زنجیروں سے پھولوں کے ہار تک، اسپیشل اولمپکس کی مشعل اٹھانے والی ثنا کپری کی کہانی

ویب ڈیسک

یہ ستمبر 2022 کی بات ہے جب صوبہ سندھ میں ضلع میر پورخاص کی تحصیل جُھڈو میں سیلابی ریلے نے داخل ہوتے ہی تباہی مچا دی، تباہی کے باعث مکانات ڈوب گئے جبکہ جھڈو کے رہائشی مال مویشیوں کی وجہ سے ڈوبے ہوئے گھروں میں انتہائی مشکل سے گزارا کرنے پر مجبور تھے

جھڈو کا علاقہ اپنی مرچ منڈی، پران ندی اور ہر سیلاب میں زیرِ آب آنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن اس علاقے کو اب ایک نئی پہچان ملی ہے اور وہ ہے ثنا کپری

اکیس سالہ ثنا اسپیشل ایتھلیٹ ہے، جس نے گزشتہ مہینے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ اگرچہ وہ ان مقابلوں میں کوئی میڈل تو نہ جیت سکیں لیکن وہ دنیا کے ان سات کھلاڑیوں میں شامل تھیں، جن کا انتخاب اسپیشل اولمپکس کی مشعل اٹھانے کے لیے کیا گیا

یہ بات جھڈو کے ایک چھوٹے سے گاؤں حاجی نیاز محمد کپری سے تعلق رکھنے والی ثنا کے لیے یوں بھی ایک منفرد تجربہ اور اعزاز تھا کیونکہ وہ چند سال پہلے اپنے ہی گھر سے باہر بھی نہیں جا سکتی تھی

اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہنی معذوری سے لڑتی ثناء الفاظ کی درست ادائیگی سے قاصر ہے اور نہ ہی وہ کبھی اپنے بارے میں بتا نہیں سکتی ہے کہ وہ کیسا محسوس کرتی ہے۔ وہ بمشکل بولتی ہے اور دماغی طور پر بھی اپنی طبعی عمر سے پیچھے ہے۔ اس لیے ان کی نانی اس خوف سے انہیں زنجیروں میں باندھ دیتی تھیں کہ کہیں وہ گھر سے باہر سڑک پر کسی گاڑی سے نہ ٹکرا جائیں یا پانی کے تالاب میں نہ ڈوب جائیں

اسپیشل اولمپکس کی مشعل تھامنے اور مقابلوں میں حصہ لینے والی ثنا جب جرمنی سے واپس لوٹی، تو انہیں زنجیروں سے باندھ کر رکھنے والی نانی نے ہی سب سے پہلے اس کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے اور اسے پیار کیا

ثنا دو بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کے والدین خادم حسین اور نورالنساء کے مطابق ان کی پیدائش 30 اپریل 2002ء کو ہوئی۔ انہیں پیدائشی طور پر جھٹکے (فٹس) پڑنے کی بیماری تھی۔ اس طرح وہ بولنے سے معذور اور دماغی طور پر اسپیشل بچی تھیں

ثنا کو ان کے اہلِ خانہ علاج کی غرض سے بہت سی جگہوں پر لے گئے، اس دوران انہیں میرپور خاص میں ماہر نفسیات ڈاکٹر لکیشن کھتری کو دکھایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ثنا کا علاج دوا میں نہیں، بلکہ کھیل میں ہے

ثنا کی زندگی بدلنے میں اس کی قریبی عزیز خانزادی کپری کا نمایاں کردار ہے، جو اپنے گاؤں کی پہلی گریجوئیٹ طالبہ بھی ہیں۔ انہوں نے ثنا کی صلاحتیں پہچان کر انہیں اسپیشل اولمپکس پاکستان کے نمائندے نور احمد ناریجو سے متعارف کرایا۔ اس طرح ان دونوں نے ثنا کو زنجیروں سے آزاد کرایا اور کھیل کے میدان تک پہنچنے میں مدد دی

اسپیشل اولمپکس پاکستان کی ایک ٹیم نے ثنا کے والدین کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کا دماغ مختلف طریقے سے کام کرتا ہے اور دیگر انسانوں سے الگ سوچتا ہے، اس بات کو سمجھنے میں ثناء کے والدین کو کافی وقت لگا

بالآخر، مسلسل قائل کرنے کے بعد، وہ ہچکچاتے ہوئے انہیں کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے پر راضی ہوئے

ثناء کی دادی اور چچا نے انہیں میرپورخاص کے کھیلوں کے میدان میں لانا شروع کیا، جو ان کے گاؤں سے اَسی کلومیٹر دور تھا۔ آہستہ آہستہ اس میں باقاعدگی آتی گئی اور ثناء کو ہر بدھ، جمعے اور اتوار کو کھیلوں کی تربیت کے لیے گراؤنڈ میں لایا جانے لگا۔ جلد ہی، ان سب پر یہ واضح ہو گیا کہ ثنا کے پاس ایک سے زیادہ صلاحیتیں ہیں

مسلسل پریکٹس سے ثناء نے ذاتی اور ایتھلیٹک دونوں سطحوں پر بہتری لانا شروع کی اور چھ ماہ کی تربیت اور مشق کے بعد، انہوں نے پاکستان ایئر فورس بیس کراچی میں ذہنی معذور بچوں کے لیے منعقدہ کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لیا اور ایک سو میٹر دوڑ میں پہلی اور دو سو میٹر کی دوڑ میں چوتھے نمبر پر آئیں

اس مقابلے نے ان کے والدین اور ان کی برادری کے افراد کی سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا

ثنا نے کھیلوں کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دیگر کیمپوں اور سرگرمیوں میں حصہ لیا، جہاں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا

2017ء میں ثنا کو اسپیشل اولپمکس پاکستان کے کھلاڑیوں میں شامل کیا گیا جس کے بعد اس ادارے نے عروج فاطمہ کو ثنا کا کوچ مقرر کر دیا۔ انہوں نے ثنا کو روزانہ جسمانی ورزشیں اور دوڑ کی تربیت دینے کے علاوہ کھانا کھانے، اپنا خیال رکھنے اور رہن سہن کے دیگر طریقے بھی سکھائے

عروج بتاتی ہیں کہ گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے دوران تھر ایجوکیشن الائنس نامی این جی او کے قائم کردہ عارضی اسکول میں انہیں دو ماہ تک تعلیم دی گئی۔ ثنا کے پاس دوڑنے کے لئے مخصوص جوتے اور کھیلوں کا لباس نہیں تھا، جو اسپیشل اولمپکس نے انہیں مہیا کیا

پچھلے ڈیڑھ سال میں ثنا میرپور خاص ریجن، صوبہ سندھ اور قومی سطح پر کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں خصوصی افراد کے کھیلوں کے کئی مقابلوں میں 400 اور 800 میٹر فاصلے کی دوڑ میں کامیابی حاصل کر چکی ہے

17 سے 25 جون تک ہونے والے اسپیشل اولمپکس ورلڈ گیمز میں ایک سو نوے ممالک کے سات ہزار کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا

کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں مشعل پکڑ کر دوڑنے کے لئے جن سات کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا، ان میں ثنا کپڑی بھی شامل تھی

جرمنی میں ثنا کی کوچنگ اور دیکھ بحال کرنے والی ارم مجید کے مطابق انہوں 400 میٹر اور 800 میٹر کی دوڑ کے مقابلوں میں متاثر کن کارکردگی دکھائی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریلے ریس میں بھی اچھا آغاز کیا لیکن دوڑ کے دوران گر گئیں اور مقابلے میں شامل نہ رہ سکیں

ارم مجید کہتی ہیں کہ ثنا نے یوں تو دوڑ کے بہت سے مقابلے جیتے ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں واپس آ گئی ہیں ”اگر ان جیسے خصوصی بچوں کو تھوڑی توجہ سے اور پیار دیا جائے تو وہ بھی ثنا کی طرح اپنی زندگی کو بہتر اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔“

ثنا اب اپنے علاقے اور اس سے باہر کے بہت سے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے ایک تحریک بن چکی ہے اور لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close