رینجرز نے تین دہائیوں بعد بوائز ہاسٹل کا ایک بلاک کراچی یونیورسٹی کے حوالے کردیا

نیوز ڈیسک

کراچی – پاکستان رینجرز نے لگ بھگ تین دہائیوں بعد جامعہ کراچی کے بوائز ہاسٹل کا ایک بڑا بلاک خالی کردیا ہے اور اسے کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے

بوائز ہاسٹل کا یہ بلاک کراچی یونیورسٹی کی موجودہ انتظامیہ کی سفارش پر خالی کیا گیا ہے، جہاں اب شعبہ امتحانات، شعبہ انرولمنٹ و رجسٹریشن اور اس سے متعلق دیگر سیکشنز اور اس کا ریکارڈ منتقل کیا جارہا ہے

یہ بات کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی نے رینجرز کی جانب سے خالی کیے گئے بوائز ہاسٹل کے دورے کے موقع پر بتائی۔ اس موقع پر لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ اور کراچی یونیورسٹی کے ناظم امتحانات ظفر حسین بھی موجود تھے

ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ ماہ قبل رینجرز کے سیکٹر کمانڈر سے ایک تقریب کے دوران اس معاملے پر بات کی تھی کہ کراچی یونیورسٹی کے قیام کو اب 70 برس سے زائد گزر چکے ہیں اور یونیورسٹی کے پاس موجودہ عمارتوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ 70 سال سے موجود انرولمنٹ، رجسٹریشن اور امتحانی ریکارڈ کو مناسب انداز میں رکھا جائے، جس سے لاکھوں طلبہ کا دستی ریکارڈ (فائلز) محفوظ رہ سکیں، اس بات سے سیکٹر کمانڈر نے بھی اتفاق کیا تھا اور کراچی یونیورسٹی کی سفارش پر بوائز ہاسٹل کا ایک بڑا بلاک خالی کر دیا گیا

کراچی یونیورسٹی انتظامیہ نے اس بلاک کو انتظامی قبضے میں لینے کے بعد اس میں تعمیر و مرمت اور تزئین و آرائش کا کام تقریباً مکمل کرا لیا ہے اور یہاں تقریبا پچاس برس یا اس سے بھی زائد پرانی قیمتی لکڑی کی جالیاں محفوظ کرکے راہداریوں میں ان کی دوبارہ تنصیب کی جارہی ہے، جس کے بعد اصل شکل میں بحالی کے لیے اس پر رنگ کے بجائے پالش کا کام کرایا جائے گا

جبکہ انرولمنٹ، رجسٹریشن اور امتحانی ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے ہاسٹل کی عمارت کے ساتھ ایک بڑا حال بھی تعمیر کیا گیا ہے اور ہاسٹل کے کمروں میں دفاتر بنائے جا رہے ہیں

خیال رہے کہ یہ بوائز ہاسٹل آئی بی اے کی عمارت کے بالکل سامنے قائم ہے، لہٰذا آئی بی اے کی سڑک سے ہاسٹل تک طلبہ اور دیگر وزیٹرز کے لیے ایک کشادہ اور پکی راہداری بھی بنائی جائے گی

واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں رینجرز گزشتہ بتیس سال سے زائد عرصے سے اس وقت سے موجود ہے، جب 9 جولائی 1989ع میں دو طلبہ تنظیموں کے مابین جھگڑے کے دوران کم از کم تین طلبہ مارے گئے تھے، جس کے بعد کراچی یونیورسٹی دو ہفتوں کے لیے بند کردی گئی تھی، جبکہ اس وقت کی سندھ حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رینجرز کی خدمات حاصل کی تھیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close