پنجاب کا ایک گاؤں، جس کا ہر گھر انسانی سمگلنگ کا شکار ہے

نیوز ڈیسک

گجرات – پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں ونیکے تارڑ روڈ پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرنے اور کئی چھوٹی اور پتلی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تبدل کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا گاؤں کالو ساہی آتا ہے

تین سو گھروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گاؤں ایسی سینکڑوں کہانیاں رکھتا ہے جن میں سے ہر کہانی میں درد کا ایک نیا زاویہ موجود ہے

تیس سالہ تیمور احمد اس گاؤں کے درجنوں جوانوں میں سے ایک ہے، جو اپنی غربت مٹانے کے لیے دولت کمانے کے جتن کر رہا ہے

دولت کا تو معلوم نہیں، مگر اس کے گھر کا چولہا ان شعلوں کا مرہون منت ہے، جس کے ایندھن کا بندوبست وہ دیواروں پر تھری ڈی پینٹنگ کی کمائی سے کرتا ہے

کچھ عرصہ قبل اس نے دولت حاصل کرنے کے خواب کی تعبیر کے لیے زندگی کا ایک بڑا جوا کھیلا تھا، جس میں ہارنے کے بعد بمشکل اس نے اپنی زندگی بچائی۔ مقصد پانے کے لیے اس نے اپنا کُل اثاثہ ایک ایکڑ زمین بھی فروخت کر دی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم یونان جانے پر لگا دی

صرف یہی نہیں، بلکہ اس بازی میں اس نے اپنی جان کو بھی ہتھیلی پر رکھ لیا، کیونکہ اسے بتایا گیا تھا کہ ایک مرتبہ وہ یونان پہنچ یا، تو ان کی زندگی بدل جائے گی، اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور اس کے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی، لیکن یونان جانے کے لیے اسے پرخطر راستوں سے گزرنا ہوگا، کیونکہ اسے وہاں پہنچانے غیر قانونی راستہ اپنایا جائے گا

سال 2013ع میں تیمور احمد جو اَس وقت صرف بائیس سال کا تھا، غیر قانونی طریقے سے بذریعہ ایران، یونان روانہ ہو گیا۔ وہ چوبیس دیگر لوگوں کے ساتھ ایران سے ترکی پہنچنے میں کامیاب ہوا، جہاں ایک دن اسے کشتی پر بٹھایا گیا اور کہا گیا کہ اس کو چلاتے ہوئے وہ یونان کے ساحل پر چلا جائے

کشتی میں بٹھانے سے پہلے یونان کے انسانی اسمگلروں نے اس کے گھر فون پر بات کرائی اور باقی ماندہ رقم ایجنٹ کے حوالے کرنے کو کہا۔ کیونکہ ان کے درمیان معاہدہ تھا کہ سفر پر خرچ ہونے والے سات لاکھ روپے یونان کی سرحد پر پہنچتے ہی پاکستان میں ایجنٹ کے نمائندے کو دے دیے جائیں گے

اپنی روداد سناتے ہوئے تیمور کا کہنا تھا کہ اس کشتی کو چلانا بھی ہم نے خود ہی تھا۔ کوئی ایجنٹ یا کارندہ ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کشتی چلائی۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے، تقریباً دس منٹ کےسفر کے بعد کشتی ایک نوکیلی چٹان سے ٹکرائی اور پنکچر ہوگئی۔ میں اس حادثے میں زخمی ہو گیا۔ اس وقت میں نے موت کو قریب سے دیکھا اور لگا کہ ابھی کچھ ہو جائے گا

تیمور نے بتایا کہ ہم جہاں سے روانہ ہوئے، وہاں سے ابھی ساحل قریب تھا، اس لیے دو لڑکوں نے ڈر کر ساحل کی جانب جانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وہ ڈوب گئے۔ کشتی کو پنکچر لگانے اور یونان کا سفر دوبارہ شروع کرنے میں ہمیں سات گھنٹے لگے۔ جیسے ہی وہ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کر کے قریب ترین یونانی جزیرے پر پہنچے، تو پولیس نے ہمیں گرفتار کر لیا

تیمور کے اگلے چھ مہینے جیل میں گزرے۔ وہاں اس نے اپنے علاقے کے تقریبا چھ سو لوگ قید دیکھے۔ چھ مہینے کی قید کے بعد انہیں یہ وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جلد از جلد یونان سے نکل جائیں۔ تاہم انہوں نے ایجنٹ کے مشورے پر عمل کیا جس نے انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایک مرتبہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا، جس کے بعد دوبارہ گرفتاری سے بچتے ہوئے انہیں یونان میں کوئی کام شروع کرنا ہے

تیمور نے قسمت بنانے کے چکر میں کسی جاننے والے کے ذریعے دور کسی گاؤں میں ایک زمیندار کے پاس ملازمت شروع کر دی۔ ملازمت کیا تھی، یہ وہی کام تھا، جو وہ پاکستان میں اپنے گھر میں کر رہا تھا اور جس سے جان چھڑا کر وہ وہاں سے بھاگا تھا

تیمور نے بتایا ’ویسے ہی مویشیوں کو چارہ ڈالتا تھا، زمین کو پانی لگاتا۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے زمین کا ایک ٹکڑا میرا ذاتی تھا اور اب میں دیارِ غیر میں کسی کا ملازم بن کر وہی کام کر رہا تھا۔‘

کچھ ہی عرصے بعد تیمور کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور 2017ع میں اسے ڈھائی ہزار دیگر غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کے ہمراہ واپس بھیج دیا گیا۔ اب یہاں تیمور کے پاس ذاتی زمین نہیں ہے، لہٰذا وہ دیواروں پر پینٹنگ کر کے گزر بسر کر رہا ہے

تیمور سمجھتا ہے کہ ان کے اس حال کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں، جو بیرون ملک جا کر واپس آ جاتے ہیں، لیکن وہاں کی صورت حال کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔ تاہم وہ خود بھی شرمندگی کے باعث اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتا اور ان کے باقی دو بھائی بھی اپنی زمینیں بیچ کر یونان جا چکے ہیں۔ وہ چھ، چھ مہینے کی جیل کاٹنے کے بعد بھی وہاں موجود ہیں اور تاحال گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں

تیمور احمد کے مطابق ’کالو ساہی گاؤں میں کل پانچ سو گھر ہیں اور کوئی گھر ایسا نہیں ہے، جس کا کم از کم ایک فرد بیرون ملک نہ گیا ہو۔ یہ وہ دور تھا جب گجرات، منڈی بہاؤالدین سے جہلم تک نوجوانوں پر بیرون ملک جانے کا جنون سوار تھا اور میں بھی اس اس کا شکار ہو گیا۔‘

چھبیس سالہ محمد جاوید بھی اسی گاؤں کا باسی ہے۔ وہ ایک بازو سے معذور ہے اور اس کے والد نے اپنے گھر کے حالات بدلنے کے لیے چار سال مزدوری کر کے اور ادھار کی رقم سے اسے یونان بھیجا۔ جاوید نے بتایا ’میں 2014 میں ایران اور ترکی کے راستے یونان پہنچا اور آگے جیل میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہاں جو کھانا دیا جا رہا تھا، اس پر چوبیس گھنٹے گزارنا مشکل تھا۔ کافی لوگ جیل کے اندر بھی پاکستان سے ہی پیسے منگوا کر خوراک کی کمی پوری کر رہے تھے۔ میرے والد تو مجھے ایک روپیہ بھی نہیں بھیج سکتے تھے۔ میں نے جیل میں بہت بھوک دیکھی۔ ایسی بے بسی تو غربت میں اپنے ملک میں بھی نہیں تھی۔‘

جاوید اب گزر بسر کے لیے ریڑھی لگاتا ہے، اور یونان جانے کے لیے لیا جانے والا قرضہ اتارنے کی کوشش کر رہا ہے

کالو ساہی کے نمبر دار زمان تارڑ کے مطابق ان کے گاؤں کے ساڑھے تین سو سے چار سو نوجوان بیرون ممالک میں ہیں۔ جبکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک درجن کے قریب افراد ڈی پورٹ ہو کر واپس آئے ہیں اور پانچ افراد کی لاشیں واپس آئی ہیں۔

ہزاروں لوگوں کے ڈی پورٹ ہونے، مقروض ہونے اور دوران سفر ہلاک ہو جانے کے باوجود یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے. اس کی وجہ دراصل کئی سماجی، معاشی اور نفسیاتی پہلووں میں پوشیدہ ہے

پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے ذمہ دار ادارے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد اطہر وحید سمجھتے ہیں کہ اس سراب کے پیچھے طاقتور محرک معاشی صورتحال ہے۔ لوگ باہر سے دولت کمانے کے چکر میں اپنی جمع پونجی تک لگا دیتے ہیں۔

محمد اطہر وحید کے مطابق ”اوسطاً بیس سے پچیس ہزار افراد ہر سال پاکستان واپس ڈیپورٹ ہوتے ہیں اور ہر سال اس سے دگنا لوگ غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑتے ہیں۔ اس میں ایک بڑا کردار ان انسانی اسمگلروں کا ہے، جو لوگوں کو سہانے خواب دکھا کر، اس دھندے سے خود کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔“

”یہ اسمگلرز چھپ کے کام کرتے ہیں۔ کبھی بھی پیسے خود وصول نہیں کرتے، نہ سامنے آتے ہیں۔ ان میں پاکستان، ترکی، یونان اور ایران کے ایسے گروہ شامل ہیں، جو مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان ملکوں کے قانونی شہری ہیں اور اپنے اپنے کاروبار رکھنے کے علاوہ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔ ایسے ہی تین بھائیوں کا ایک گروہ ہم نے پکڑا ہے، جو تین مختلف ملکوں میں بیٹھے تھے دو ترکی میں تھے اور ایک یونان میں۔“

اطہر وحید نے بتایا کہ انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے پاکستان نے 2018ع میں قانون میں ترمیم کی ہے۔ ”ہیومن ٹریفکنگ، مہاجرین کی اسمگلنگ اور ویزا فراڈ تین مختلف چیزیں ہیں۔ اس میں سے زیادہ سنگین معاملہ مہاجرین سمگلنگ کا ہے۔ باقی دو کے لیے کسی نہ کسی طرح قانونی طریقہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔“

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر صداقت علی کے مطابق بیرون ملک جانے کے رحجان کی ایک بڑی وجہ سماجی ہے

وہ کہتے ہیں ”آپ اس نوجوان کے ذہن میں ایک دفعہ جا کر تو دیکھیں، جس کے ہم عمر نوجوان باہر سے پیسے بھیج رہے ہیں۔ اور جب ایک گاؤں کی سطح پر باہر کے ملک جانا ایک سماجی برتری کے زمرے میں آئے اور اس پر فخر کیا جائے تو نوجوانوں میں شناخت کا شدید بحران جنم لیتا ہے۔“

معاشی مسائل میں گھرے نوجوانوں کی آنکھوں میں سمائے سماجی برتری کے خواب اور دل میں مچلتی اچھی زندگی کی خواہش، اکثر ان کی زندگیوں کو موت اور اذیت کے جہنم کی طرف دھکیل رہی ہے. ہمارے وزیر اعظم بارہا کہتے رہے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں، جب باہر سے لوگ یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے، فی الحال تو یہاں بسنے والے لوگ ان نوکریوں کو ”ڈھونڈ“ رہے ہیں.. جو ان کے خوابوں اور حکمرانوں کے وعدوں میں بستی ہیں…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close