سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 14)

شہزاد احمد حمید

”لو میں تمہیں بتانا بھول گیا ہوں۔“ سندھو کی آواز نے مجھے متوجہ کیا ہے، ”یہاں لیہہ میں ہندوستان کا سب سے بڑا ٹرانس نیشنل پارک ’ہمس‘ واقع ہے۔ یہ برفانی چیتے کا سب سے گنجان آباد اور سب سے بلند پارک ہے۔ اس کے علاوہ میرے کنارے دو کوہان والے اونٹ ’نبرا ویلی‘ میں پائے جاتے ہیں۔ یاک اس دریا کے کنارے عام ملتا ہے جبکہ برھال اور شیفو بھی پائے جاتے ہیں۔“

میں نے پوچھا؛ ”یہ برھال اور شیفو کون سے جانور ہیں۔“

کہنے لگا؛ ”برھال تمہارے دیس میں پہاڑی بکرا اور شیفو بڑے سینگوں والا مار خور کہلاتا ہے“
میں لیہہ سے اپنی اگلی منزل کو چل پڑا ہوں۔ لیہہ پیچھے رہ گیا ہے۔ یاد رکھو لداخ اور لیہہ قریب قریب ہی ہیں۔ لداخ صوبہ اور لیہہ اس کا صدر مقام ہے۔ پہاڑ اونچے اور بنجر ہیں۔ میرا دوست سندھو کافی گہرائی میں بہہ رہا ہے۔ گہرائی سے اسے بہتے دیکھنا جوکھم کا کام ہے۔ دن آدھا ڈھل چکا ہے۔ خاموش اور پرسکون ماحول میں زندگی کی واحد علامت سندھو کا شور ہے۔ چرواہوں کے علاوہ مجھے کوئی اور دکھائی نہیں دیا ہے۔ برفیلے پہاڑوں کے دامن میں چند گھرانوں کا چھوٹا سا گاؤں نظر آ رہا ہے۔ ڈھلوانوں پر تہہ در تہہ کھیت لٹکے ہیں۔ درختوں کے جھنڈ میں کچھ بھیڑیں بھی ہیں۔

میں نے نواز سے پوچھا؛ ”یہ کون سی بستی ہے؟“
جواب ملا؛ ”یہ ’اپشی‘ ہے۔ پشمینہ (اون کی خاص قسم جس سے انتہائی گرم اور نرم شال تیار کی جاتی ہے۔) کے لئے مشہور۔“

شال بافی کا ہنر کشمیری نور بافوں سے بہتر دوسرا کوئی نہیں جانتا ہے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہوا سرگوشیاں کر رہی ہے۔ گھنے درختوں کو چھوتے آبشار جل ترنگ بجاتے پہاڑ کی بلندی سے نیچے دھار کی صورت اتر رہے ہیں۔ جھاگ اڑاتے پانی کے ننھے ننھے قطرے چہرے پر پھوہار کی صورت میں گرتے دل مچلاتے ہیں۔ میں نے پاس سے گزرتے غلہ بان سے پوچھا؛ ”پشمینہ کس جانور کے بالوں سے بنتی ہے؟“
اس نے جواب دیا؛ ”اپشی کی بکری کے بالوں سے۔ یہ بکریاں انہی اونچے پہاڑوں پر رہتی ہیں۔ گرمی ان کے مزاج کو نہیں بھاتی۔ ایک بھیڑ سے سال بھر میں 200 سے لے کر 500 گرام تک پشمینہ اترتا ہے۔“
میں نے گڈریے سے پوچھا؛ ”اس کے ریوڑ میں کتنی بکریاں ہیں؟ کیا ساری تمہاری ہیں؟“
اس نے جواب دیا؛ ”ایک ہزار تو ہوں گی۔ میری تو صرف 50 ہیں باقی ٹھیکیدار کی ہیں۔ ان سب سے پشمینہ حاصل ہوتا ہے۔“ یہ جواب دے کر وہ اپنی راہ ہو لیا اور پیچھے دھول اور ریوڑ کی بو باقی رہ گئی ہے۔

واہ میرے اللہ؛ تو نے ہر علاقے کو اپنی خاص عنایات سے نوازا ہے۔۔ سبحان اللہ

سندھو کی آواز نے پھر سے متوجہ کیا ہے؛ ”کیسی لگی اپشی کی بکریاں۔ قد کی چھوٹی ہیں لیکن کام کی بڑی۔ یہاں کے نور باف اعلیٰ قسم کی شالیں اور مفلر صدیوں سے اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے آئے ہیں اور منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ میں یہاں کے لوگوں کو کوئی فائدہ تو نہیں دیتا، الٹا ان کے جان و مال کا نقصان کرتا ہوں، پر یہ لوگ مجھ سے ناراض نہیں ہوتے بلکہ میری پوجا کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں میرے غضب سے۔۔ یہ تو تم ہو جس سے میں پیار کرتا ہوں۔“

پرانے وقتوں میں سری نگر سے لداخ تک چار سو ساٹھ (460) کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں 16 دن لگتے تھے۔اب یہ سفر سمٹ کر چند گھنٹوں کا رہ گیا ہے۔ پرانی دشوار گزرگاہ کو جدید سائنس نے سہل بنا دیا ہے لیکن راستہ اب بھی خطرناک اور انتہائی اونچے پہاڑوں اور تنگ دروں سے گزرتا ہے۔ پہلی بار آنے اور کمزور دل مسافروں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ موٹر کاروں نے گھوڑے اور خچر کی اہمیت کم کردی ہے البتہ گھوڑے اور خچر آج بھی وہاں پہنچتے ہیں، جہاں موٹر گاڑیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ایک بات طے ہے جدید سہولیات نے اُس دور کا سکون اور پیار چھین لیا ہے۔میں بدھ بھکشوؤں کی خانقاہ کے قریب سے گزرتے اپشی کو نظروں سے اوجھل کر آیا ہوں۔ میں نے نواز سے پوچھا؛ ”ہم کہاں پہنچنے والے ہیں۔“
جواب ملا؛ ”سہ پہر تک ’چھی شوت‘ پہنچ جائیں گے۔“

”کیا تم جانتے ہو اسلام کا محبت اور بھائی چارے کا پیغام اسی مقام سے لداخ وادی میں پھیلا تھا۔ بلبل شاہ اور پھر سید علی ہمدانیؒ یہیں تشریف لائے تھے۔ وہ چھوٹی سی مسجد جس میں تم نے عصر کی قصر نماز ادا کی ہے، بڑی تاریخی ہے۔ وہاں تو حضرت علی ہمدانیؒ نے کئی نمازیں ادا کی تھیں۔“ داستان گو نے بتایا۔ یہاں سے روانہ ہوئے تو ڈوبتے سورج کی بے جان ہوتی کرنیں شام کا سندیسہ ہیں

لیہہ سے چالیس (40) کلو میٹر کی مسافت پر واقع ’ملبیک‘ (mulbeck) بستی آج کا ٹھکانہ ہے۔ جیپ چل پڑی ہے۔ جتنا شور مچاتا سندھو ہے، اتنی ہی خاموش اور سنسان سڑک۔۔ کہیں کہیں ان پہاڑوں سے اترتی آبشاریں نغمے سناتی ہیں تو جھرنے جل ترنگ بجاتے سندھو میں اترتے ہیں۔ یہ سب نہایت پر کیف نظارے ہیں۔ کہیں کہیں چشموں کا پانی پتھروں سے ٹکراتا شور مچاتا پانی کے چھینٹے اڑاتا گیت گاتا سفر کو نیا رنگ دے جاتا ہے۔ لیہہ سے صبح چلے تھے اور اب وادی میں شام اترنے لگی ہے۔ میں ہر سو پھیلے قدرتی نظاروں سے دل بہلاتا چلا جارہا ہوں۔ ہر فکر سے آزاد۔۔ بقول ساحر لدھیانوی ”میں ہر غم کو دھویں میں اڑاتا چلا گیا۔“ میں ہر فکر کو یہاں کے نظاروں میں گم کرتا جا رہا ہوں۔

بل کھاتا راستہ کبھی بلندی کی طرف چلا جاتا ہے تو کبھی ڈھلوان میں اترنے لگتا ہے۔ کہیں اتنا تنگ ہے کہ بمشکل جیپ ہی رینگ سکے اور کہیں اتنا چوڑا کہ یہ دوڑتی چلی جائے۔ اکا دُکا گاڑی ہی راہ میں دکھائی دی ہے۔ سورج دور ہوتا قراقرم کے پہاڑوں میں اترنے کو ہے۔ اپریل کے آخری دن ہیں مگر موسم اب بھی کافی سرد ہے۔ خنک ہوا موسم کو مزید خنک کئے ہوئے ہے۔ البتہ برف سے ڈھکے پہاڑوں سے کہیں کہیں سبزہ نظر آنے لگا ہے۔ تھکن نواز کے چہرے سے عیاں ہے۔ان پہاڑی راستوں پر گاڑی چلانا آسان نہیں۔ اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر تو ہمت بھی ٹوٹتی ہے۔ میرا دوست سندھو کب سے دہائی دے رہا ہے؛ ”یہ سبزہ ملبیک کی آمد کا اعلان ہے۔“ اس کی آواز اسی کے شور میں گم ہوئے جاتی ہے۔

ملبیک پہنچے تو سورج کی سرمئی کرنوں نے خوب نظارہ تراش رکھا ہے۔ وادی اور پہاڑوں کا رنگ ہی بدل گیا ہے۔ آسمان پر بادل کے چند آوارہ ٹکڑے، ڈوبتا سورج، برفیلی چوٹیاں، جاڑا، شام کی مسکراتی ہوا میں پہاڑ کی ڈھلوانوں پر لٹکے لہراتے کھیت، مسرور انسان، گھروں کو لوٹتے تھکے ہارے پرندے، سبحان اللہ۔۔ یہ ہے ملبیک کی چھوٹی سی پرسکون بستی۔ایسے نظارے اللہ نے ان پہاڑ واسیوں کی قسمت میں ہی لکھ دئیے ہیں۔ قریبی مسجد سے مغرب کی اذان سنائی دے رہی ہے۔ ”اللہ اکبر، اللہ اکبر۔“ بے شک اللہ سب سے بڑا ہے۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتا مسجد پہنچا کہ اس فرض کو جتنا جلدی ادا کیا جائے اللہ کے ہاں اتنا ہی مقبول ہے۔ لکڑی کی بنی 100سال سے زائد پرانی مسجد مقامی ہنر مندوں کی کاریگری کا عمدہ نمونہ ہے۔

عظیم سندھو کہاں چپ رہ سکتا ہے، کہنے لگا؛ ”لو ہم لیہہ کی شاندار وادی کے دل موہ لینے والے مقام ’ملبیک‘ پہنچے ہیں۔ یہ مسجد جس میں تم نماز ادا کر کے آئے ہو بڑی قدیم ہے۔ اس کا وہ حصہ جو مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا، ابھی تک اپنی اصل حالت میں ہے جبکہ آدھا یہاں کے مخیّر حضرات کے تعاون سے از سر نو تعمیر کیا گیا ہے۔ سرد موسم میں مسجد کے فرش کو گرم رکھنے کے لئے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے۔ مسجد میں ترکمانستانی قالین بچھے ہیں۔ لیہہ شدید ٹھنڈا مقام ہے لیکن سرد موسم میں آگ اور ایمان کی حرارت سے لوگوں کے سینے گرم رہتے ہیں۔ میں یہاں کچھ پھیلاؤ میں بہتا ہوں۔ یہاں سے 10 کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم ’ہمالیہ-ان‘ غیر ملکیوں کا من لبھاتا ہوٹل اور بڑا پکنک اسپاٹ ہے، جہاں جوڑے اور ’فرینڈز‘ باہوں میں باہیں ڈالے میرے کنارے گھومتے ہیں۔ دیس دیس کے، مختلف رنگ و نسل کے، جوان، بوڑھے، نئے پرانے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ۔۔ میں اُن میں سے بہت سوں کا راز دان ہوں مگر مجال کبھی میرے منہ سے ایک لفظ بھی نکلا ہو۔ میں ان میں سے نہیں ہوں جو دوستوں اور جاننے والوں کے راز فاش کرے یا انہیں بلیک میل کرے۔ میں یہاں آئے سیاحوں کی وفا اور بے وفائی کی داستانوں سے بھی آگاہ ہوں۔ کچھ کو دیکھ کر ہنستا ہوں جبکہ کچھ کو دیکھ کر مجھے افسوس ہوتا ہے۔“

مبلیک میں چٹان پر تراشا ہوا بدھا کا مجسمہ 8/9 قبل مسیح کا ہے۔ اسے دیکھے بغیر یہاں سے گزرنا بد زوقی سمجھا جا تا ہے۔ میں بد ذوق ہر گز نہیں ہوں۔

سورج ہمالیہ کے پہاڑوں میں چھپ گیا ہے۔ اس کی آخری کرنیں بھی غائب ہو چکی ہیں۔ اندھیرا پھیلنے لگا ہے۔ دن کا الاؤ بجھتے ہی اندھیرا کسی کشمیری پجارن کی طرح اپنی سیاہ زلفوں سے ساری وادی کو ڈھانپ لے گا۔ رات سکون کی انتہا ہوگی۔ ان وادیوں کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دن تاریخ اور وقت یاد نہیں رہتا۔۔ بس ایک خمار ہے، جس میں آپ کھو جاتے ہیں۔ کشمیر کا خمار، دنیا کی جنت کا خمار۔۔ مجھ پر بھی پچھلے چند دنوں سے ایسے ہی خمار کا بخار ہے۔ افق پر طلوع ہوتا میرا دوست ’رات کا راہی‘ اپنی مدھم سی روشنی کا جلوہ دکھانے اونچے پہاڑوں کی اوٹ سے جھانکنے لگا ہے۔ نمودار ہوتے ستارے بھی اپنی محفل سجانے کو ہیں۔ یہ محفل اُس وقت عروج پر ہوگی، جب چندا ماموں اپنی میٹھی روشنی تا حد نظر اتار دیں گے۔ تارے اس کے گرد یوں پہنچ جائیں گے، جیسے مقناطیس کے گرد لوہے کے ذرات۔۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close