ادھر چٹکی وہ دل میں لے رہے ہیں،
ادھر اک گدگدی سی ہو رہی ہے۔۔
یا
جسارت عکس پہ لب رکھنے کی نہیں کرتے،
بہت ہُوا بھی تو پلکوں سے گدگدی کر دی۔۔۔
یہ تو شاعرانہ سی گدگدی ہے، لیکن اگر لغت سے رجوع کریں تو گدگدی وہ کیفیت ہے، جو بغل، تلوے یا پیٹ وغیرہ میں انگلیوں کے مس کرنے یا جھانویں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے اور عموماً ہنسی آجاتی ہے۔ اسے دِغدِغہ یا کلبلاہٹ بھی کہتے ہیں
گدگدی لگ بھگ سبھی کو ہوتی ہے، کسی کو کم تو کسی کو زیادہ، کسی کو پیٹ پر تو کسی کو تلووں پر۔ کسی کو بغل میں تو کسی کو ٹھوڑی کے نیچے حلق کے گڈھے میں۔۔
لیکن کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ آپ ان کے پیٹ یا پیروں کے تلووں کی جانب گدگدی کی نیت سے ہاتھ بھی بڑھائیں، تو وہ قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ جب کہ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آپ لاکھ گدگدی کر لیں، مجال ہے وہ ٹس سے مس بھی ہوں
گدگدی کیوں ہوتی ہے؟
گدگدی سے متعلق مختلف سائنسی تصورات موجود ہیں۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ گدگدی جسم کے حساس اور کم زور حصوں کے دفاع کا ایک فطری نظام ہے، مگر ایک اور نظریہ کہتا ہے کہ گدگدی سماجی تعلق اور جوڑ کی حوصلہ افزائی سے جڑی ہے
بعض افراد کے لیے گدگدی ناقابل برداشت ہوتی ہے، تاہم پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی ناقابلِ برداشت شے آپ کو ہنسی پر کیسے مجبور کر سکتی ہے؟
سائنس دانوں کے مطابق گدگدی کی صورت میں دماغ کا ہائپوتھالامُس حصہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہ علاقہ ہے، جو احساساتی ردعمل سے متعلق ہے اور یہی حصہ لڑائی، یا درد کے احساس پر ردعمل کا تعین کرتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب آپ کو گدگدی کی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ آپ خوشی یا مزے والی ہنسی کا اظہار کر رہے ہوں بلکہ یہ خودکار احساساتی ردعمل ہوتا ہے۔ طبی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گدگدی کے وقت انسانی جسم ٹھیک ویسے ردعمل عمل کا مظاہرہ کرتا ہے، جیسا شدید تکلیف یا درد کے دوران
اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو دراصل گدگدی ہمارے دماغ میں اسی حصے میں ایکٹوٹی پیدا کرتی ہے، جو خطرے کی صورت میں فائٹ یا فلائٹ کے فیصلے کے لیے ایکٹو ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل ارتقائی سلسلے کا نتیجہ ہے یعنی ایک متوقع خطرے سے اچانک دوچار ہونے پہ خوف اور ساتھ ہی یہ جان لینا کہ آپ اصل میں خطرے میں نہیں تھے۔ یہ ذہنی ریلیف اور مسرت کا احساس دیتا ہے۔ یہ سب ہمارا دماغ اتنا تیزی سے کرتا ہے کہ صرف ہنسی کا ردعمل مشاہدے کی پکڑ میں آ پاتا ہے
سابقہ سائنسی مطالعے یہ بتاتے رہے ہیں کہ گدگدی کے وقت جسم کے درد اور چھونے سے جڑے ریسپٹرز حرکت میں آتے ہیں۔ گدگدی کوئی انسان کرے یا مشین، انسانی ردِ عمل قریب ایک سا ہوتا ہے
گدگدی ہمارے جسم کی خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ یعنی جو بندہ چھونے کے حوالے سے زیادہ حساس ہوگا، اسے گدگدی بھی زیادہ ہوگی۔ بنیادی طور پہ یہ ردعمل کسی بیرونی لمس سے فوری چھٹکارے کے لیے پیدا ہوتا ہے، چوں کہ یہ تکلیف دہ نہیں ہوتا، اس لیے شعوری ردِ عمل ہنسی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی لیے جب تک پتا نہ ہو کہ ٹچ کرنے والا کون ہے، ایسے میں ردِ عمل چیخ کی صورت میں ہوتا ہے
گدگدی تکلیف کی ہی ہلکی قسم ہے، جب کوئی دوسرا ہمیں چھوتا ہے تو ہمارا دماغ اسے بطور خطرے کا سگنل لیتا ہے۔ اسی لیے جب تک جسے چھوا گیا ہو، اسے پتا نہ ہو کہ چھونے والا کون ہے… وہ لاشعوری طور پہ خود کو اس لمس سے دور کرتا ہے اور ممکن ہے چیخے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی بھی خود کو گدگدی نہیں کر سکتے
جب آپ اپنے آپ کو گدگدی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ، آپ کا موٹر سسٹم ایک ایفرننس کاپی بھی بناتا ہے ، جو اسے تحریک کے حسی نتائج کی پیش گوئی کرنے دیتا ہے۔ چونکہ آپ کے بغل میں موجود احساسات کی درست پیش گوئی کی جاتی ہے ، اس کے نتیجے میں تجربہ کم شدید ہوتا ہے جب کوئی دوسرا شخص آپ کو گدگدی کرتا ہے
گدگدی کی اقسام
محققین گدگدی کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک گارگالیسیس اور دوسری کنیسمیسس۔ گارگالیسیس قہقہے تب ہوتے ہیں، جب کوئی شخص آپ کے جسم کے گدگدی والے حصوں کو بار بار چھوئے۔ یہ گدگدی خود بہ خود نہیں ہوتی۔ کنیسمیسیس گدگدی تب ہوتی ہے، جب کوئی دھیرے سے آپ کے جلد پر حرکت کرے، تاہم یہ گدگدی عام طور پر ہنسی یا قہقہے کا باعث نہیں بنتی۔ یہ گدگدی خود بہ خود بھی ہو سکتی ہے۔ اس گدگدی میں آپ کو خارش کا سا احساس ہو سکتا ہے۔ عام حالات میں یہ گدگدی ‘تنگی یا پریشانی‘ کے احساس سے جڑی ہوتی ہے، اس لیے آپ اسے گدگدی سے جوڑتے تک نہیں
گدگدی کہاں ہوتی ہے؟
گدگدی جسم کے کسی بھی حصہ پر ہو سکتی ہے، تاہم گدگدی کے عمومی علاقے پیٹ، پہلو، بغل، پاؤں کے تلوے اور گردن ہیں۔ گدگدی کو جسمانی دفاعی نظام کا حصہ قرار دینے والے عموماً یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ تمام حصے حساس اور نازک ہیں اور جسم ان کو بچانے کے لیے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے
گدگدی کی عمر؟
نومولود بچوں کو گدگدی نہیں ہوتی۔ سائنس دانوں کے مطابق گدگدی کے احساس کا آغاز نومولود بچوں میں چار ماہ کی عمر سے ہوتا ہے، جب کہ گدگدی پر ردعمل کا آغاز یہ بچے چھ ماہ کی عمر سے کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ بچوں کو گدگدی کا احساس تو ہوتا ہو، تاہم وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ احساس پیدا کیوں ہو رہا ہے
گدگدی اور قہقہہ
قہقہے کو عمومی طور پر خوشی یا لطف کے اظہاریے سے جوڑا جاتا ہے، تاہم گدگدی کے معاملے میں ضروری نہیں کہ یہ سچ ہو۔ بعض افراد گدگدی پر پُرلطف قہقہے لگاتے ہیں اور اس کا لطف لیتے ہیں مگر بعض افراد گدگدی سے بالکل لطف نہیں لیتے۔ تاہم گدگدی کا لطف لینا ہے، تو جسم کے ان حصوں پر گدگدی کریں، جن پر گدگدی کا احساس قدرے کم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہتھیلی یا پاؤں کا اوپری حصہ یا ہاتھ کا پچھلا حصہ۔ گدگدی کو پرلطف بنانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ لطیف انداز اپنائیے اور ہاتھ کی بجائے کسی پر کا استعمال کریں تو اور اچھا ہے۔ گدگدی کا لطف لینا ہے، تو جارحانہ انداز ہرگز مت اپنائیے۔