خط لکھ کر چار اخباروں میں بھی بھیجا ۔ ایک اخبار نے اس خط کو کاٹ چھانٹ کر ’ایڈیٹر کے نام خط‘ کے کالم میں چھاپ دیا۔ میّنْک جی اپنے خط کی بونسائی کو لے کر شہر کے میئر سے ملے اور سرکار کی مدد سے لائبریری بنانے کی مانگ رکھی۔

میئر نے اگلے سال کے بجٹ میں اس بات پر سوچنے کا یقین دلایا۔ میّنْک جی لوٹ آئے۔

اس طرح لائبریری کا ذکر کرتے اور ممکنات کی تلاش کرتے تین موسم بیت گئے ۔ وہ میئر بدل گئے۔ شہر میں ایک عالیشان ہوٹل کھل گیا ، جس کے بہترین بار کا افتتاح ایک بدیسی اداکارہ نے کیا جو ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں بھارت آئی تھیں ۔ شہر کے سبھی موٹی جیبوں والوں کو وہاں دعوت دی گئی تھی ۔ جنہوں نے وہاں جا کر ایک چھوٹا سا غدر مچایا تھا ۔ اس دوران ہوٹل کے علاوہ تین بدیسی فاسٹ فوڈ ریستوران بھی کھلے ۔ سرکاری زمین پر زبردستی قبضہ کر کے پانچ مندر، دو مسجد اور ایک گردوارہ بنایا گیا ۔ دلت سینا نے ہلّہ بول کر ایک پبلک پارک کا نام تبدیل کر کے ’امبیڈکر پارک‘ رکھ دیا اور اس میں گوتم بدھ اور بابا صاحب کی مورتیاں لگا دیں – ہاں دو انگریزی اسکول بھی اپنی شاندار عمارتوں کے ساتھ نمودار ہو گئے، جن میں اپنے بچوں کو داخلہ دلانے کے لئے لوگ اپنی جان اور مال لٹانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود میّنْک جی کوئی لائبریری نہیں کھلوا سکے، جہاں وہ اپنی کتابوں کا صحیح استعمال کر سکتے۔

جیسا کہ انہیں پتہ تھا اس مکان کو چھوڑنے کا وقت آ گیا تھا ۔ مکان مالک نے نوٹس دے دیا ۔ اس بیچ شہر میں مکانوں کا کرایہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ میّنْک جی موجودہ فلیٹ سے کسی چھوٹے فلیٹ میں جانے پر مجبور تھے ۔ ہر بار مکان چھوڑنے کے بعد نئے مکان کا کرایہ بڑھ جاتا اور جگہ کم ہوجاتی۔ اس بار جو حالت تھی، اس میں اپنا کچھ فرنیچر بیچے بنا فلیٹ میں رہنا مشکل تھا ۔

ہر بار مکان چھوڑنے کے وقت میّنْک جی بیحد تناؤ میں جیتے ۔ اپنا مکان نہ بنا پانے کے لئے راجیشوری انہیں ذمّہ دار مانتی ۔ میّنْک جی کو جلی کٹی سناتی ۔ بیٹا پرستت بھی پیچھے نہیں رہتا، وہ کہتا ”اپنی زندگی تو سرکس کی زندگی ہو گئی ہے ماں، تنبو کھولو اور تنبو تانو“

میّنْک جی کے پاس پڑھنے کی ایک بڑی میز تھی۔ راجیشوری نے کہا، ”یہ میز بہت جگہ گھیرتی ہے، اسے بیچ دو۔ شادی کے وقت ملا ڈبل بیڈ بھی بہت زیادہ جگہ گھیرتا تھا، اسے بھی بیچنا طے ہوا۔ڈائننگ ٹیبل بھی جگہ گھیرتا تھا، اسے بیچ کر ایک گول فولڈنگ ٹیبل خریدنے کی بات سونچی گئی۔ کتابوں کی چار الماریوں میں سے تین الماریاں بیچنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا۔ الماریاں میّنْک جی نے درجنوں میں سے پسند کر کے بڑے ارمان سے خریدی تھیں۔ انہیں خریدتے وقت انہوں نے اپنے کتنے ہی خرچوں کی کٹوتی کی تھی، مگر اب بیچنے کی لاچاری تھی۔

میّنْک جی نے اخبار میں فرنیچر بیچنے کا اشتہار دے دیا۔ ساتھ ہی اپنی کتابیں بھی کسی قابل ادارہ یا تنظیم کو مفت دینے کی بھی خبر چھپوا دی۔ الماری سمیت کتابیں دینے کی تجویز انہوں نے موٹے اور جلی حروف میں چھپوائی تھی، بس شرط یہی تھی کہ لینے والا قابل اور تعلیم یافتہ ہو، جو کتابوں کی حفاظت کرے۔

اشتہار کے جواب میں ان سے فرنیچر خریدنے کے لئے کئی لوگ آئے۔ ان میں سے جسے جو فرنیچر پسند آیا، سستے داموں میں سودا کر کے اٹھا لے گیا ۔ کتابوں کے ساتھ الماری لینے کے لئے کوئی تیّارنہیں ہوا۔ ایک آدمی اپنی دکان میں اپنا سامان رکھنے کے لئے الماری لینا چاہتا تھا۔ بھری الماری اس کے لئے بیکار تھی۔ مجبوراً ساری کتابیں نکال کر اسے خالی الماری آدھی سے بھی کم قیمت پر بیچ دی گئی۔ پندرہ دنوں میں فرنیچر نکل گیا، کتابیں رہ گئیں۔

میّنْک جی کے دل میں کتنا دکھ تھا، اسے وہ بتا نہیں پا رہے تھے۔ کتابوں سے بچھڑنے کی بات سوچ کر وہ کتابوں سے جیسے اور چپکتے جا رہے تھے۔ وہ دن بھر ان کتابوں کے درمیان بیٹھے ان کے صفحے پلٹتے اور اپنے خیالوں میں ڈوب جاتے۔ ہر کتاب کو دیکھتے اور یاد کرتے کہ اسے انہوں نے کب اور کیسے تنگی کے باوجود خریدا تھا۔ ایک کتاب تو کئی سال ڈھونڈنے کے بعد ملی تھی۔ دو کتابیں ایسی تھیں، جنہیں خریدنے کے بعد ان کے پاس گھر لوٹنے کے لئے پیسے کم پڑ گئے تھے۔ اس دن وہ گھر پیدل آئے تھے۔ ایک دن کچھ سودا خریدنے نکلے تھے، مگر کتاب کی دکان پر ایک مہنگی کتاب پسند آ گئی تو وہ سامان خریدنے کی بات بھول کر کتاب خرید لائے تھے۔ اس دن انہیں راجیشوری سے ڈانٹ کھانی پڑی تھی – ایک کتاب کی وجہ سے تو ان کی ایک دوست سے ان بن ہوگئی تھی۔ کچھ کتابیں تو انہیں کالج میں انعام میں ملی تھیں – کچھ دوستوں نے محبت سے اپنے دستخط کر کے انہیں دی تھیں۔ ہر کتاب پر وہ ہاتھ پھیرتے اور وہ کتاب جیسے بولنے لگتی تھی۔

انہیں اس بات کا بہت دکھ تھا کہ ابھی تک کتابوں کا کوئی قابل وارث نہیں ملا تھا۔ ان کے ادبی دوست بھی ان کی مدد نہیں کر پائے تھے – دو چار چنی ہوئی کتابیں تو وہ لینے کو تیّار تھے،لیکن ساری نہیں۔۔

میّنْک جی کو ایک بات یاد کر کے ہنسی آ گئی۔ ایک بار ان کے گھر میں ایک لڑکا کام کرنے آیا تھا۔ ان دنوں راجیشوری بیمار تھیں۔ ان کی مدد کے لئے اپنے ایک جاننے والے کی سفارش پر اسے رکھ لیا۔ وہ لڑکا کام کاج میں ٹھیک ہی تھا ۔ ایک دن پرستت نے بازار میں کباڑی کی دکان پر ان کی دو تین کتابیں بیچتے پکڑ لیا۔ پتہ چلا وہ اکثر میّنْک جی کتابوں کے ڈھیر سے ایک دو موٹی موٹی کتابیں چھانٹ کر باہر بیچ آتا تھا۔ ان پیسوں سے کچھ کھا پی آتا تھا۔ میّنْک جی نے دل جما کر ڈھونڈا تو پتا چلا کہ درجن سے زیادہ موٹی کتابیں وہ پار کر چکا تھا۔ اسے انہوں نے ہاتھ جوڑ کر گھر سے نکال دیا اور قسم کھالی کہ اب ایسے کسی چٹور کو گھر میں نہیں گھسائیں گے ۔ میّنْک جی کو اِس وقت لگا کہ چلو اچھا ہوا، ان کی کتابیں کسی غریب کے کام آئیں ۔ اس وقت تو یہ کتابیں پورے گھرانے پر بوجھ تھیں ۔

میّنْک جی بوجھل من سے بیٹھے تھے اور انہیں کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی – تبھی ان کے فلیٹ کی گھنٹی بجی – پرستت نے دروازہ کھولا ۔ باہر ایک آدمی کھڑا تھا، اس نے کہا، ”سنا ہے آپ کے پاس کتابیں ہیں۔ میں انہیں لینے آیا ہوں“

پرستت خوشی سے اچھل پڑا، اس نے کہا، ”اندر آیئے۔“

اس کے اندر آنے کے بعد پرستت نے کہا، ”یہ کتابیں لینے آئیں ہیں، دے دیجئے“

پھر پرستت نے پوچھا ”آپ کتابیں کس میں لے جائیں گے؟’“

اس نے کہا ”اپنا ٹھیلا ہے – رکشہ ٹھیلا۔۔“

میّنْک جی نے پوچھا ”آپ کرتے کیا ہیں؟“

‘”جی کباڑی ہوں۔“

میّنْک جی چونکے، بولے ”میں کتابیں کباڑ میں بیچنا چاہتا ہوں، یہ آپ سے کس نے کہا؟“

”دن بھر اسی دھندے میں گھر گھر گھومتے رہتے ہیں بابو جی۔ پتہ چل گیا۔“

”یہ بہت اچھی کتابیں ہیں ۔ انہیں کباڑ میں کیسے بیچا جا سکتا ہے؟“

”بابو جی، اس سے بھی اچھی کتابیں، نئی نئی کتابیں بھی لوگ کباڑ میں ہی بیچ دیتے ہیں۔ کئی بار ہم لینا نہیں چاہتے تو کچھ لوگ یوں ہی دے دیتے ہیں۔“

”یوں ہی!؟“ میّنْک جی کے منہ سے نکلا – وہ چپ ہو گئے۔

”ارے واہ! یوں ہی کیسے دے دیں؟“ کباڑی کو دیکھ کر پرستت کا تاجرانہ ذہن جاگ اٹھا، ”یہ ساری ٹاپ کی اسٹوری ، ناول اور پوئٹری کی کتابیں ہیں۔ ہر کتاب چوتھائی قیمت پر دیں گے۔ تم آدھی قیمت پر بیچ دینا“

”ہم تو کیلو کے حساب سے خریدتے ہیں بابو۔۔ چار روپے کلو۔“

کچھ دیر پرستت اور کباڑی کا مول تول چلتا رہا – دونوں ہی دبنے کے لئے تیّار نہ تھے – میّنْک جی عجیب نظروں سے دونوں کو دیکھتے رہے، اچانک بولے، ”جب کباڑہی ہے تو کیا بحث کرنا۔ جب بوجھ ہی ہے تو کیسا موہ ۔ میں تو ان کتابوں کو مفت میں کسی قابل آدمی کو دینے کو تیّار تھا ۔ خیر اب یہ جو دے دیں، لے لو۔“

”آپ ریٹ مت خراب کیجئے پاپا!“ پرستت نے کہا

راجیشوری رسوئی میں تھی، وہ وہیں سے بولی ”تمہارے پاپا ساری زندگی ریٹ ہی خراب کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ ڈھنگ سے اپنے ہنر کو بیچ پاتے تو ہم اس سے بہتر زندگی جی سکتے تھے۔۔۔“

میّنْک جی اٹھ کر اندر کمرے میں چلے گئے ۔ انہوں نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ انہیں لگا، وہ اندھیری دلدل میں پھنس گئے ہیں اور اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close