وڈھ میں بڑھتی کشیدگی، اختر مینگل اور شفیق مینگل کے حامی مورچہ زن، معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع خضدار میں مینگل قبیلے کے دو گروہوں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال بدستور کشیدہ ہے اور علاقہ مکیں خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں

پیر کے روز جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے بلوچستان بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی تھی، جس کے باعث صوبے کے کچھ شہروں کا ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ متاثر ہوا کیونکہ مظاہرین نے صوبے کی بیشتر بڑی شاہراؤں کو بند کر دیا تھا

خضدار میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے شروع ہونے والی یہ کشیدگی حالیہ دنوں میں اس وقت بڑھ گئی جب جون کے دوسرے ہفتے میں مینگل قبیلے کے دو حریف گروہ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہونا شروع ہو گئے۔ دونوں گروہوں کی جانب سے اپنے کارکنوں کی مبینہ جبری گمشدگی، قتل، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں

واضح رہے کہ یہ تنازع سردار اختر مینگل اور شفیق الرحمان مینگل کے مابین بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وڈھ میں کشیدہ صورتحال کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں ’سرکاری سرپرستی میں چلنے والے مسلح جتھے‘ حالات کو خراب کر رہے ہیں جبکہ اس تنازعے کے دوسرے فریق شفیق الرحمان مینگل ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے وڈھ میں صورتحال کی خرابی کی ذمہ داری سردار اختر مینگل اور ان کے بھائی پر عائد کرتے ہیں

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے وڈھ کے مسئلے کو خالصتاً ایک قبائلی مسئلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ماضی کی نسبت صورتحال میں کچھ بہتری بھی آئی ہے

واضح رہے کہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح وڈھ میں بھی صورتحال خراب رہی۔ سنہ 2002 کے عام انتخابات کے بعد سردار اختر مینگل اور میر شفیق مینگل کے حامی بظاہر وڈھ شہر میں اراضی کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے تھے، لیکن سیاسی اور قبائلی عمائدین کی مداخلت کے باعث نوبت تصادم تک نہیں پہنچی

اگرچہ وڈھ کا بلوچستان میں جاری حالیہ شورش میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں رہا لیکن یہاں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہوئے، جن کا تعلق بی این پی اور دیگر قوم پرست تنظیموں سے ہے

جبری گمشدگی، قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کے زیادہ تر واقعات کے لیے بی این پی اور سردار اختر مینگل، میر شفیق مینگل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جبکہ شفیق مینگل نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے اور ان واقعات کا ذمہ دار مخالف فریق کو قرار دیتے ہیں

بدامنی کے واقعات کے خلاف بی این پی کی کال پر وڈھ میں کوئٹہ، کراچی شاہراہ ماضی میں بھی متعدد بار بند رہی تاہم وڈھ میں حالیہ کشیدگی کی وجہ وڈھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص عبدالوحید کا اغوا بنی۔ عبدالوحید کے اغوا کا الزام بھی شفیق الرحمان مینگل پر عائد کیا گیا

عید سے قبل کوئٹہ، کراچی شاہراہ کی بندش، علما اور قبائلی عمائدین کی کوششوں کی وجہ سے نہ صرف عبدالوحید بازیاب ہو گئے بلکہ میر شفیق الرحمان مینگل کے ایک حامی خدا بخش محمود زئی کی بازیابی بھی عمل میں آئی، جن کے اغوا کی ذمہ داری سردار اختر مینگل اور ان کے حامیوں پر عائد کی گئی تھی

مغویوں کی بازیابی کے بعد صورتحال کو معمول پر آنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور مسلح افراد کے اپنے مورچوں کو نہ چھوڑنے کی وجہ سے وڈھ میں کشیدہ صورتحال برقرار ہے

وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل ہے۔ یہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں اندازاً چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع ہے۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل وڈھ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے لیکن اس علاقے میں غالب اکثریت مینگل قبیلے کی ہے

کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع ہونے کے علاوہ زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے وڈھ کے علاقے کو اسٹریٹیجک اہمیت حاصل ہے

اگرچہ وڈھ سے زیادہ تر قوم پرست رہنما منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے عام انتخابات میں سابق نگراں وزیر اعلیٰ میر نصیر مینگل بھی رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے

جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے بعد سے وڈھ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر میر نصیر مینگل کے صاحبزادے میر شفیق الرحمان اس نشست سے سردار اختر مینگل اور ان کی پارٹی کے امیدواروں کا انتخابات میں مقابلہ کرتے رہے ہیں

سردار اختر مینگل کا موقف

بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حالات کی ذمہ داری مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے گروہ پر عائد کرتے ہوئے کہا ”سابق آمر مشرف کے دور میں بلوچستان میں قوم پرستی کی جو تحریکیں تھیں ان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ اور مسلح جتھے بنائے گئے۔ ریاستی اداروں نے ان جتھوں کو ان تحریکوں سے بلاواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والے افراد کو اغوا اور قتل کرنے کا لائسنس دیا۔ سنہ 2012 تک ان مسلح جتھوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں یہ کام بھرپور انداز سے لیا گیا تاہم اس کے بعد بھی وقت فوقتاً ان سے کام لیا جاتا رہا“

سردار اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ وڈھ میں دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ مخالف گروہ نے ان کی اراضی پر بھی قبضہ کیا۔ ”سرکار کے لوگ جب یہاں ہم سے بات چیت کے لیے آتے ہیں تو یہ مانتے ہیں کہ وڈھ میں جس اراضی پر قبضہ کیا گیا، وہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق ہماری ہے لیکن اراضی کا قبضہ ختم کرانے کی بجائے ہمیں کہتے ہیں کہ آپ لوگ پیچھے ہو جائیں“

اس سوال پر کہ شفیق الرحمان مینگل آپ پر سرداری نظام کے باعث لوگوں پر ظلم، انہیں اغوا کرنے اور نجی جیل میں ڈالنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، سرداراختر مینگل نے کہا کہ کیا یہ سرداری نظام صرف وڈھ میں ہے؟ ”سردار تو بلوچستان میں ہر جگہ ہیں۔ خود جنرل مشرف نے یہ اعلانیہ کہا تھا کہ بلوچستان کے 73 سرداروں میں تین کے سوا باقی ان کے ساتھ ہیں“

انھوں نے سوال کیا کہ ضلع خضدار کے علاقے توتک سے جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تو کیا وہاں سرداری نظام کی کوئی جیل تھی یا سرکاری سرپرستی میں قائم مسلح جتھے تھے؟

انھوں نے کہا کہ ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم پرستوں کی حکومت نے بلوچستان سے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن اس کو ختم کرنے کی بجائے ریاست اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہے

وڈھ کی حالیہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ یہاں بدامنی کے واقعات کے ساتھ ساتھ عام لوگ اور تاجر اغوا ہوتے رہے ہیں

انھوں نے کہا ”بلوچستان میں قبائلی نظام ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود شفیق الرحمان بھی اپنے قبیلے کے بعض لوگوں کا نام استعمال کر رہے ہیں لیکن جب مسلح جتھے کے مظالم سے لوگ تنگ آ گئے تو ان میں اس کے خلاف موجود لاوا پھٹ گیا اور وہ ان مظالم کے خلاف کھڑے ہو گئے“

میر شفیق الرحمان مینگل کا مؤقف

میر شفیق مینگل نے وڈھ کی تمام تر صورتحال کی ذمہ داری سردار اختر مینگل اور ان کے بھائی میر جاوید مینگل پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ مبینہ طور پر ’انڈین ڈیتھ اسکواڈ‘ کی ایما پر ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کے اغوا اور قتل میں یہی ڈیتھ اسکواڈ ملوث ہے

انھوں نے کہا کہ ”ہم سیاسی حوالے سے سرداراختر مینگل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سنہ 2018 میں جے یو آئی سے اتحاد کے باوجود سردار اختر مینگل کے مقابلے میں مجھے چودہ ہزار ووٹ ملے، جس کی وجہ سے ان کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ اگر جے یو آئی کے ساتھ اتحاد کے علاوہ سردار اختر مینگل کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو میں 2018 میں جیت جاتا“

واضح رہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ سیاست میں کسی فریق کی حمایت جیسے الزامات کے بھی ہمیشہ سے تردید کرتی آئی ہے

شفیق مینگل نے کہا کہ انھیں بدنام کرنے کے لیے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں، جن میں توتک میں اجتماعی قبروں کا الزام بھی شامل ہے

انھوں نے کہا ”دو سال قبل وڈھ میں ایک ہندو تاجر کے قتل میں مبینہ طور پر ہماری حریف سیاسی جماعت کا ایک کارکن ملوث تھا، لیکن اس کا بھی الزام ہم پر لگا کر سیاست کی گئی“

ان کا کہنا تھا ”جہاں تک موجودہ کشیدہ صورتحال کی بات ہے تو چند ماہ قبل ہمارے ’جھالاوان عوامی پینل‘ سے تعلق رکھنے والے ستر سالہ بزرگ شخص خدا بخش محمود زئی کو اغوا کر کے نجی جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہمارے جو حامی تھے ان کو اغوا کیا گیا تاکہ وہ میر شفیق الرحمان کی حمایت کو ترک کر دیں۔ اس وقت خواتین سمیت ہمارے بائیس افراد اُن کی نجی جیل میں بند ہیں“

میر شفیق مینگل کا کہنا تھا ”جب خدا بخش محمود زئی کے قبیلے کے لوگوں نے دیکھا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سردار اختر مینگل کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تو انہوں نے سردار کے ایک حامی عبدالوحید کو اغوا کر لیا، جو ان کے بقول خدا بخش کے اغوا میں ملوث تھا۔ اس کے خلاف سردار اخترمینگل کے حامیوں نے نہ صرف کوئٹہ، کراچی شاہراہ کو بند کیا بلکہ میرے گاؤں پر حملے کا اعلان کیا، جس پر میرے حامیوں نے کہا کہ وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے“

ان کا کہنا تھا کہ خدابخش محمود زئی کی بازیابی کے بعد معاملہ حل ہو گیا اور اس کے بعد کوئی ایشو نہیں رہا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمارے خلاف ایک ہزار مسلح افراد کو جمع کیا

سرکاری حکام کا موقف

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ کا کہنا ہے ”وڈھ میں جو دونوں متحارب فریق ہیں وہ پاکستانی ہیں۔ پاکستانی ہونے کے ناطے اس ملک کے جو بھی خفیہ ادارے ہیں وہ سب کے ہیں، اسٹیبلیشمنٹ بھی سب کی ہے اور حکومت بھی ہماری ہے“

ان کا کہنا تھا ”وڈھ کا مسئلہ ایک قبائلی مسئلہ ہے۔ صوبے کا وزیر داخلہ ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک قبائلی بھی ہوں اور دونوں حیثیتوں سے میری کوشش ہے کہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو“

ان کا کہنا تھا ”ماضی قریب میں وڈھ میں کشیدگی تھی اور ماحول بہت خراب تھا تاہم ہم نے وہاں کشیدگی کو کافی حد تک کم کیا ہے اور آہستہ آہستہ یہ مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری کوششیں جاری ہیں اور ان شاء اللہ ہم اس کشیدگی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے“

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ وڈھ میں موجود علاقہ عمائدین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یاد رہے کہ وڈھ میں صورتحال زیادہ کشیدہ ہونے کے بعد بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے عید سے قبل بھی وہاں کا دورہ کیا تھا۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی نے کہا کہ وڈھ میں قبائلی تنازعہ کے باعث کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ”اس وقت وہاں ایک فریق کی قیادت سردار اختر مینگل جبکہ دوسرے کی قیادت میر شفیق الرحمان مینگل کر رہے ہیں۔ حکومت نے پہلے دن سے ہی اس معاملے کو سنجیدہ لیا اور پندرہ روز قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کو خصوصی طور پر وڈھ بھیجا تھا۔ وزیر داخلہ نے آئی جی پولیس بلوچستان اور کمشنر قلات ڈویژن کے ہمراہ وڈھ کا دورہ کیا اور وہاں صورتحال کا جائزہ لینے کے علاوہ دونوں رہنمائوں سے ملاقات بھی کی“

وزیر اعلیٰ کے ترجمان کا کہنا تھا ”اس وقت دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن تھے جس کے باعث کشیدگی بہت زیادہ تھی۔ وزیر داخلہ نے فریقین کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرے گی بلکہ اس معاملے کو قانون اور انصاف کے مطابق حل کیا جائے گا۔“

بابر یوسفزئی نے بتایا ”عید سے پہلے ہی وزیراعلیٰ نے صورتحال کی بہتری کے لیے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی قیادت میں ایک وفد بھیجا، جس میں بلوچستان کے دو وزرا سردار محمد صالح محمد بھوتانی اور میر محمد خان لہڑی شامل تھے۔ حکومت کی سنجیدگی کا آپ اندازہ سے لگا سکتے ہیں کہ گذشتہ پندرہ دن سے کمشنرقلات ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر خضدار وڈھ میں ہیں اور وہ عید پر بھی اپنے گھروں کو نہیں گئے۔“

دونوں گروہوں کی جانب سے ایک دوسرے پر خفیہ اداروں اور حکومت کی حمایت حاصل ہونے کے الزامات سے متعلق سوال پر بابر یوسفزئی نے کہا ”ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں بلکہ وڈھ کا مسئلہ ایک قبائلی مسئلہ ہے اور حکومت کی یہ کوشش ہے کہ وہاں صورتحال کو تصادم کی جانب نہ جانے دے بلکہ اس کا خوش اسلوبی سے کوئی حل نکالا جائے۔“

انہوں نے فریقین سے بھی اپیل کی کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور بات چیت کے ذریعے ہی مسئلے کا حل نکالیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close