سندھو کہانی جاری رکھے ہے؛ ”لیہہ میری شمال مغربی گزرگاہ پر واقع ہے۔ شیوک دریا بھی میرے متوازی بہتا ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ طے کرکے مجھ میں گرتا ہے۔“
ملبیک سے روانہ ہو کر مجھے اولڈنگ پہنچنا تھا۔ اپنے دیس، پاکستان۔۔ یہاں سے ایک سو پچاس میل کا سفر طے کر کے۔۔ قراقرم کے مغرب میں لداخ کا ڈھلوانی پہاڑی سلسلہ سندھو کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ شیوک، شگر کے علاوہ چھوٹے دریا اور ندی نالے اپنی اپنی وادیوں میں مقامی لوگوں کے لئے بقاء کا سامان مہیا کرنے کے علاوہ کبھی کبھی انہیں خطرات سے بھی دو چار کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر گلیشیرز سے جنم لیتے ہیں اور کبھی وحشی بن کر ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ انسان رو اٹھتا ہے۔ گو یہاں کی اکثر وادیوں میں اب اسلام غلبہ پا چکا ہے۔ دین اسلام ایک مطلق العنان ہستی کی مکمل فرمانبرداری کا سبق دیتا ہے لیکن یہاں کے رہنے والے اب بھی خدا کے ساتھ ساتھ بدروحوں، چڑیلوں اور پریوں پر بھی یقین رکھتے ہیں۔دریاؤں، ہواؤں اور پہاڑوں پر حکومت کرنے والی طاقتور اور متلون مزاج روحوں کو خوش کرنے کے لئے خفیہ عبادت گاہوں میں چڑھاوے بھی چڑھاتے ہیں
تیار ہوا۔ کشمیری چائے پی۔ سامان جیپ میں رکھا اور میں اور ڈرائیور نواز ہنورمن کو چل نکلے ہیں۔ ایک بار پھر سے ہمارا سفر دریا اور پہاڑوں کے گرد شروع ہونے کو ہے۔ نواز ایک کشمیری گیت گنگنا رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے؛ ”دوست! ہم جلد ایک دوسرے سے جدا ہونے والے ہیں۔ تمھیں کشمیر کے جنت نظیر نظارے یاد رہیں گے، جبکہ آپ مجھے یاد رہو گے۔“
شائد نواز نہیں جانتا میں بھی اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ چار گھنٹے کا یہ کٹھن سفر ہمیں اونچے چٹیل پہاڑوں، اُن سے پھوٹتے چشموں، سبز کھیتوں، گرد اڑاتے ریوڑوں، گہرائی میں بہتے سنگ کھبب کے شور، نواز کی باتوں، گزرے راستے کی یادوں، قدرتی نظاروں کے لشکاروں، اونچے نیچے، ٹیڑھے میڑھے، تنگ اور دشوار راستے کے سنگ طے کرنا ہے۔ نواز کہنے لگا؛”جناب! ہم انشااللہ دوپہر تک ہنورمن پہنچ جائیں گے اور شام تک آپ اولڈنگ۔“
سورج پہاڑوں کی اوٹ سے بلند ہو نے لگا ہے۔ پہاڑوں پر پڑی برف مہتابی کرنوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ ملبیک میں زندگی پھر رواں دواں ہونے لگی ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے دوست سندھو نے مجھے آواز دی ہو؛ ”گاڑی دھیان اور آرام سے چلانا۔ راستہ مشکل ہے کچھ موڑ تو بہت تنگ ہیں۔ تم شام تک اولڈنگ پہنچ جا ؤ گے۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔ تمہیں ساتھ لے کر ہی پاکستان میں داخل ہوں گا، فکر نہ کرنا۔“
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ تو جواب ملا؛ ”دوستوں میں شکریہ نہیں ہوتا۔ بس دوستی ہوتی ہے۔ آئندہ اس لفظ سے گریز کرنا۔ ہاں تم نے ایک بات مجھے اب تک نہیں بتائی۔“
میں نے مسکرا کر جواب دیا؛ ”میں نے تو تم سے کچھ چھپایا ہی نہیں۔“
سندھو کہنے لگا؛ ”تم نے نین کے بارے نہیں بتایا کہ کیسی ہے؟ خوبصورت اور من موہنی ہے کیا؟“
”او میرے دوست بتاتا ہوں تم نے پوچھا ہی اب ہے۔۔ سنو! وہ چاند کی چاندنی ہے، پھولوں کی خوشبو ہے، ہرنی کی طرح چلتی ہے، اس کی مسکراہٹ موتیوں کی سی ہے، اس کی آنکھیں جھیل کی سی گہری ہیں، وہ گل بدن ہے۔ وہ مہہ جبین ہے۔ تم دیکھو گے تو دیکھتے ہی رہ جاؤ گے۔“
لمحوں کی خاموشی کے بعد سندھو کہنے لگا؛ ”واہ! حسن اور خوبصورتی کا ایسا ملاپ کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ تم نے نین سے ملنے کا میرا اشتیاق کئی گنا بڑھا دیا ہے۔“
نواز پوچھنے لگا؛ ”جناب! آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں۔“
میں ہنس دیا اور بولا؛ ”نواز سندھو میرا دوست ہے۔ ہم آپس میں باتیں کر تے ہیں۔ یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔“ وہ حیران سا ہو کر خاموش ہوا اور جیپ کو دوسرے سے تیسرے گئیر میں ڈال چکا ہے۔ ایک تنگ موڑ مڑ کر ہمارے اور سندھو کے بیچ کئی سو فٹ کا فاصلہ ہو گیا ہے۔ ملبیک پہاڑوں میں چھپ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔
میں نے نوازسے پوچھا؛ ”نواز! تمہارے ہاں سرد موسم تو بہت شدید ہوتا ہوگا۔ سردیوں میں کیسے رہتے ہو؛“
اس نے نظریں سڑک پر جمائے جواب دیا؛ ”صاحب! سردیوں میں کاروبار بند ہو جاتا ہے۔ ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے۔عورتیں ان دنوں پٹو اور مرد اون اور دھاگہ تیار کرتے ہیں۔ رات کو داستان گو قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ اس وقت ہم گھروں میں جلتی انگیٹھی کے گرد زیادہ وقت گزارتے ہیں اور اس میں جلتی آگ کو بجھنے نہیں دیتے کہ یہ جسم کی حرارت برقرار رکھنے میں ہماری بڑی مدد گار ہوتی ہے۔ آپ نے ہمارے ہر گھر کی چھت سے باہر کو نکلی چمنی تو ضرور دیکھی ہوگی یہ اسی انگیٹھی کی ہے جو ہم سردیوں میں سلگاتے ہیں۔ جاڑے میں یہاں زندگی مرجھا جاتی ہے اور ہر شے سکڑ جاتی ہے۔ سیاح بھی بہت کم آتے ہیں۔ جاڑے کے پھرنے سے ہمارے دن بھی پھرتے ہیں۔ زندگی معمول پہ آنے لگتی ہے۔ بازار کھل جاتے ہیں۔ جسم میں نئی توانائی آ جاتی ہے، نئی مشقت کے لئے۔‘‘
چڑھائی چڑھتی جیپ کا انجن شور مچا رہا ہے، راستہ سنسان، تنگ، ایک طرف گہری کھائی اور دوسری طرف اونچے برف پوش پہاڑ۔ کہیں کہیں سنسان اور بیابان میدان۔خوفزدہ مسافر، سفر جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ بھی نہیں۔ نظر کبھی سڑک سے نیچے جاتی ہے تو گہری کھائیوں کی یہ سرزمین جسم میں خوف کی لہر دوڑا دیتی ہے۔ مسافر خود سے ہی سوال کرنے لگتا ہے ”میں یہاں کیوں آیا تھا؟“ یہ راستہ انتہائی بلند، تنگ اور دشوار ترین دروں سے گزرتا ہے۔ گرمی کے موسم میں دن میں بھی درجہ حرارت کم ہی رہتا ہے اور درمیانے درجے کے گرم کپڑے پہن کر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ مجھے جب بھی دوست کی دوستی کا خیال آیا تو خوف کی شدت کچھ کم محسوس ہوئی ہے۔۔ سامنے ایک بڑا چشمہ آبشار کی طرح گرتا دکھائی دیا ہے۔ نواز نے میرے کہے بغیر ہی جیپ روک دی ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے کہ مجھے اپنے دوست کی آواز سنائی دی؛ ”یہ ’شے‘ کی آبشار ہے۔ اس کا پانی شیریں، یخ اور شفاف ہے۔ تم پیو تو یوں لگے گا جیسے جسم میں برف اتر آئی ہے، تازہ دم ہو جاؤ گے اور کھایا پیا سب ہضم۔“ میرا دوست سندھو کبھی غلط نہیں کہتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہے۔
داستان گو بتانے لگا ”ہم کارگل تحصیل سے گزر رہے ہیں۔کارگل قصبہ سے چار کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم ’دریائے شنگو‘ مجھ میں ملتا ہے۔ شنگو دریا پاکستان سے پھوٹ کر ہندوستان میں داخل ہو تا ہے اور کارگل سے کچھ ڈاؤن اسٹریم مجھ میں مل جاتا ہے۔ یہ دریا اپنے ساتھ گلیشیرز کا ٹھنڈا اور شفاف پانی لاتا ہے۔چٹیل پہاڑوں کے بیچ سے بہتے پتھروں سے ٹکراتے ہم دونوں دریاؤں کا پانی ایک دوسرے میں ضم ہونے سے پہلے خوب اچھلتا ہے جیسے مجھ میں ملنے کی خوشی منا رہا ہو۔ تم غور کرو اس سے آگے میرے بہنے کی رفتار کافی تیز اور میرا شور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کارگل کے پیچھے ’بٹالک‘ سیکٹر ہے اور اس کی بغل میں ’گیاری‘ (پاکستان) کا علاقہ، جہاں ایک بڑے برفانی تودے کی زد میں آ کر پاکستانی فوج کے ایک سو چوالیس (144) جوان جامِ شہادت نوش کر گئے تھے (ایک ہی بار یہ شہادت پانے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔) انہی پہاڑوں کے پیچھے ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پر ہی ’ہنورمن‘ گاؤں ہے، جس کے ساتھ سے بہتا میں 71 کی جنگ سے پہلے پاکستان میں داخل ہوتا تھا (یہ گاؤں 71 کی جنگ سے پہلے پاکستان کا حصہ تھا اب بھارت میں ہے۔) میں اب ’وانکو‘ نامی گاؤں سے بہتا ’پاک سرزمین‘ میں داخل ہوتا ہوں۔ ’وانکو برج‘ میرے دونوں کناروں کو ملاتا ہے۔“
یہاں سے روانہ ہوئے تو پھر وہی پہاڑ ہیں، جن پر گھاس کا تنکا بھی نہیں اگتا۔ وہی بل کھاتی پتلی سڑک، ٹھنڈی تازہ ہوا، نواز اور میں۔۔ یہ ویرانی بھی اچھی لگ رہی ہے کہ ہر طرف قدرت کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔ ہر جلوے کانیا انداز، نیا رنگ ہے۔ میں قدرت کی ان فیاضیوں سے لطف اندوز ہوتا اولڈنگ کو رواں دواں ہوں۔ اک نیا جذبہ میرا ہمسفر ہے کہ اپنے وطن لوٹ رہا ہوں۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں، اپنے وطن جیسا نہ کوئی ملک ہے اور نہ لوگ۔۔ وطن کی مٹی میں جو بات ہے، کہیں اور نہیں۔ ابھی بھی 3 گھنٹے کی مسافت باقی ہے۔
”یہ وہی راستہ ہے جہاں زمانہ قدیم میں بھی قافلے گزرتے تھے۔ وہ گھوڑوں، خچروں اور یاک کا زمانہ تھا آج جیپس اور دوسری گاڑیاں ہیں۔“
سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ جاڑے کی دھوپ اچھی لگ رہی ہے۔ راستے میں سڑک کنارے ایک بڑا درخت آیا، جس کی شاخوں پر ہزاروں کی تعداد میں رنگ برنگے کپڑوں کی کترنیں اور دھاگے لٹک رہے ہیں۔ نواز نے جیپ روکی اور درخت کی ٹہنی سے سبز رنگ کا دھاگہ باندھ کر خاموش کھڑا رہا۔ واپس آیا تو میں نے پوچھا؛ ”نواز! یہ کیا ہے۔“
کہنے لگا؛ ”جناب! یہاں سے 3 کلو میٹر آگے تک کا راستہ انتہائی دشوار، خطرناک چڑھائیوں تنگ موڑوں پر مشتمل ’موت کا راستہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دھاگہ باندھنے سے مراد ہے کہ اللہ خریت سے یہ راستہ طے کروا دے۔ واپسی پر بھی ایسا ہی کروں گا۔“ (ڈرائیوروں کے بھی اپنے عقیدے ہیں)۔ وہ بتانے لگا؛ ”روایت کے مطابق سید علی ہمدانی ؒ نے کشمیر سے گلگت اسکردو جاتے ہوئے اس درخت کے نیچے قیام کیا تھا۔ انہی کی دعا اور اللہ کی رحمت ہے کہ مسافر اس مشکل راستے سے بخیریت گزر جاتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی اپنے نیک اور محبوب بندوں پر خاص کرم نوازی ہے۔ اس سفر خیر کی قیمت حضرت علی ہمدانیؒ کی دعا، دھاگہ یا کپڑے کی کترنیں اور ہمارا یقین ہے۔“
میں بھی اپنے سفر کا آغاز ہمیشہ اپنی مرحومہ ماں کی نصیحت کے مطابق آیۃ الکرسی پڑھ کر شروع کرتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ اللہ کے کرم، آیت الکرسی کی برکت اور ماں کی دعا سے میرا سفر اچھا اور محفوظ ہو گا انشا اللہ۔ آج تک میرے تمام سفر مشکلات کے باوجود اللہ کے کرم اور ماں کی دعا سے بخیریت تمام ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے یقین اور ایمان کی بات ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.