اس وقت کھیرتھر میں تباہی کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ غیر قانونی ہاؤسنگ پروجیکٹ اور جاگیردارانہ حمایت یافتہ استحصال سے مقامی کمیونٹیز اور ماحولیاتی نظام کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے
کھیرتھر نیشنل پارک پاکستان کے بڑے نیشنل پارکس میں شمار ہوتا ہے۔ 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے کو 1972ء میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا تھا۔ بعدازاں 1974ء میں اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا
یہ پاکستان کا وہ پہلا نیشنل پارک ہے، جسے اقوامِ متحدہ کی مرتب کردہ دنیا کے نیشنل پارکس کی فہرست میں شمار کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں یہ صوبہ سندھ کا واحد نیشنل پارک ہے، جبکہ قراقرم اور دیوسائی کے بعد ملک کا تیسرا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے
سنگت میگ کی ٹیم نے جب کھیرتھر نیشنل پارک کا دورہ کیا تو ایک چونکا دینے والے انکشاف ہوا، جو اس کی تباہی کی داستان سناتا ہے۔ یہ انکشاف بحریہ ٹاؤن کراچی، جو تضادات سے گہرا ہوا ایک ہاؤسنگ پروجیکٹ ہے، کی محفوظ قدرتی ذخائر میں غیر قانونی توسیع سے ہونے والے نقصان کی خطرناک حد کو ظاہر کرتا ہے۔ طاقتور جاگیردار قوتوں اور بحریہ ٹاؤن کراچی اتھارٹی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے، یہ تجاوزات مقامی لوگوں اور پارک کے نازک ماحولیاتی نظام کے لیے شدید خطرہ ہیں
تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مشترکہ تعاون سے درختوں کی اندھا دھند کٹائی ہوئی ہے، جس سے بڑے پیمانے پر جنگلات سکڑ رہے ہیں اور پارک کی متنوع جنگلی حیات کے لیے اہم رہائش گاہوں کی تباہی ہوئی ہے۔ مزید برآں، ریتی اور بجری کی کان کنی کی سرگرمیاں مزید ماحولیاتی انحطاط کا باعث بن رہی ہیں اور پارک کی ندیوں کے کنارے کے کٹاؤ کو بڑھا رہی ہیں۔
کھیرتھر نیشنل پارک میں اور اس کے آس پاس رہنے والی مقامی برادریوں کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی آبائی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ وہ غیر قانونی توسیع کے پیچھے طاقتور اداروں کی طرف سے دھمکیوں اور جبر کا نشانہ بنتے ہیں، انہیں مزید پسماندہ کر دیتے ہیں اور انہیں اپنے حقوق اور طرز زندگی کے دفاع کے لیے آواز کے بغیر چھوڑ دیتے ہیں۔
” سندھ انڈیجینئس رائٹس الائنس کے حفیظ بلوچ کا کہناہے کہ میں نے بھی حال میں اس علاقے کا دورا کیا مقامی لوگ خوفزدہ ہیں ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی زمینوں کو بیچیں، حفیظ بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ مقامی لوگ اپنی زمینیں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور کھیر تھر نیشنل پارک کے اس حصے میں جگہ جگہ بحریہ ٹاؤن نے نشانا لگانے ہیں، جس کے زد میں تاریخی قبرستان مور مرادی اور ایک اور تاریخی قبرستان ہے جو بدھا دور یا اس سے بھی پرانا ہوسکتا
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں پر ریتی بجری کی چوری بڑے پیمانے پر ہورہا ہے اور وہ بھی نیشنل پارک کے اندر وہ بھی وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سندھ کے آنکھوں کے نیچے، ہمیں مل کر کھیر تھر کو بچانا ہوگا۔”
اس سلسلے میں حفیظ بلوچ نے ایک وڈیو بھی شئیر کیا ہے
ماہرین ماحولیات اور تحفظ پسند پارک کے نازک ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے ناقابل واپسی نقصان کے بارے میں فوری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہاؤسنگ پروجیکٹ اور اس کے حامیوں کی غیر چیک شدہ سرگرمیاں ماحولیاتی عدم توازن کا باعث بن رہی ہیں جس کے خطے کی حیاتیاتی تنوع اور قدرتی وسائل کے لیے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
مشھور گلوکار سیف سمیجو نے بھی ایک ٹیویٹ کے ذریعے تمام ماحول دوست لوگوں آگے آنے اور کھیر تھر نیشنل پارک کو بچانے اور اسکو تحفظ دینے کی بات کی ہے
Calling all like-minded friends, especially fellow filmmakers! Let's come together and embark on a journey to Malir and the Kheerthar Mountains range. Our mission is to amplify the voices of the local indigenous people, who are bravely standing against the oppressive grip of… pic.twitter.com/FNE2aYhuCt
— Saif Samejo (@SaifSamejo) July 27, 2023
غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے اور مقامی برادریوں اور ماحول کے تحفظ کے لیے فوری مداخلت اور قانونی کارروائی کے مطالبات تیز ہو گئے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے تنظیمیں اور متعلقہ شہری کھیرتھر نیشنل پارک کے تحفظ کو برقرار رکھنے اور اس کے باشندوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لیے حکومت کی تیز رفتار کارروائی کے لیے مطالبہ کر رہے ہیں
جیسے جیسے صورتحال سامنے آتی ہے، عوام متعلقہ حکام کے جواب کا انتظار کرتے ہیں اور کھیرتھر نیشنل پارک میں تباہی اور استحصال کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی امید کرتے ہیں۔ پائیدار ترقی اور قدرتی خزانوں کے تحفظ کی ضرورت کو سب کے لیے سرسبز اور مساوی مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے ترجیح دینی چاہیے
کھیرتھر نیشنل پارک کو عالمی حیثیت کے حامل ہونے کے علاوہ ملکی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے، سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں کسی بھی قسم کی کھدائی، کان کنی یا کسی بھی مقاصد کے استعمال کے لیے زمین کی صفائی یا ہمواری جیسے اقدامات پر پابندی عائد ہے۔ صوبائی حکومت کے ایک اور حکم مجریہ 1970ء کے مطابق پارک میں تیل و گیس کے لیے کان کنی خصوصی طور پر ممنوع ہے
لیکن اس سب کے باوجود عالمی ورثہ قرار دیا گیا کھیرتھر نیشنل پارک کو ترقی کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے، کیا وہ کسی قانون میں جائز ہے؟ اور کیا سندھ ھائی کورٹ سے لے کر پاکستان کی سپریم کورٹ کھیرتھر نیشنل میں ہونے والی تباہی کا نوٹس لیں گی؟
2013ع کے بعد اس خطے میں دو بڑے کمرشل پراجیکٹ لانچ کیئے گئے، بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے. جس میں ملیر کی بارانی اور زرعی زمینیں متاثر ہوئیں اور ملیر کے پہاڑ اور ندیاں کو تاراج ہو گئیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کراچی کا یہ مضافاتی علاقہ زرعی اور ماحول کے نسبت سے کراچی کا ایکو سسٹم ہے، کراچی کو آکسیجن مہیا کرتا ہے ـ آج کورونا وبا کی طرح یہ پروجیکٹس کراچی کے ان پھیپھڑوں کو شدید طور پر متاثر کر رہے ہیں
ایک وقت میں اس پہاڑی سلسلے میں انواع اقسام کے ممالیہ جانور اور پرندوں کو دیکھا جاسکتا تھا، یہاں آنے والوں کی نظریں اکثر آئی بیکس یا جنگلی بکری کو تلاش کرتی تھیں۔ لیکن بحریہ ٹاؤن کی تیز رفتار غیر قانونی توسیع سے جانوروں اور پرندوں کی پناہ گاہیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔