سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 15)

شہزاد احمد حمید

صبح سے اب تک کے سفر نے مجھے بھی تھکا دیا ہے۔ میں آرام کی غرض سے سندھو کنارے بنے ’ہمالیہ ان‘ چلا آیا ہوں۔ کچھ آرام کے بعد باہر آیا تو چندا ماموں پہاڑوں کی اوٹ سے افق پر نمودار ہوتے بلندی کی جانب گامزن ہیں۔ چاندنی نے ماحول کو تاباں اور خوشگوار کر دیا ہے۔ میرے دوست ستارے چندا ماموں کو حصار میں لے چکے ہیں۔ خنک فضاء اور ٹھنڈ نے ملبیک کی گلیاں سونی کر رکھی ہیں۔ میں ایک قمقمے کی طرف چلا جا رہا ہوں، جہاں حرکت کرتے کچھ ہیولے رونق کا پتہ دے رہے ہیں۔ یہ چائے ڈھابہ ہے۔ کشمیری چائے کا۔۔

میں نے کشمیری چائے کی چسکیاں لیتے ایک بوڑھے لداخی سے پوچھا؛ ”یہاں شادی بیاہ کی رسوم کیسی ہیں۔“ جواب ملا؛ ”ہم شادی انتہائی سادگی سے کرتے ہیں۔ جہیز نام کی کوئی رسم یہاں نہیں۔ شادی پر پیسہ بھی بہت کم خرچ ہوتا ہے۔“ میرے دل میں خیال آیا ’کاش ہم بھی اس بات کو سمجھ پائیں تو ہزاروں جوان بچیاں پیا گھر سدھا جائیں۔‘

میں نے اگلا سوال کیا؛ ”لیہہ سے سامانِ تجارت کہاں کہاں جاتا تھا۔“ جواب ملا؛ ”ہندوستان، اسکردو اور چین۔ چین کا راستہ بہت لمبا اور دشوار تھا۔ سفر میں ایک ماہ لگ جاتا۔“ میں نے کہا؛ ”کبھی گئے تھے آپ۔“ کہنے لگے؛ ”آخری بار کوئی پچاس ساٹھ برس پہلے گیا تھا۔ مرچ وغیرہ لے جاتا اور قالین، پشم لے آتا تھا بیٹا۔“ میری چائے ختم ہو چکی تھی۔ بوڑھا کہنے لگا؛ ”کھانا کھائیں گے آپ اجنبی لگتے ہیں۔“ میں نے جواب دیا؛ ”جی پاکستان سے آیا ہوں۔ دریائے سندھ پر لکھنے۔“ میرا جواب سن کر وہ ایسے غائب ہوا جیسے وہاں تھا ہی نہیں۔میں حیران رہ گیا۔ مجھے ایک دوست کی سنائی بات یاد آ گئی، جو کچھ سال پہلے بھارت گیا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ”ہندوستانی مسلمان پاکستانیوں سے بات نہیں کرتے کہ بھارتی خفیہ والوں کو پتہ چل جائے تو ان کے لئے مشکل ہو تی ہے۔ سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت اب نام کا ہی سیکولر رہ گیا ہے“ میں اس خیال پر ہنس دیا۔ یہ ہے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوریت کا حال۔ ہندو ترقی کی خواہ جتنی چاہے منزلیں طے کر لے، اس کی ذہنیت مسلمان کے لئے نہیں بدل سکتی۔ میں اپنے کمرے میں چلا آیا ہوں۔

میں نے اپنا بیگ تیار کر لیا ہے کہ مجھے صبح جلدی روانہ ہونا ہے۔ ہنورمن اور وہاں سے سرحد پار کرکے وانکو (اولڈنگ) (olding) پاکستان کے لئے۔۔ بہت تھکا ہوا ہوں۔ نندیا پری مجھے اپنی دنیا میں لے جانے کے لئے تیار ہے۔۔

آنکھ کھلی تو صبح کے 5 بجے تھے۔ میں سدا کا بے چین ٹھہرا۔ آدھی رات گہری نیند میں اور آدھی کروٹیں بدلتے گزری ہے۔ کھڑکی سے باہر ہو کا عالم ہے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہیں۔ اندھیرا، خنک ہوا، جاڑا، خاموشی، سب ہیں ماسوائے انسان کی آواز کے۔ یا اللہ یہ کیسی دنیا ہے۔ خاموش، پراسرار۔۔ پرندوں کی چہچہاہٹ دراصل میٹھے سروں میں رب تعالیٰ کی ثناء ہے۔ ابھی اسی سوچ میں ہی گم تھا کہ میرے کانوں میں وہ آواز سنائی دی جو دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ ”اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔“ بے شک۔۔ پرندوں اور موذن کی زبان مختلف ہے مگر مدعا ایک ہی ہے۔اللہ کی ثناء۔ میں نے لیہہ سے نین کے لئے خریدی پشمینہ کی چادر اوڑھی اور اذان کی آواز کی جانب چل دیا ہوں۔ مجھے یوں لگا جیسے قصبہ بھی جاگ گیا ہے۔ ہر گلی، محلے، پہاڑ کی ڈھلوان سے، پہاڑ کی اٹھان سے اس آواز پر لبیک کہنے والے مسجد کا رخ کئے ہوئے ہیں۔ ایک ایک، دو دو کی ٹولیوں میں۔ خراماں خراماں چلتے۔ لمحوں میں ہی سب اس عبادت میں لگ گئے جو سکونِ دل و جان ہے۔ نماز۔ اگر کوئی اس سوچ اور ایمان سے پڑھے تو۔ (شاید سبھی مذاہب کی عبادت میں سکون ہے)

نماز سے فارغ ہوا تو صف میں میرے برابر بیٹھے باریش غلام رسول سے بات کا موقع مل گیا۔ 60 سال سے کچھ سال زیادہ عمر ہوگی اُن کی۔ خالصتاً لداخی رنگ اور قد بت۔ میں نے پوچھا؛ ”جناب! کیا کرتے ہیں۔ کہاں کے رہنے والے ہیں۔“ کہنے لگے؛ ”محترم! میں یہیں کا رہائشی اور سوداگر ہوں۔“وہ نستعلیق اردو بول رہے تھے۔ میں نے پوچھا؛ ”کچھ بیتے زمانے کاحال سنائیں۔“ کہنے لگے؛ ”میاں! اُس دور کی کیا بات تھی۔ سری نگر سے لداخ تک پہنچنے میں سولہ (16) دن لگتے تھے۔ سفر عموماً گھوڑوں پر ہوتا۔ جہاں شام ڈھلتی وہیں قریبی گاؤں میں رات بسر ہوتی تھی۔ لوگوں کی جان پہچان ہوتی تھی یا گاؤں میں رشتہ داریاں۔ مہمان کی خوب آؤ بھگت ہوتی تھی۔ لوگ تو اجنبی کی بھی خوب مہمان نوازی کرتے تھے۔ محبت تھی، انسانیت تھی۔ ہمدردی تھی۔ ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹ کر خوشی ملتی تھی۔ اب وہ قدریں کہاں میاں۔ مشینی دور نے انسان کو بھی مشین ہی بنا دیا ہے۔ نہ دل رہا نہ جذبات۔ اب تو ہر چیز کی پرکھ پیسہ ہے۔ نئے دور کے شور میں پرانے دور کا سکون اور امن کھو گیا ہے۔ لداخ سے چین تک کا سفر ڈیڑھ ماہ کا تھا۔ میرے والد جایا کرتے تھے۔ دورِ جدید نے انسانیت ختم کر کے انسان کو سرحدوں میں قید کر دیا ہے۔ وہ دور آج کے دور سے بہتر تھا۔ ایسی سڑکوں، پختہ مکانوں اور مشینی انسانوں کا کیا کرنا،جب انسانی قدریں ہی نہ رہیں۔ محبت ہی نہ رہی۔ دید مرید بھی باقی نہیں رہی ہے۔ صرف پیسہ کو کیا کرنا بیٹا۔ شرافت، دیانت، مروت، دید مرید، یہ سب اب کتابی باتیں بن گئی ہیں۔ ویسے میرے اس خطے میں پرانے دور کی کچھ باتیں، کچھ محبتیں، کچھ اپنا پن آج بھی باقی ہے۔“

میں نے پوچھا؛ ”جناب! یہاں کے کسی ایسے تہوار کے بارے بتائیں جو بہت منفرد ہو۔“ کہنے لگے؛ ”بیٹا! اس شہر میں نذر و نیاز کا تہوار بہت منفرد ہوتا ہے۔ ہر گھر اس تہوار کو دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں کرتا ہے۔ ہر کوئی ہر طرح کا کام کاج چھوڑ کر خوشیاں منانے کی تیاری کرتے ہیں۔ ہر گھر میں خاص پکوان پکتے ہیں جو عزیزوں، دوستوں، محلے داروں کو بھیجے جاتے ہیں۔ ہر گھر کے باہر خوشبو دار پھولوں کی مالائیں لٹک رہی ہوتی ہیں۔ کوئی گلہ محلہ ایسا نہیں ہوتا جہاں پھول نہ ہوں اور پکوانوں کی خوشبو نہ ہو۔ ہوا بھی خوشبو کے جھولے پر چلی آ رہی ہوتی ہے۔ ہر گھر رنگ میں ڈوبا، ہر شے خوشبو میں نہائی۔ صدیوں پرانا بدھ مت کا یہ تہوار آج بھی ماضی کے جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ وہ دن ہے جب بدھ دیو جی کو گیان حاصل ہوا تھا۔ میاں! میں بھی کیسی باتوں میں الجھ گیا ہوں۔ آپ ناشتہ میرے ساتھ کرنا پسند کریں گے۔ مجھے بہت خوشی ہو گی۔“ میں نے جواب دیا؛ ”میں اپنے لئے آپ کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا ہوں۔ اللہ آپ کے رزق میں اور اضافہ کرے۔ آمین، آپ کی محبت کا بہت شکریہ۔ مجھے آپ سے بات کرکے اچھا لگا ہے۔ جناب!کچھ قدیم اور جدید مقامی روایات کے بارے بتائیں؟“ چاچا کہنے لگے؛ ”بیٹا! قدیم کشمیری روایات میں سے چند آج بھی باقی ہیں۔ مثلاً کشمیری مسلمان کے ہاں کوئی مہمان آ جائے تو بستی کے سبھی مسلمان اسے ملنے آتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق تحائف بھی لاتے ہیں۔ یہ روایت مہمان کی عزت اور یہاں کے معاشرتی حسن اور ثقافت کی عکاس ہے۔ بستی کے غیر مسلم بھی اس موقع پر پیچھے نہیں رہتے۔ وہ میزبان کے گھر خشک خوراک اور میوہ جات لے جا کر مہمان کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ رات کے کھانے پر لوک موسیقی مہمان کی تواضع کا لازمی جزو ہے۔ اس کے بغیر کھانا نہیں کھایا جاتا۔ ہماری روایت ہے کہ کھانا زمینی دستر خوان پر چنا جاتا ہے۔ پچھلے چند برس میں یہ روایت کچھ پھیکی پڑ گئی ہے۔ تم سمجھے نا بیٹا!“ میں ان کی بات سمجھ گیا کہ اب ہندو اور مسلمانوں میں بھارتی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے محبت کی جگہ نفرت اور عدم برداشت لے چکی ہے۔

پو پھوٹ رہی ہے اور افق پہ نارنجی رنگ بکھرنے لگا ہے۔ میں اُن کا شکریہ ادا کرکے اپنے کمرے میں چلا آیا ہوں۔راستے میں سوچتا رہا، چاچا غلام رسول کی باتیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ مجھے اس لئے اچھی لگیں کہ میں خود بھی ایسا ہی ہوں۔ دردِ دل نہیں تو پھر انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے بھائی؟ سندھو کہنے لگا؛ ”دوست! چاچا غلام رسول جیسی سوچ رکھنے والے بھی اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ وقت بدل رہا ہے بلکہ بدل ہی گیا ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close