جب رکشے والے کے دماغ کا ارادہ نہیں تھا۔۔

حسنین جمال

رکشے والا خود اپنے آپ پہ ہنس رہا تھا لیکن یہ ہنسی وہ نہیں تھی، جو ہم دوستوں یاروں میں قہقہے لگاتے ہیں۔

یہ اس طرح کا ہنسنا تھا، جیسے اندر سے کوئی بات باہر نکلنے کو مچل رہی ہو، لیکن اس میں آپ کو ڈر ہو کہ بات کہہ دی تو سامنے والا مذاق اڑائے گا، اور پھر بالآخر آپ کسی طرح کہہ دیں اور بے فکرے ہو کے ہنسنے لگ جائیں۔

ملتان گیا چند ماہ پہلے، بس اڈے سے گھر جانا تھا۔ پچھلی دو مرتبہ سے یہ ہو رہا تھا کہ ایک ہی رکشے والا اتفاق سے باہر کھڑا ہوتا، اسے راستہ یاد تھا، وہ آٹومیٹک طریقے سے گھر لے جاتا تھا۔ اس مرتبہ وہ نہیں تھا، کوئی نئے صاحب تھے، اُن سے بھاؤ تاؤ کر کے بیٹھ گیا۔

اب جو پہلا فلائے اوور آیا، اس پر سو فیصد اوپر جانا بنتا تھا۔ رکشے والا اس کے عین نیچے سڑک پر چلنا شروع ہو گیا۔

میں حیران کہ راستہ کوئی ہے نہیں دائیں بائیں سے میرے گھر کا، سیدھی سڑک تھی اوپر والی، پھر سوچا شاید اس کے رکشے میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ پُل پر چڑھ سکے، حالانکہ نیا رکشہ تھا۔

آخر میں نے اس سے پوچھ لیا کہ ’یار سیدھا راستہ تھا، کیا رکشہ چڑھ نہیں سکتا اوپر والی سڑک پر؟ یا گئیرز میں خرابی ہے کوئی؟ مسئلہ کیا ہے، نیچے سے کوئی شارٹ کٹ ہے کیا؟‘

جھینپتے ہوئے ہلکی سے مسکراہٹ سے کہنے لگا ’سر میرے دماغ نے ارادہ نہیں کیا تھا اوپر سے جانے کا۔‘ اس کے بعد ہنسنے لگ گیا۔ میں نے پھر پوچھا کہ ’ارادہ کیا مطلب یار، رکشہ یا گاڑی تو آٹومیٹک چلتے ہیں، بندہ دماغ پہ زور دے کے تھوڑی چلاتا ہے۔‘

ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ’بس سر جی دماغ نے ارادہ نہیں کیا تو میں سیدھا ہی آ گیا، رکشہ میرا نیا ہے، بس ویسے ہی۔‘ پھر میں بھی ہنسنے لگ گیا۔

میں تب سے اب تک یہ سوچ رہا تھا کہ آخر اس بات میں ایسا کیا ہے، جو مجھے نئی سی لگی، عجیب لگی۔ آج خیال آیا کہ یہ شاید رکشے والے کی سادگی تھی اور سچائی تھی جو مجھے روٹین سے ہٹ کے لگی، اچھی لگی۔

کوئی بھی ڈرائیور ہو، اس کے پاس اپنے مطلوبہ راستے سے منزل تک جانے کے لیے سو وجوہات ہوتی ہیں۔ کہیں پہ سگنل زیادہ ہیں، کسی روڈ پہ ٹریفک پھنسا ہوتا ہے، کہیں اسپیڈ بریکر زیادہ ہیں، لیکن یہ والی موج شاید ہی کسی کے پاس ہوتی ہو کہ ’دماغ نے ارادہ نہیں کیا تھا۔‘

مزید آسان لفظوں میں ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کا دل نہیں کر رہا تھا اوپر سے جانے کو اور وہ سکون سے نیچے چلتا رہا، میں نے پوچھا تو جھوٹ نہیں بولا مگر اپنی بات کے ٹھیک سمجھے جانے کا اسے بھی یقین نہیں تھا۔

تو خیر اس کے بعد باقی راستے وہ ’بائے ایئر‘ ہی رہا اور سکون سے گھر پہنچ گیا۔ بائے ایئر اس لیے کہا کہ اب الحمدللہ ملتان میں سڑک کم ہے اور پُل زیادہ ہیں تو زیادہ تر سفر بائے ایئر ہی کٹتے ہیں۔

یہ والی سادگی اب شارٹ ہو چکی ہے۔ سیدھی بات پہ کوئی یقین نہیں کرتا شاید اس لیے، یا تفصیلیں بتانا ہماری مجبوری بن چکا ہے اور سیدھی سادی بات کی تفصیل کوئی ہوتی ہی نہیں۔

ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب ہم لوگ خواہ مخواہ کے متجسس ہو چکے ہیں اور سادی چیز میں بھی پیچیدگی ڈھونڈ کر اس سے مزہ لیتے ہیں۔

ایک چیز کا شکار تو میں بھی ساری عمر رہا، وہ یہ کہ سادی بات عموماً سخت ہوتی ہے، اگر کہہ دی جائے تو لوگوں کے ناراض ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسے کہنے کے لیے بھی صراطِ مستقیم جیسی کہانی ٹیڑھی میڑھی کر کے بتانا پڑتی ہے۔

آخری چکر جو مجھے سمجھ آتا ہے، وہ یہ کہ ساری باتیں پرانی ہو چکی ہیں۔ انفارمیشن اوورلوڈ اور چوبیس گھنٹے موبائل پنتھی کے بعد سادے نزلے زکام پہ آپ کو چھٹی کیوں ملے گی؟ مثال دے رہا ہوں۔ یونیورسٹی سے اگر آپ نے فلو کا بتا کر چھٹی مانگی تو کون دے گا؟ کچھ مشکل سی، کم پائی جانے والی بیماری بتائیں گے تو پورا ہفتہ بھی آف مل سکتا ہے تاکہ باقیوں میں نہ پھیل جائے۔

تو، وہ رکشے والا، عجب آزاد مرد تھا، مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کر گیا کہ سیدھی بات کر دینا زیادہ بہتر ہوتا تو بے شک ہے لیکن اس کے بعد وہ بات ٹھیک سمجھی بھی جائے، یہ پھر قسمت ہی ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close