دو دوست (فرانسیسی ادب سے منتخب افسانہ)

گی دے موپاساں (مترجم: عقیلہ منصور جدون)

پیرس محاصرے میں تھا۔قحط زدہ تھا۔ محسوس ہوتا تھا جیسے آخری سانسیں لے رہا ہے۔ چھتوں پر سے چرند پرند غائب ہو چکے تھے۔۔ اور شہر کے گٹر خشک ہو چکے تھے۔ لوگوں کو جو ملتا، کھا لیتے۔

جنوری کی ایک چمکیلی صبح جناب موریسوٹ، جو پیشے کے لحاظ سے گھڑی ساز تھا، لیکن موجودہ حالت میں بیروزگار تھا، خالی پیٹ بیرونی شاہراہ پر افسردہ حال چلے جا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ یونیفارم کے پاجامے کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے۔تب اس کا سامنا ایک شناسا سے ہوا، جسے اس نے پہچان لیا۔ وہ اس کا پرانا دوست مسٹر سوویج تھا، جس سے دریا کے کنارے ملاقات ہوا کرتی تھی۔ جنگ شروع ہونے سے قبل ہر اتوار مسٹر موریسوٹ طلوع آفتاب کے وقت گھر سے نکلتا، بانس کی چھڑی اس کے ہاتھ میں ہوتی اور اس کی پشت پر ٹین کا ڈبہ ہوتا۔ وہ ارجینٹیول (فرانس کے ایک کمیون کا نام) ٹرین میں سوار ہو کر کولمبس پر اترتا اور مرانٹے جزیرے تک پیدل چلتا۔ اس خوابوں کے جزیرے پر پہنچ کر وہ مچھلیاں پکڑنے بیٹھ جاتا۔۔ اور رات پڑنے تک اسی میں مگن رہتا۔ وہاں اس کی ملاقات ایک اور جنونی ماہی گیر سے ہوتی، جو کہ ایک صحت مند، خوش مزاج پستہ قد شخص تھا۔ اس کا نام موسیو سوویج تھا۔ وہ روئے نوٹری-ڈیم-ڈی-لورٹی کا بزاز (دوکاندار) تھا۔ وہ آدھا دن ساتھ ساتھ بیٹھے گزار دیتے۔ان کے پاؤں پانی پر جھولتے رہتے۔ اس طرح وہ بہترین دوست بن گئے تھے۔ بعض اوقات وہ بلکل خاموش رہتے اور بعض اوقات وہ خوب گپ شپ لگاتے، لیکن ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اس کے لئیے انہیں الفاظ کا سہرا لینے کی ضرورت نہیں تھی، ان کے احساسات اور ذوق ایک جیسے تھے۔

موسمِ بہار کی صبح عموماً دس بجے جب ہلکی ہلکی دھند دریا کی ہموار سطح سے اٹھ رہی ہوتی اور لہروں کے ساتھ ساتھ بہتی جاتی، ایسے میں دونوں جنونی پرجوش ماہی گیر بہار کے سورج کی خوشگوار حدت اپنی پشت پر محسوس کر رہے ہوتے تو موریسوٹ اپنے ساتھی سے کہتا، ”یہ زندگی ہے، ہاں؟“

اور موسیو سوویج جواب دیتا، ”بے شک، یہی زندگی ہے“

ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی احترام کے لئیے یہی کافی تھا۔۔

موسمِ خزاں میں دن کے اختتام پر جب غروب ہوتا ہوا سورج آسمان پر سرخی بکھیر دیتا اور دریا کے پانی کو قرمزی کر دیتا، جب افق پر آگ لگ جاتی اور پانی گلناری بادلوں کی مختلف شکلیں منعکس کرتا اور دونوں دوستوں کے درمیان موجود درخت جو پہلے ہی سرخی مائل بھورے ہو چکے ہوتے اور موسمِ سرما کی آمد آمد سے کانپتے ہوئے سرخ انگارے اور سنہرے ہو جاتے تو موسیو سوویج، موسیو موریسوٹ کو مسکرا کر دیکھتا اور کہتا، ”کیا منظر ہے!“ اور موریسوٹ، جو اس منظر کی خوبصورتی سے ہکا بکا اپنی نظریں اپنی چھڑی پر جمائے جواب دیتا، ”شاہراہ سے بہت بہتر ،کیا ایسا نہیں؟“

دونوں نے جونہی ایک دوسرے کو پہچانا، گرم جوشی سے مصافہ کیا۔ بدلے ہوئے حالات سے متاثر موسیو سوویج نے آہ بھری اور بڑبڑایا، ”ہم کس گند میں پھنس چکے ہیں۔۔“

موریسوٹ افسردگی سے بولا، ”اور کیسا موسم ہے! یہ اس سال کا بہترین دن ہے“ آسمان بے شک بے داغ چمکدار نیلا تھا۔ وہ افسردہ اور متفکر ساتھ ساتھ چلتے رہے، ”ہماری ماہی گیری کے دن یاد کرو کیا بہترین دن تھے“ موریسوٹ نے بات جاری رکھی

موسیو سوویج بولا، ”میں سوچتا ہوں، ہم دوبارہ کب مچھلیاں پکڑنے جائیں گے؟“

وہ ایک چھوٹے سے کیفے میں داخل ہوئے اور افسنتین پی اور فٹ ہاتھ پر چلنے لگے۔ یکدم موریسوٹ رکا، ”کیا خیال ہے۔۔ ایک اور ہو جائے؟“

”میں انکار نہیں کروں گا“ سوویج نے جواب دیا۔۔ اور دونوں ایک اور کیفے میں داخل ہو گئے

جب وہ باہر نکلے، وہ اسی طرح مدہوش تھے، جس طرح خالی پیٹ شراب نوشی سے لوگ ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ہلکا پھلکا عام سا دن تھا۔ نرم ہوا نے ان کے چہروں کو چھوا۔ نیم گرم فضا نے پہلے سے مدہوش سوویج کو مست کر دیا، وہ رکا اور کہنے لگا، ”چلو چلیں۔۔“

”کہاں؟“

”مچھلیاں پکڑنے۔۔“

”مگر کہاں!؟“

”کیوں، ہمارے مخصوص جزیرے پر۔۔۔ فرانسیسی بیرونی چوکیاں کولمبس سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ میں کرنل ڈومولین کو جانتا ہوں۔۔ وہ ہمیں بغیر کسی پریشانی کے گزرنے دیں گے“

خوشی اور جوش سے کانپتے ہوئے موریسوٹ نے جواب دیا، ”بلکل صحیح۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوں“

وہ اپنا اپنا ماہی گیری کا سامان لینے کے لیے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔۔ایک گھنٹے بعد وہ دونوں ساتھ ساتھ مرکزی شاہراہ پر چل رہے تھے۔ آخر کار وہ اس گاؤں پہنچ گئے، جہاں کرنل نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا۔ وہ ان کی من موجی خواہش پر مسکرایا اور انہیں اجازت دے دی۔ اب اجازت کے ساتھ انہوں نے دوبارہ سفر شروع کیا۔ جونہی وہ چوکیوں کی قطار پار کر کے کولمبس کے ویران گاؤں میں سے گزرے تو اپنے آپ کو انگوروں کے باغیچوں کے کنارے پایا، جو نیچے دریا میں کھڑے جال تک پھیلے ہوئے تھے۔

دریا کے پار ارجینٹیول گاؤں بلکل مردہ دکھائی دے رہا تھا۔ ارگمونٹ اور سینوائس کی بلندیاں سارے مضافاتی علاقے میں نمایاں نظر آ رہی تھیں۔ وسیع میدانی علاقہ جو نینٹرے تک پھیلا ہوا تھا، ننگے چیری کے درختوں اور سرمئی میدانوں کے علاوہ بلکل خالی تھا۔ اونچائی کی طرف اشارہ کرتے ہوے موسیو سوویج بڑبڑایا ”پروشین ادھر اوپر ہیں۔۔“

اس ویران ماحول کو دیکھتے ہی مفلوج کر دینے والے اضطراب سے دونوں دوست مغلوب ہو گئے۔

”پروشین!“ انہوں نے ان میں سے کسی کو اب تک دیکھا نہیں تھا، لیکن پیرس کے ارد گرد وہ ان کی موجودگی سے مہینوں سے واقف تھے۔ فرانس میں تباہی، لوٹ مار، قتل، غارت گری اور قحط انہی کی وجہ سے تھا۔ ان فاتحین کے خلاف دونوں کی نفرت میں خوف بھی شامل ہو گیا

”فرض کرو۔۔ ہماری ان سے ملاقات ہو جائے، تو ہم کیا کریں گے؟“ موریسوٹ ہکلایا

پیرس کے طنزیہ مزاح کے ساتھ، جو ان حالات میں بھی قائم تھا، موسیو سوویج نے جواب دیا، ”ہم انہیں کچھ مچھلی فرائی کرنے کے لیے دیں گے“

اپنے ارد گرد کی خاموشی سے خوفزدہ وہ کھلے عام گھومنے پھرنے سے ہچکچا رہے تھے۔آخرکار موسیو سوویج نے فیصلہ کر لیا۔ ”چلو چلیں!“ اس نے کہا، ”لیکن اپنی آنکھیں کھلی رکھنا!“

اور وہ ایک باغیچے میں جھکے جھکے داخل ہو گئے۔ ان کی آنکھیں اور کان کچھ بھی دیکھنے اور سننے کے لئے تیار تھے۔۔ ابھی بھی دریا کے کنارے پہنچنے کے لیے انہیں کھلی جگہ کا کچھ حصہ عبور کرنا تھا۔ انہوں نے دوڑ لگائی اور جونہی وہ کنارے پہنچے، خشک جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ موریسوٹ نے زمین کے ساتھ کان لگا کر ارد گرد کہیں قدموں کی آواز سننے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دیا۔ وہ تنہا تھے، مکمل تنہا۔۔ مطمئن ہو جانے کے بعد انہوں نے مچھلیاں پکڑنا شروع کیں۔ ان کے سامنے ویران پڑے جزیرے نے انہیں دوسرے کنارے سے چھپا لیا تھا۔ ریسٹورنٹ بند پڑا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے سالوں سے غیر آباد ہو۔ موسیو سوویج نے پہلی چھوٹی مچھلی پکڑی۔ موریسوٹ نے دوسری۔۔ اس کے بعد ہر دوسرے لمحے وہ اپنی بنسیاں اوپر اٹھاتے، جن کے سروں پر سلور رنگ کی مخلوق مچلتی تڑپتی موجود ہوتی۔ حیران کن مچھلیوں کا ریلا تھا۔
محتاط ہو کر وہ مچھلی کو نفاست سے بنے ہوئے جالی کے بیگ میں، جو ان کے پاؤں کے پاس ہی لٹک رہا تھا، ڈال دیتے۔ خوشی کی ایک لہر ان کے سارے وجود میں پھیل گئی۔ ایسی خوشی، جو ایک شخص بہت عرصے کی محرومی کے بعد دوبارہ حاصل ہونے پر محسوس کرتا ہے۔۔ مہربان سورج سے ان کی کمریں گرم ہو گئیں۔ انہیں کچھ سنائی نہیں دیا اور نہ ہی انہوں نے کچھ سوچا۔ باقی ساری دنیا کا وجود ان کے لیے معدوم ہو گیا۔۔ وہ صرف مچھلیاں پکڑتے رہے۔

اچانک زمین کے نیچے سے آتی گرج دار آواز سنائی دی، جس سے زمین کانپنے لگی۔ بڑی گنوں نے فائر کھول دئے تھے۔موریسوٹ نے سر موڑا۔ دریا کے کنارے کے اوپر بائیں جانب مونٹ ویلیرین (قلعہ) کا کافی حصہ دکھائی دیا۔ اس کی چوٹی کے سب سے اونچے حصے پر سفید قلغی نما آرائشی کی گئی تھی، وہاں سے دھویں کا مرغولہ باہر نکلا۔ اگلے ہی لمحے ایک اور دھویں کا مرغولہ قلعے کی چوٹی سے نکلا اور چند سیکنڈ بعد ایک اور دھماکے کی گونج ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ پہاڑی نے قریب المرگ سانسیں لیں۔ دودھیا بخارات نکالے، جو آہستہ آہستہ پُرسکون آسمان کی جانب اٹھے اور قلعے کے اوپر دھویں کے بادل پھیل گئے۔

موسیو سوویج نے کندھے اچکائے اور بولا، ”دوبارہ شروع ہو گئے۔۔“

موریسوٹ، جو بڑی بےچینی سے اپنی بنسی پر لگے پنکھ کو اوپر نیچے ہوتا دیکھ رہا تھا، اچانک اس کا پُرامن دل ان جنگی جنونیوں کے خلاف نفرت سے بھر گیا، جو ایک دوسرے سے لڑنے پر بضد تھے۔ وہ غرّایا، ”اس طرح ایک دوسرے کو قتل کرنا احمقانہ حرکت ہے!“

”یہ وحشی جانوروں سے بھی بدتر ہیں!“ موسیو سوویج نے کہا۔۔ اور موریسوٹ، جو ابھی ابھی یہ تاریک نظارہ کر چکا تھا، نے اعلان کیا، ”جب تک ہماری حکومتیں ہیں، تب تک ایسا ہی رہے گا۔۔“

موسیو سوویج نے اس کی درستگی کرتے ہوے کہا، ”ریپبلک کبھی بھی جنگ کا اعلان نہ کرتی“

موریسوٹ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ”بادشاہوں کی موجودگی میں جنگ بیرونِ ملک ہوتی ہے، جب کہ ریپبلکن کی موجودگی میں جنگ ملک کے اندر ہوتی ہے“

وہ محدود عقل کے پُرامن انسانوں کی طرح سیاسی مسائل پر دوستانہ بحث مباحثہ میں الجھ گئے۔ ایک نقطہ پر وہ باہم راضی تھے، کہ انسان کبھی بھی آزاد نہیں ہوگا۔ اس دوران سارا وقت قلعہ مونٹ ویلیرین گرجتا رہا۔ فرانسیسی گھر تباہ ہوتے رہے۔ گولہ باری سے انسانی زندگیاں پِستی رہیں۔ انسانی جسم کچلے جاتے رہے۔۔ ان گنت خواہشات، توقعات اور خوشی کی امیدیں دم توڑتی رہیں۔۔دو شیزاؤں، بیواؤں اور ماؤں کے دلوں پر ایسے زخم لگتے رہے، جو کبھی نہیں بھر پائیں گے۔۔۔

”یہی زندگی ہے“ موسیو سوویج نے کہا

”بلکہ یہ موت جیسی ہے۔۔“ موریسوٹ نے قہقہ لگاتے ہوئے جواب دیا

تب ہی وہ خوفزدہ ہوگئے، انہیں محسوس ہوا کہ ان کے پیچھے کوئی حرکت کر رہا ہے۔ مڑ کے دیکھنے پر انہیں چار مسلح اشخاص اپنے بلکل پیچھے کھڑے دکھائی دیے۔چار داڈھی والے تنومند اشخاص، جو نوکروں کے سے لباس میں تھے، سروں پر ٹوپیاں تھیں، رائفلیں اٹھائے ہوئے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں سے بنسیاں گر کر دریا میں بہ گئیں۔۔ ایک لمحے میں وہ پکڑ لیے گئے، باندھ کر ایک کشتی میں پھینکے گئے اور جزیرے پر لے جائے گئے۔

جن گھروں کو وہ ویران سمجھ رہے تھے، ان کے پیچھے سینکڑوں جرمن سپاہی تھے۔ ایک بالوں والے جسم کا بڑا سا شخص، جو ایک کرسی پر براجمان تھا، پور سلین پائپ پی رہا تھا، نے بہترین فرانسیسی میں ان سے پوچھا، ”بہت خوب جینٹلمین، کیا اچھا دن ماہی گیری میں گزرا؟“

اسی وقت ایک سپاہی نے وہ جالی دار تھیلا، جو مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا، اس کے قدموں میں رکھا، جسے وہ اپنے ساتھ لانا نہ بھولے تھے۔

افسر مسکرایا، ”ہا ہا۔۔ تم تو بہت اچھے رہے۔۔ لیکن میں تم سے اس کے علاوہ بات کرنا چاہتا ہوں۔ میری بات سنو! اور خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔ جہاں تک میرا خیال ہے، تم ہماری جاسوسی کرنے آئے ہو۔۔ میں نے تمہیں گرفتار کیا ہے۔ تم اپنی اصلیت چھپانے کے لئیے مچھلیاں پکڑنے کا جھانسہ دے رہے ہو۔ میں نے تمہیں پکڑ لیا۔ یہ تمھارے لیے بہت برا ہوا۔ جنگ تو جنگ ہے۔۔ لیکن تم یہاں اپنی لائینز سے گزر کر آئے ہو تو میرا خیال ہے تمہارے پاس واپس جانے کے لئیے شناختی الفاظ ہوں گے۔ تم مجھے وہ بتا دو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔“

دونوں دوست زرد پڑتے چہروں کے ساتھ کھڑے تھے۔ان کے ہاتھ آہستہ آہستہ کانپ رہے تھے، لیکن وہ خاموش کھڑے رہے۔

افسر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا، تم واپس چلے جاؤگے، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں اور راز تمہارے ساتھ رہے گا۔۔ اگر تم انکار کرو گے تو مار دئے جاؤ گے، ابھی اسی وقت! اس لیے ابھی فیصلہ کرو۔“

وہ بے حس و حرکت کھڑے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔

پروشین نے پانی کی طرف اشارہ کیا اور بات جاری رکھی، ”اب سے پانچ منٹ بعد تم اس دریا کی تہہ میں ہوگے۔ پانچ منٹ! میرا خیال ہے تمہارے رشتہ دار تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔“

مونٹ ولیرین سے بدستور فائرنگ جاری تھی۔ دونوں ماہی گیر خاموش کھڑے رہے۔جرمن نے اپنی زبان میں کوئی حکم دیا۔۔ پھر اپنی کرسی گھمائی، تاکہ وہ قیدیوں کے بلکل قریب نہ رہے اور بارہ لوگوں نے بارہ قدموں کے فاصلے پر پوزیشن سنبھال لی۔ ان کی رائفلیں حکم کی منتظر تھیں۔۔

“میں تمہیں ایک منٹ دیتا ہوں“ افسر نے کہا، ”ایک سیکنڈ بھی زیادہ نہیں!“ یکدم وہ اٹھ کھڑا ہوا، دونوں فرانسیسیوں کے پاس پہنچا، موریسوٹ کو بازو سے پکڑا اور ایک طرف لے گیا، ”جلدی کرو۔۔ شناختی الفاظ؟“ اس نے سرگوشی کی، ”تمہارے دوست کو کبھی علم نہیں ہوگا۔ میں یوں ظاہر کروں گا جیسے مجھے رحم آ گیا ہے۔“

موریسوٹ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

تب پروشین موسیو سوویج کو ایک طرف لے گیا اور اسے بھی یہی کچھ کہا۔ موسیو سوویج نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

دونوں پھر ایک ساتھ کھڑے تھے۔ افسر نے کوئی حکم دیا۔سپاہیوں نے اپنی رائفلیں اوپر کیں، اسی وقت موریسوٹ کی نظریں مچھلیوں سے بھرے جالی دار بیگ پر پڑیں، جو کچھ قدم دور گھاس پر پڑا تھا۔ مچھلیوں کا ڈھیر جو ابھی تک مچل رہا تھا، سورج کی دھوپ میں چمک اٹھا۔ وہ وقتی طور پر کمزور پڑنے لگا۔آنکھوں میں آتے آنسوؤں کو روکنے کی بھرپور کوشش کے باوجود اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ ”خدا حافظ، موسیو سوویج۔۔۔“وہ ہکلایا

”خدا حافظ، موسیو موریسوٹ“ اس کے دوست نے کہا

انہوں نے سر سے پاؤں تک کانپتے ہوئے آپس میں ہاتھ ملائے۔

”فائر۔۔!“ افسر چلّایا

اکھٹے بارہ فائر ہوئے۔۔ موسیو سوویج درخت کے تنے کی طرح آگے کو گرا۔ موریسوٹ لمبا ہونے کے باعث اس کا جسم بل کھاتا لہراتا ہوا اپنے دوست کے جسم پر گرا، اس کا چہرہ آسمان کی جانب تھا، جبکہ خون اس کے کرتے کے سامنے والے سوراخوں سے ابل رہا تھا۔

جرمن نے ایک اور حکم دیا۔اس کے آدمی ادھر ادھر بکھر گئے۔۔ اور پھر رسی اور پتھروں کے ساتھ واپس آئے، جو انہوں نے دونوں لاشوں کے ساتھ باندھ دئیے۔ پھر انہیں دریا کے کنارے لے گئے۔اس سارے عرصے میں مونٹ ولیرین سے فائرنگ ہوتی رہی۔ دھویں کے بادلوں نے اسے مکمل طور پر ڈھک لیا تھا۔

دو سپاہیوں نے موریسوٹ کو سر اور پاؤں سے اٹھا لیا۔دوسرے دو نے موسیو سوویج کو اسی طرح اٹھایا۔ انہوں نے پہلے تو انہیں جھولے کی طرح جھلایا اور پھر جتنی دور پھینک سکتے تھے، پھینک دیا۔ ان کے جسم ہوا میں کمان کی طرح بلند، پھر پتھروں کے وزن کے باعث پاؤں کے بل دریا میں ڈوب گئے۔ پہلے پانی کے چھینٹے اڑے، پھر بلبلے بنے اور پھر پانی میں ہلچل پیدا ہوئی اور بالآخر پانی پُرسکون ہو گیا۔ کچھ چھوٹی چھوٹی لہریں دونوں کناروں تک پھیلیں، کچھ خون پانی کی سطح پر تیرنے لگا۔

ہر لحاظ سے پُرسکون افسر اپنے آپ سے ہمکلام ہوا، ”اب مچھلیوں کی باری ہے۔۔“ اور گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اچانک اسے تازہ مچھلیوں کا بیگ گھاس پر پڑا نظر آیا۔ اسے اٹھایا،غور سے دیکھا، مسکرایا اور چلاّیا، ”ولیم!“

ایک سپاہی سفید ایپرن پہنے بھاگتا ہوا آیا۔ دونوں مردہ اشخاص کا تھیلا گھسیٹتے ہوئے اس کی طرف پھینکا اور بولا، ”فوراً انہیں میرے لیے زندہ فرائی کرو، یہ یقیناً بہت مزیدار ہوں گی“ اور اس نے اپنا پائپ دوبارہ جلا لیا۔

English Title: Two Friends
Written by :
Guy de Maupassant

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close